عمران خاں کشمیر کا رخ کرنے والے ہیں۔ کیا وہ بھی بلاول اور مریم کی روش اختیار کریں گے؟ انہی پہ گولہ باری کریں گے۔ اگر وہ اس بچگانہ کھیل کا حصہ ہو گئے تو مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ کون لڑے گا؟ ٹارچر سیل میں پڑے ہزاروں نوجوانوں اور کمسن بچوں کا، جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کہاں ہیں اوران پہ کیا بیت رہی ہے۔
شہباز شریف کا تازہ فرمان یہ ہے کہ مفاہمت نہیں، وہ مشاورت کے قائل ہیں۔ قومی اداروں کی شرکت سے کاروبارِ حکومت۔ انہوں نے کہا: میں اس موقف کے ساتھ اپنی قبر میں جاؤں گا۔ خبر نگار کی بات باور کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وقائع نگار کا تبصرہ یہ ہے کہ شہباز شریف عمران خان کی جگہ لینے پر تلے ہیں۔ دل شکستہ بھی بہت کہ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے تینوں ادوار میں انہوں نے ملک کی بے پناہ خدمت کی۔ اس خدمت کا مگر اعتراف نہیں کیا گیا۔ نون لیگ کا یہ اخبار نویس کبھی مخالف تھا اور نہ کبھی عمران خان کا حامی۔
اخبار نویس کہتے ہیں، زرداری صاحب کی خواہش یہ ہے کہ سندھ کی طرح سرائیکی پٹی میں بھی ان کی سرپرستی کی جائے۔ قومی اسمبلی کی کم از کم تیس سیٹیں جیتنے کے لیے۔ 2018ء کے الیکشن سے لے کر اب تک انگریزی محاورے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اور کپتان ایک ہی صفحے پر تھے۔ طرزِ احساس میں اختلاف کے باوجود اب بھی ہم آہنگ۔ سپہ سالار نے کہا کہ وہ ایک منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں۔ جیسے کہ نواز شریف کے اقتدار میں تھے۔
اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ فضا میں گھلی ہوئی شدید تلخی کم ہوجائے کہ معیشت سنبھلے۔ عدالتیں بھی شاید یہی چاہتی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے شاید اسی لیے حکم دیا کہ مریم نواز کی گرفتاری کا جواز موجود ہوتب بھی دس دن پہلے اسے مطلع کیا جائے۔ چھٹی کے دن حمزہ شہباز کی ضمانت منظور کی گئی، پولیس جب ان کے گھر کا محاصرہ کیے تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے برس محمد علی درانی شہباز شریف سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ جیل میں پڑے مفاہمت کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ خود سے پہلے وہ صاحب زادے کی آزادی کے آرزومند تھے۔ حمزہ شہباز کے، جنہیں پرچون فروش کہاجاتاہے۔ تھوک فروش کہلانے والے سلمان شہباز پہلے ہی لندن پہنچ چکے تھے۔ اس کامیاب فرارپر نون لیگ کے ترجمان ملک احمد خاں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا: وہی ہمارا سب سے کمزور پہلو تھا۔
شہباز شریف کو صرف ضمانت نہ ملی بلکہ ان ججوں کا تبادلہ بھی کر دیا گیا، موصوف کے مقدمات کی جو سماعت کر رہے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاسم خان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انصاف بانٹنے پر وہ تلے رہتے تھے۔ انہی کا کیا ذکر عدالت، وکلا انجمنوں، سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، عدل کے جو اپنے تصورات رکھتے ہیں۔ ان تصورات کے مطابق ابر کی طرح عدل برسایا کرتے ہیں۔ جہاں بھی بس چلے، جتنا بھی زیادہ ممکن ہو۔ سرائیکی پٹی سے متعلق آصف علی زرداری کے خواب، مفاہمت یا مشاورت سے متعلق شہباز شریف کے تصورات اور اسٹیبلشمنٹ پر کپتان کا طرزِ فکر۔ کیا اس کے سوابھی کوئی تاثر ان رہنماؤں کے طرزِ کار سے ابھرتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کا آرزومند ہے۔
