شیکسپیئر کا قول یہ ہے:Be great in act as you have been in Thoughts۔ امتحان آ پڑے تو اپنے عمل میں وہی بالیدگی پیدا کرلو جو تمہارے افکار میں ہے۔
اوّل تو یہ کہ آزمائش لازم ہے۔ افراد یا اقوام کو ہمیشہ امتحان سے گزرنا ہوتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ ابتلا ہمیشہ بربادی لے کر نہیں آتی۔ حواس قائم رہیں اور تجزیہ خالص ہو تو نعمت بن جاتی ہے۔
سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ سبق سیکھنے پر کوئی آمادہ ہے یا نہیں؟ انہیں کہ جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں، طائف، شعب ابی طالب، بدر واحد اور جنگ خندق سے واسطہ پڑا۔ افتخار عارف کے شعر کی داد نہیں دی جا سکتی۔
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
واضح ہوا کہ جوبائیڈن اتنے ناراض کیوں تھے، ہر کسی کو فون کیا مگر افغانستان کے پڑوسی عمران خان کو نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان نے ریاست ہائے متحدہ کے عزائم آشکار کر ڈالے تھے کہ پاکستان سے تعلقات پہ نظرثانی ہو گی۔
پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے ایک عظیم طوفان کا سامنا کیا اور سرخرو ہوئی۔ ان حالات میں کہ قوم متحد نہ تھی۔ ایک عشرے سے زیادہ ہوا سوات کے قصبے خوازہ خیلہ کے لمبے تڑنگے کرنل نے ملال سے کہا! دم رخصت والد گرامی سے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے کہا: تمہارے لیے دعا کروں گا اور ان کے لیے بھی۔
ٹھیک اس وقت جب ہم بات کر رہے تھے، ہولناک دھماکہ ہوا۔ کرنل نے کہا:آپ کا ہیلی کاپٹر اڑا دیا گیا۔ عرض کیا:ہیلی کاپٹر کو چھوڑئیے، خبر لیجیے کہ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔
فوج میں سرگرمی اور طرح سے ہوتی ہے۔ جائزہ لینے کے لیے بھاگا سپاہی ایک منٹ میں لوٹ آیا۔ اس نے بتایا: بارود سے بھری ایک لینڈ کروزر کو بوریوں کے پیچھے مورچہ زن سپاہی نے اڑا دیا۔ روکنے کا حکم دیا تو گاڑی والا رکا نہیں، ڈگی پر گولی ماری گئی۔ حملہ آور ہلاک ہو گیا۔ سب لوگ ہمارے خیریت سے ہیں۔ ہیلی کاپٹر بھی سلامت تھا۔ اس نوجوان سے انٹرویو ادھورا رہا، خود کش حملے کے لیے ذہنی غسل کے عمل سے جو گزر رہا تھا کہ فوج کے ہتھے چڑھ گیا۔
حال یہ تھا کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کو ڈرامہ قرار دیا جا رہا تھا۔ عالم یہ کہ متحدہ مجلس عمل یا بعد ازاں اے این پی نہیں، سوات پہ طالبان کی حکومت تھی۔ صوفی محمد سے نفاذ شریعت کا معاہدہ ہوا مگر وہ مکر گئے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں طالبان کے کمانڈر محمد مسلم نے اس اخبار نویس سے کہا:سود خور بینکوں، پارلیمان اور آئین کو ہم نہیں مانتے۔
سمجھانے کی کوشش کہ سود کی ممانعت کے سخت احکام کے باوجود، اللہ کے آخری رسولؐ نے نفاذ میں تاخیر فرمائی، حتیٰ کہ عربوں کو صدقات کا عادی بنا دیا۔ یہ حجۃ الوداع تھا، جب آپؐ نے ارشاد فرمایا:جاہلیت کے سب زمانے میرے قدموں تلے پامال ہیں۔ آج سے میں سارے سود باطل قرار دیتا ہوں۔ نیم خواندہ کمانڈر کی ذہنی کیفیت مگر دوسری تھی، جیسی آج کل حضرت مولانا عبدالعزیز کی۔ اپنے مدرسے پر انہوں نے طالبان کا پرچم لہرایا۔ پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو ارشاد کیا: پاکستانی طالبان تم سے نمٹ لیں گے۔
