ہنگامہ اگر نتیجہ خیز ہوا، حکومت اگرجاتی رہی تو فتنہ و فساد کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ بنے گا کچھ نہیں، بگڑے گا بہت کچھ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مولانا فضل الرحمٰن سے ہمدردی رکھنے والوں کے اندازے اگر ٹھیک ہیں تو ایک طوفان آئے گا۔ اسلام آباد نہ پہنچ سکے تو پنجاب، بلوچستان اور پختون خوا میں جھڑپیں ہوں گی۔ ان کے مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کے طلبہ کی اکثریت اگر میدان میں نکل آئی اورنون لیگ میں نواز شریف کی مانی گئی تو جنگ کا ایک میدان لاہور بھی ہوگا۔ مدتوں سے پولیس زبوں حال ہے، جذبے اور ولولے سے خالی کہ ڈٹ کر مظاہرین کا مقابلہ کرے۔ فرض کیجیے پولیس پسپا ہو جائے، حکومت پیچھے ہٹ جائے اور تازہ الیکشن کرانا پڑیں تو ملک کو کیا ملے گا۔
حکومت ناکردہ کار ثابت ہوئی۔ خان کے گرد خوشامدیوں کا گھیرا ہے۔ شاید ہی اس قدر نا اہل افسر کبھی ایوانِ اقتدار پہ مسلط ہوئے ہوں۔ مشیرانِ کرام اور بھی بڑھ کر۔ عثمان بزداراور محمودخان ایسے لائق وزرائے اعلیٰ۔ یعنی مرکز سے صوبوں کو کنٹرول کرنے کا تجربہ اور ظاہر ہے کہ یکسر ناکام۔
بہت برے وقت میڈیا پہ آتے رہے۔ ایک لحاظ سے بدترین نواز شریف کا تھا۔ مردانِ کار کی خریداری! دوچار، دس بیس نہیں، سینکڑوں اخبار نویس ہیں، جن پر عنایات کی بارش ہوئی اور ان میں سے بعض کروڑ پتی ہو گئے، بعض تو ارب پتی بھی۔ اس بے دردی سے سرکاری خزانہ لٹایا گیا کہ تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسری نظیر ہو۔ چھوٹے چھوٹے اخبار ات کو، جن کے پڑھنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ ہوگی، کروڑوں کے اشتہارات دیے گئے۔ حیلہ ساز ہر دور میں پنپتے ہیں۔ خود فریبی میں مبتلا، ہر حکمراں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی عقاب ہیں، ایک اور طرح کے عقاب۔
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد یا حقیقت
کہہ دے کوئی الّو کو اگر رات کا شہباز
لازم تھا کہ یہ پالیسی بدلی جائے مگر وہ جو ایک چیز حکمت ہوتی ہے، کپتان اور اس کے حواریوں کوچھو کر بھی نہیں گزری۔ اشتہارات بتدریج کم کیے جاتے۔ دس بیس سے لے کر پچاس ساٹھ فیصد۔ میڈیا کو بتایا جاتا کہ خزانے کی حالت کیا ہے۔ اب انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے۔ انہوں نے مگر ادائیگیاں ہی روک دیں اور فواد چوہدری جیسے شخص کو وزارتِ اطلاعات سونپ دی، جس کے دامن میں نخوت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اندازِ فکر جس کا منفی ہے۔ جو ڈانٹ کر اپنی قوم سے کہتاہے کہ وہ حکومت سے روزگار فراہم کرنے کی امید نہ رکھے۔ جس پارٹی نے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکان تعمیر کرنے کاوعدہ کیا تھا۔ ایک مکان کا مطلب ہے کم از کم چار ملازمتیں۔
کچھ بھی نہ ہوا، کچھ بھی نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ ان سپنوں کا کوئی تعلق حقائق سے ہرگز نہ تھا۔ خوشحالی کا طوفان تو کیا آتا، بے روزگاری بڑھنے لگی اور بڑھتی ہی گئی۔ گرانی کی آندھی اٹھی اور ایسی کہ خلق حواس باختہ ہو گئی اور خود حکومت بھی۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ کرنا کیا ہے۔ شکایت اس کی بجا تھی کہ خزانہ خالی ہے اور قرضوں کا ایک پہاڑ۔ بھیک کا کشکول ہاتھ میں لیے دردر وزیرِ اعظم گھومتے رہے۔ یہ قابلِ فہم تھا۔ اپنی ذات کے لیے نہیں، اپنے ملک کے لیے وہ دریوزہ گر تھے۔ المیہ یہ ہوا کہ خود ترسی میں مبتلا ہو گئے۔ تمام مسائل کے لیے، ہر عذاب کے لیے حریفوں کو ذمہ دار ٹھہرانے لگے۔ اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل وقت ملکوں اور معاشروں پر آتے رہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے اجڑے ہوئے جاپان، جرمنی، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک۔