ایف آئی اے لاہور نے شکر اور کالا دھن سفید کرنے پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے۔ اخبار کے مطابق پچیس منٹ تک وہ مغز ماری کرتے رہے، میاں محمد شہباز شریف نے تفتیشی ٹیم کے کسی ایک سوال کا جواب بھی نہ دیا۔ اربوں کھربوں کی جائیداد کے بارے میں انہوں نے کہا: میری بیگمات سے پوچھیے۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں کہا:میرا فرزند سلمان شہباز ہی کچھ بتا سکتاہے۔ ان کے پاس بہت سی قیمتی گاڑیاں کہاں سے آئیں۔ اس پر آپ کا جواب یہ تھا کہ ایف آئی اے والوں کو اس سلسلے میں ان کے بھتیجوں سے پوچھنا چاہئیے۔ حسن نواز اور حسین نوا ز سے؟ وہ تو ملک میں موجود ہی نہیں اور واپس آنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ وہ برطانوی شہری ہیں اور احتساب کے اداروں اور پاکستانی عدالتوں کو جواب دہ ہی نہیں۔ شریف خاندان کے بینک کھاتوں میں پچیس ارب روپے کہا ں سے آگئے؟ اس سوال کا جواب یہ تھا: ہمارے وکیل بتا سکتے ہیں۔ مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔ میاں صاحب فرماتے ہیں کہ ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم ان پر ہنستی رہی۔ کیا ریکارڈ کی گئی یہ کارروائی نشر نہ کی جانی چاہئیے کہ رونے والے رو سکیں اور ہنسنے والے ہنس سکیں؟
ایف آئی اے کے تفتیش کار تنگ آگئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: جناب کچھ تو بتائیے۔ خادمِ پنجاب نے اس پر بھنا کر کہا: مسئلہ فلسطین اس قدر سنگین ہو گیا۔ آپ کو چینی اور پراپرٹی کی پڑی ہے۔ افغانستان کا بحران بھی تواتنا ہی سنگین ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔ اندیشہ ہے کہ لاکھوں افغان مہاجر پھر ایک بار پاکستان کا رخ کریں گے۔ 1980ء کے عشرے میں جب ایسا ہوا تو دنیا بھر کی اقوام پاکستان کی پشت پناہ تھیں ؛اگرچہ خود پاکستانی قوم کو بھاری قیمت چکانا پڑی مگر اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے مہاجرین، امریکہ اور اس کے ایما پر سعودی عرب اسلا م آباد کا مددگار تھا۔ اب یہ بوجھ ہمیں تنہا اٹھانا ہوگا۔ تب امریکہ ہمارا تزویراتی حلیف تھا۔ سوویت یونین اور سوشلزم کی یلغار، حیران اور ہراساں واشنگٹن کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ اب وہ بھارت کا رفیق ہے۔ روس سے بڑھ کر اب چین اس کا دردِ سر ہے۔ کیا یہ تعجب خیز نہیں کہ اپوزیشن کے اکثر لیڈر افغانستان پہ اظہارِ خیال ہی نہیں کرتے۔ با ت کریں بھی تو تینتیس برس پہلے دنیا سے اٹھ جانے والے ضیاء الحق کو ذمہ دارٹھہراتے ہیں۔ مرحوم کی سیاسی اور صحافتی بیوائیں اس پہ چپ سادھے رکھتی ہیں۔
کشمیر میں الیکشن برپا ہے۔ چیختے چلاتے بلاول بھٹو انتخابی مہم دفعتاًادھوری چھو ڑکر واشنگٹن جا پہنچے۔ کیوں اور کس لیے؟ کوئی نہیں جانتا۔ مریم نواز نے بھرپور مہم چلائی۔ جو کچھ انہوں نے ارشاد کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے: عمران خاں نے کشمیر کو بیچ ڈالا۔ صرف ان کی جماعت ہی طوفان میں ہچکولے کھاتے کشمیریوں کو ساحل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے ان کے امیدوار فاروق حیدر نے فرمایا کہ مریم ہی کشمیر کو آزاد کرائیں گی۔
مظفر آباد کو فتح کرنے کے لیے عمران خان کی حکمتِ عملی وہی ہے، جو نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی تھی۔ برادریوں کی حمایت رکھنے والے کروڑ پتیوں کو ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ البتہ کچھ سوال ایسے ہیں، جن کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز کپتان کے خلاف چیختے رہے، یہ قابلِ فہم ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قتلِ عام کے خلاف وہ کیوں بات نہیں کرتے؟ مسلمانو ں کے اس عیار قاتل مودی کے خلاف زبان کیوں نہیں کھولتے۔
عمران خاں کشمیر کا رخ کرنے والے ہیں۔ کیا وہ بھی بلاول اور مریم کی روش اختیار کریں گے؟ انہی پہ گولہ باری کریں گے۔ اگر وہ اس بچگانہ کھیل کا حصہ ہو گئے تو مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ کون لڑے گا؟ ٹارچر سیل میں پڑے ہزاروں نوجوانوں اور کمسن بچوں کا، جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ کہاں ہیں اوران پہ کیا بیت رہی ہے۔