شیخ رشید کا کہنا یہ ہے:ہم ان کے ساتھ بات چیت کیا کرتے ہیں ? خوف زدہ حکومت۔ ریاست نہیں، پاکستان ایک نیم ریاست ہے۔ نیوزی لینڈ ٹیم کی اچانک واپسی ظاہر ہے کہ الگ تھلگ کوئی واقعہ نہیں۔ برطانیہ بھی مکر گیا اور فروری کا وعدہ کرنے والا آسٹریلیا بھی مکر جائے گا۔
افغانستان سے بے آبرو ہو کر نکلنے والا امریکہ اور اس کے حواری، پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلے ہیں۔ دوسری عالمگیر جنگ کے ہنگام قائم ہونے والا امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کا اتحاد، Five Eyes بتدریج پھیلتا گیا۔ 1946ء کے دورۂ امریکہ میں، چرچل کی تجویز پر کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو شامل کیا گیا۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا پہلے برطانیہ کے سائے میں جیا کرتے، اب انکل سام کے۔ ان کی ٹیمیں اب پاکستان کیوں آئیں گی۔ خاص طور پر افغانستان میں پاکستان کی جسارت کے بعد۔ ہرچند مغربیوں کے پرامن انخلا میں ہم نے مدد کی، مگر آلۂ کار بننے سے انکار کر دیا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
یمن کے سوال پر عرب اتنا ہی ہم سے بگڑے تھے۔ بھاگے بھاگے دلّی گئے۔ امارات میں بت کدہ کھلا۔ مسلمانوں کو پِلّے قرار دینے والے مودی کے لیے مشرقِ وسطیٰ کا در کھلا۔ اعلیٰ ترین اعزاز اس کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ دروازہ ہم پہ بھی کھلا ہے اور چوپٹ۔ سچ تو یہ ہے کہ دستِ قدرت کامل خود مختاری کی طرف ہمیں دھکیل رہا ہے۔ ہم ہی آگے نہیں بڑھتے۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
خود ترسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو مدعو کیجیے۔ ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کو۔ امتحانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔ بحرانوں سے نمٹ کر ہی قومیں سرفراز ہوتی ہیں۔
خوش بخت ہیں کہ افغانستان سے تخریب کاری کا اندیشہ ختم ہوا۔ ایٹمی اور میزائل پروگرام، بیس سالہ جنگی تربیت اور چین بھارت کشمکش کے طفیل، دشمن کے حملے کا اندیشہ باقی نہ رہا۔
تحمل، صبر اور سلیقہ مندی سے آپ کو معاشی خود مختاری کا تہیہ کرنا ہے۔ آپس کی جوتم پیزار سے عمران خان نہیں، پاکستان کے خلاف اقدام ہوا۔ آزاد خارجہ پالیسی کے لیے اپوزیشن کو حکومت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ معاشی تعمیر نو، سیاسی استحکام اور سول اداروں کو مستحکم کیے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ پختہ عزم کے بغیر نہیں۔
اصل الاصول یہ ہے کہ ایک ذرّہ خلوص بھی پروردگار ضائع نہیں کرتا۔ صحیح سمت میں کی جانے والی کوشش کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ بے سرو ساماں طالبان نے اگر دوعالمی طاقتوں کو مار بھگایا۔ تیس پینتیس برس میں مفلس چین سپر پاور بن گیا۔ ہم کیوں ادبار سے نجات نہیں پا سکتے۔ خورشید رضوی کے ان اشعار کو ایک بار پھر پڑھیے:
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور عرصہ ایام سے ہجرت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ
اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
گیلی پولی سے بڑا امتحان ہمیں درپیش نہیں، قیام پاکستان سے مشکل مرحلہ ہرگز نہیں۔
1981ء میں چین کی فی کس آمدن پاکستان سے آدھی تھی، آدھی سے بھی کم۔ با لترتیب 180اور 380 ڈالر۔ شیکسپیئر کا قول یہ ہے:Be great in act as you have been in Thoughts۔ امتحان آ پڑے تو اپنے عمل میں وہی بالیدگی پیدا کرلو جو تمہارے افکار میں ہے۔