قرینہ ایسے میں یہ ہوتاہے کہ مسائل کی فہرست بنائی جائے۔ لائحہء عمل مرتب کیا جائے، ترجیحات طے کر لی جائیں اور یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کا آغاز۔ بالکل برعکس، خان صاحب نے یہ نسخہ تجویز کیا کہ مخالفین کو اگر جیلوں میں بند کر دیا جائے، پیہم ان کی تذلیل کی جائے تو ملک ادبار سے نجات پا سکتا ہے۔ جی نہیں، ایف بی آر کی انہیں تشکیلِ نو کرنا تھی، جہاں ایک ناکارہ افسر لا بٹھایا۔ پنجاب پولیس میں اصلاحات کا آغاز کرنا تھا۔ ناصر درانی کو لے کر آئے لیکن فوراً ہی چلتا کیا۔ اس لیے کہ وہ اشارہء ابرو پر حرکت میں آنے والے نہیں تھے۔ سامنے کی سچائی کو یکسر بھلا دیا کہ ذمہ داری اختیار کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ گئے تو پرویز الٰہی سمیت سارے موقع پرست پولیس پہ پِل پڑے، کہیں بارسوخ لوگوں نے اپنی پسند کے افسر مسلط کر دیے۔ اب جرائم روز افزوں ہیں۔ پٹوار کی اصلاح کرنا تھی کہ عشروں کے ستائے لوگ سکھ کا سانس لیں، جس طرح کہ پختون خوا میں کیا تھا۔ سکول اور ہسپتال بہتر بنا نا تھے، جس طرح پختون خوامیں بنائے تھے۔ اسی لیے تو پشاور میں چہار طرف کھدے گڑھوں کے باوجود دو گنا سیٹیں جیت لی تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عدالتوں کو بہتر بنانا تھا۔ خلقِ خدا جہاں دھکے کھاتی پھرتی ہے۔ اہل کار، رشوت خور ججوں کی تعداد کم، وکلا حیلہ ساز، گواہ جھوٹے اور سماعت بے معنی۔ ججوں کی تعداد بڑھانا تھی۔ جیسا کہ نتیش کمار نے سمجھایا تھا: ججوں کی مشاورت سے، مقدمات فیصل کرنے کا دورانیہ طے کرنا تھا۔ تفتیش کو بہتر بنانا اور پولیس کی تنظیمِ نو کرنا تھی۔ کچھ بھی نہ کیا، کچھ بھی نہیں۔ بس شور مچاتے رہے کہ افسر مدد نہیں کرتے، کام نہیں کرتے، چیزوں کو الجھاتے رہتے ہیں۔ خود اپنی کمزوری کا اعلان کرنے والوں پہ ترس کون کھاتا ہے۔
کیسی تعجب کی بات ہے کہ صوبے کی حکومت میں جو کچھ سیکھا تھا، مرکز میں آتے ہی بھلا دیا۔ ایک ہی بات بس یاد رہی:کرپشن بہت ہے اور مخالفین اس کے ذمہ دار۔ صبح شام یہی ایک گیت۔ اندرونِ ملک ہی نہیں، ساری دنیا میں، اقصائے عالم میں۔
حکومت ناکام ہے مگر یہ تو ہے کہ اب کچھ قرار آنے لگا ہے۔ برآمدات زیادہ نہ بڑھیں لیکن درآمدات کم ہو ئی ہیں۔ تجارتی خسارہ کم ہوا ہے۔ رفتہ رفتہ بتدریج ہی سہی، اصلاح کا امکان ابھرا ہے۔ اب اس حکومت کو اٹھا پھینکنے سے کیا ملے گا؟ انہی لوگوں کی حکومت، تیس چالیس برس میں لوٹ لوٹ کر قوم کو جنہوں نے کنگال کر دیا۔
عشروں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ ایک حکومت جمتی نہیں کہ اکھاڑ دی جاتی ہے۔ فیلڈ مارشل کے دور سے یہی ہم سنتے آئے ہیں کہ حکومت بد ل ڈالی جائے تو بہار امڈ آئے گی۔ ایک بار بھی ایسا نہ ہوا۔ بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین۔ معاشی نمود اگر ممکن ہو سکی تو فوجی حکومتوں کے ادوار میں کہ وقتی ہی سہی، ایک استحکام سا پیدا ہو جاتاہے۔ معاشی نمو کی کلید امن اور استحکام ہیں۔ ٹھہرائو اور قرار ہی نہ ہو تو کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی۔
ہنگامہ اگر نتیجہ خیز ہوا، حکومت اگرجاتی رہی تو فتنہ و فساد کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ بنے گا کچھ نہیں، بگڑے گا بہت کچھ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں