کسی اور کی نہیں تو اس امت کو رحمتہ اللعالمینؐ ہی کے احکام کی پیروی کرنی چاہئیے۔ رحمتہ اللعالمینؐ ہی نہیں، مولائے کل ہی نہیں، وہ دانائے سبل بھی تھے۔ ان تمام راستوں سے خوب آگاہ، آنے والی تمام نسلوں کو جن سے گزرنا تھا۔
ایک طوفان ہے کہ امڈا چلا آتاہے اور ہم سوئے پڑے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ مبالغہ آرائی کی ماری قوم کو خطرے کی گھنٹی سنائی ہی نہیں دیتی۔ سرکار کو ادراک ہے اور نہ سماج کو۔ پیر کے دن ایک سو آدمی وبا سے اللہ کو پیارے ہو گئے ہسپتال بھر گئے۔ وینٹی لیٹر کم پڑتے جا رہے ہیں۔ بچاؤ ممکن ہے اور بہت آسانی سے۔ کرنا ہی کیا ہے۔ چہرے کو ڈھانپنا، لوشن لگانا اور ہاتھ دھونا۔
شہروں میں بعض علاقے بند کر دیے گئے۔ شادی ہال، سینما، پارک اورکچھ شاہراہوں پر بسیں بند کر دی گئیں۔ اس کے باوجود عظیم اکثریت احتیاط پہ آمادہ نہیں۔ آدمی جراب پہنتا ہے۔ سرما تمام ہونے کے باوجود بہت سے لوگ کوٹ اور پتلون بھی، نکٹائی لگاتے ہیں مگر ماسک بھاری۔ لاشعوری طور پر کیا یہ خودکشی کی خواہش ہے؟
کچھ گرفتار ہوئے۔ کچھ دیر کے لیے سینکڑوں کو منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑا کیا گیا۔ کوئی تدبیر لیکن کارگر نہیں۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ انگریزی میں کہتے ہیں۔ Someone should cry halt کسی نہ کسی کو چیخ کر کہنا چاہئیے۔ صدر کو کہنا چاہئیے، وزیرِ اعظم کو کہنا چاہئیے، وزراء کو، سپہ سالار کو، جنرل حضرات کو، ایک دوسرے کا منہ نوچتے سیاست کاروں کو۔ تینتالیس عدد ٹی وی چینلوں کو، سینکڑوں اخبارات اور جرائد کو چلّانا چاہئیے۔ رک جاؤ، خدا کے لیے رک جاؤ۔ اگر یہ سب ادارے کم کوشی کا شکار ہیں تو عدالتوں کو بروئے کار آنا چاہئیے، احکامات صادر کرنے چاہئیں۔
تیرہ ماہ قبل جس لیبارٹری نے کرونا کے پہلے مریض کا پتہ کیا تھا۔ پرسوں پرلے روز اس ادارے کے سربراہ نے بتایا:دس مریضوں کے خون کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے نو برطانوی قسم کے وائرس کا شکار تھے۔ تیزی سے پھیلتاہے اور زیادہ تباہ کن۔
چیچک، خسرہ، پولیو، ہیضہ، ہمیشہ وبائیں پھوٹتی رہیں، ہر بار آدم زاد نے ان سے نجات پائی۔ نئی وبا کی نوعیت مختلف ہے۔ پاکستان میں متاثرین کی تعداد تین گنا بڑھی ہے توبھارت میں چار گنا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ وبا کے بارے میں حتمی طور پر اب بھی کچھ کہانہیں جا سکتا۔ وائرس اتنا مہین اور مختصر ہے کہ بہت بڑی خوردبین ہی سے دیکھا جا سکتاہے۔ پیہم وہ شکلیں بدل رہا ہے۔ سینکڑوں قسمیں اب تک دریافت ہو چکیں۔
کئی ملکوں میں ویکسین اگرچہ بن چکی اور موثر بھی ہے۔ مکمل تدارک کے لیے مگر ابھی مہینوں بلکہ برسوں کی تحقیق درکار ہے۔۔۔ اور ایک عالمگیر مہم، دنیا کی تمام اقوام جس میں شریک ہوں۔ حکومت کا تو کیا رونا، کسی اور شعبے میں اس نے کون سا کمال کر دکھایا ہے کہ اس باب میں معجزے کی امید باندھی جاتی۔ قوم کا حال بھی پتلا ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں ایسے ہیں، جو کرونا کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔۔ اکثریت نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ وہ کہتے ہیں: اللہ خیر کرے گا۔ پاکستان ان ملکوں میں بہرحال شامل نہیں، پانی جہاں سر سے گزر گیا ہو۔ پروردگار انشاء اللہ کرم فرمائے گا کہ اس کی صفتِ رحم صفتِ غضب پہ غالب ہے۔ قدرت کے مگر کچھ قوانین ہیں، جن میں کوئی استثنیٰ نہیں ہوتا۔
ملک بھر میں ماسک بانٹے جائیں۔ بسیں، کاریں اور ریل گاڑیاں روک کر مسافروں کو یاد دہانی کرائی جائے۔ مفت نہیں تو پانچ سات روپے وصول کر کے ماسک ان کے چہروں پر چڑھا دیے جائیں۔ فقط تلقین کافی نہیں ہوا کرتی۔ سختی سے قانون نافذ کرنا بھی ضروری ہے۔
وبا کی نئی لہربرطانیہ میں مقیم پاکستانی اپنے ساتھ لائے ہیں۔ وہ قصوروار نہیں، اس لیے کہ مرض کے آثار کئی دن بعد نمودار ہوتے ہیں۔ لندن یا ہیتھروسے اسلام آباد، کراچی یا لاہور کا قصد کرنے والا صحت مند ہوتا ہے۔ بیماری کا انکشاف بعد میں ہوتا ہے۔
خود وزیرِ اعظم کے ساتھ یہی ہوا۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کا مرحلہ تھا کہ سب دروازے سینیٹروں کے لیے کھول دیے گئے۔ ایسی افراتفری میں احتیاط کچلی جاتی ہے۔ شام پڑی تو خان صاحب نے کہا کہ درد سے بدن ٹوٹ رہا ہے۔ ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا گیا لیکن کل پہ موخر کر دیا گیا۔ سفر پہ روانہ ہو گئے۔ اب وہ صحت یاب ہیں۔ بعض معاملات میں اگرچہ اب بھی غیر محتاط۔ عمر بھر لیکن کڑی ورزش کی۔ گوشت خوری کے علاوہ خورونوش میں ہر طرح کی احتیاط روا رکھی؛چنانچہ بچ نکلے۔ اس لیے بھی کہ بہترین معالج میسر تھے مگر عام آدمی؟ عام آدمی کے لیے احتیاط کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بدقستی سے اسی کا وہ شعور نہیں رکھتا۔
اپنی خودنوشت میں قدرت اللہ شہاب نے لکھاکہ کشمیر میں، جہاں وہ زیرِ تعلیم تھے، وبا پھیلی اور کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اس کے باوجود لا ابالی پن عام تھا۔۔ بنیادی المیہ آدمی کا یہ ہے کہ خال خال پوری طرح اپنی ذمہ داری ا ادراک کرتاہے۔ اسی پہلو سے قرآن کریم اسے ظالم اور جاہل کہتاہے۔ اپنے فرض کا احساس کم اور اپنی عقل پہ اعتماد زیادہ۔
طاعون کی وبا پھیلی تو امین الامت عبیدہ بن ابی جراحؓ کو عمر بن خطابؓ نے دوردراز پڑی فوج کے لیے احکاما ت جاری کیے۔ ان کے بارے میں سرکارؐ کا فرمان یہ تھا: ہر امت کا ایک امین ہوتاہے اور میری امت کے امین عبیدہ بن ابی جراح ؓ ہیں۔ با ایں ہمہ ہر نکتہ ہر آدمی پہ آشکار نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنا ہی بڑاصاحب علم کیوں نہ ہو۔ جوابی خط میں امیرالمومنینؓ سے انہوں نے دریافت کیا: عمر! کیا تم تقدیرِ الٰہی سے بھاگتے ہو؟ داناؤں کے دانا نے جواب دیا: عمر تقدیرِ الٰہی سے تقدیرِ الٰہی کی طرف جاتا ہے۔ خود عالی مرتبتؐ کا فرمان یہ ہے کہ جذام کے مریض سے فاصلہ ایک نیزے کا ہونا چاہئیے۔ عربوں کے نیزے چھوٹے ہوتے اور بڑے بھی۔ اوسطاً چھ سے سات فٹ۔ اس اصول کا اطلاق ظاہر ہے کہ ہر وبائی مرض پہ ہوگا۔
آپؐ کے فرامین کو ملحوظ رکھا جائے تو مریض کے لیے چار چیزیں ہوتی ہیں: دعا، صدقہ، پرہیز اور بہترین علاج۔ شمارکرنے والوں نے عالی جنابؐ کے فضائل شمار کرنے کی کوشش کی تو ہار گئے؛با ایں ہمہ چا ر ہزار مقامات گنے گئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپؐ اعلیٰ درجے کے طبیب بھی تھے۔ حافظہ ایسا تھا جیسے سنگ پہ لکیر۔ ملاقاتیوں میں سے ہر ایک کے علم و ادراک سے استفادہ کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فرشتہ ان سے کلام کرتا تھا، قلب آئینہ۔ ملائکہ میں سے دو نے آپ کو سونیند میں پایا تو ایک نے یہ کہا: یہ و ہ ہیں کہ نیند میں بھی دل بیدار رہتاہے۔ کسی اور کی نہیں تو اس امت کو رحمتہ اللعالمینؐ ہی کے احکام کی پیروی کرنی چاہئے۔ رحمتہ اللعالمینؐ ہی نہیں، مولائے کل ہی نہیں، وہ دانائے سبل بھی تھے۔ ان تمام راستوں سے خوب آگاہ، آنے والی تمام نسلوں کو جن سے گزرنا تھا۔
پس تحریر:ایک ٹیلیفون پر ڈھیر ہونے والا جملہ جو چینی وزیر خارجہ سے منسوب کیا گیا تھا، اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ امور خارجہ کے ممتاز ماہرین کہتے ہیں کہ یہ جملہ ایرانی ذرائع سے چھپا اور غالباً بھارت کے بارے میں ہے۔