اقتدار، اس کے حصول اور اسے باقی رکھنے کی خواہش بے کراں ہوتی ہے، آدمی جس کی گرفت میں بے بس و لاچار ہو جاتا ہے۔ یہ بخاری شریف کی روایت ہے، بخاری شریف کی۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے حضرت ابو سفیانؓ نے یہ واقعہ بیان کیا کہ شاہِ روم ہراقل نے، ان کے پاس قریش کے قافلے میں سے ایک آدمی بلانے کو بھیجا۔ اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے شام میں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہؐ نے قریش اور ابوسفیانؓ سے ایک وقتی عہد کر رکھا تھا۔ ابو سفیانؓ اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیاء پہنچے، جہاں اس نے دربار طلب کیا تھا۔ اس وقت روم کے بڑے بڑے لوگ، وزرا، امرا، علما بیٹھے تھے۔
ہر اقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلایا۔ پھر پوچھا: تم میں سے کون شخص مدعیء رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے۔ ابوسفیانؓ کہتے ہیں، میں بول اٹھا کہ میں زیادہ قریبی رشتے دار ہوں۔ ہراقل نے حکم دیاکہ اسے میرے قریب لا بٹھائو اور اس کے ساتھیوں کو پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا، ان لوگوں سے کہہ دو، میں ابو سفیانؓ سے اس شخص یعنی محمد ﷺ کے حالات پوچھتا ہوں۔ اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔
ابوسفیانؓ کا قول ہے: اللہ کی قسم، اگر مجھے غیرت نہ آتی تو میں آپؐ کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ جو پہلی بات ہراقل نے پوچھی، وہ یہ تھی، اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا: وہ بڑے اونچے، عالی نسب ہیں۔ کہنے لگا: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگا: اچھا، اس کے بڑوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔
پھر اس نے کہا: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ میں نے کہا: نہیں بلکہ کمزوروں نے۔ پھر کہنے لگا: اس کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے۔ میں نے کہا: بڑھتے جاتے ہیں۔ کہا: دین کے سبب ہونے والی سختیوں کی وجہ سے ان میں سے کوئی مرتد ہوا۔ میں نے کہا: نہیں۔ کیا اپنے اس دعوے سے پہلے کبھی اس نے جھوٹ بولا؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہا: کبھی غداری کی ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔
اب ہماری اس سے ایک مقررہ مدّت کے لیے صلح ٹھہری ہے۔ معلوم نہیں، اس میں وہ کیا کرنے والا ہے۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی جھوٹ اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہراقل نے کہا: کیا تمہاری کبھی اس سے لڑائی بھی ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ بولا: پھر تمہاری اس جنگ کا حال کیا ہوتاہے؟ میں نے کہا: لڑائی ایک ڈول کی طرح ہے۔ کبھی وہ جیت جاتے ہیں اور کبھی ہم۔
ہراقل نے پوچھا: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ بنائو اور اپنے باپ دادا کی باتیں چھوڑ دو۔ وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ پھر ہراقل نے اپنے ترجمان سے کہا: ابو سفیان ؓسے کہہ دے! میں نے تم سے نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبراپنی قوم میں عالی نسب ہی اترتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا: دعویٰء نبوت کی بات تم میں پہلے بھی کسی نے کی تھی؟ تم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تب میں نے سوچا کہ یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی تقلید کی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے۔ تم نے کہا کہ نہیں۔ میں نے سوچا، ان کے بزرگوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوا تو کہہ دوں گا کہ دوبارہ وہ اپنے اجداد کی بادشاہت اور ملک چاہتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھاکہ اس دعوے سے پہلے کبھی اس پر دروغ گوئی کا الزام لگا؟ تم نے کہا: نہیں۔ میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص بندوں کے باب میں دروغ گوئی سے بچے، اللہ کے بارے میں وہ کیسے جھوٹی بات کہہ سکتاہے۔ میں نے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور۔ تم نے کہا: کمزور۔ میں نے کہا: تو دراصل یہی لوگ پیغمبروںؑ کے رفیق ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا: سختیوں کے باوصف اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں۔ تم نے کہا، وہ بڑھ رہے ہیں۔ ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے، حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے اور ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے کہ جن کے دلوں میں ا س کی مسرت رچ بس جائے، وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔ میں نے تم سے پوچھا: آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں، تم نے کہا، نہیں۔ پیغمبروں کا یہی حال ہوتاہے۔ وہ عہدشکنی کبھی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے کہا: وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں۔ تم نے کہا: وہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ اور نماز ادا کرنے، سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں ؛لہٰذا اگر یہ باتیں سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا، جہاں میرے یہ دونوں پائوں ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ آنے والا ہے۔ مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تمہارے اندر ہوگا۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے پائوں دھوتا۔
پھر شہنشاہ نے آپؐ کا خط منگوایا۔ اس میں لکھا تھا: اس شخص پر سلام ہو، جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تمہارے سامنے دعوتِ اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر اسلام لے آئو تو سلامتی نصیب ہوگی۔ اللہ تمہیں دہرا ثواب دے گا۔ روگردانی کرو گے تو رعایا کا گناہ بھی تمہی پر ہوگا۔
ابوسفیانؓ کہتے ہیں، ہراقل نے جو کچھ کہنا تھا، کہہ دیا، خط کو پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے گرد بہت شور و غوغا ہوا، بہت آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ راوی کا بیان ہے: ابن ناطور، ہراقل کا مصاحب اور عیسائیوں کا لاٹ پادری بیان کرتا تھا: ہراقل ایلیا آیا تو ایک صبح پریشان اٹھا۔ درباریوں نے کہا: آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔
ہراقل نجومی تھا۔ اپنے ہم نشینوں سے کہا: شب ستاروں پہ نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پہ غالب آچکا۔ ہراقل نے کہا: یہی محمدؐ اس امت کے بادشاہ ہیں۔ پھر ایک دوست کو خط لکھا، خود اسی کی طرح جو علمِ نجوم میں کامل تھا۔ پھر شہنشاہ حمص چلا گیا۔ ابھی وہیں تھا تو اس کے دوست کا خط آگیا۔ اس کی رائے بھی یہی تھی کہ محمدؐ واقعی پیغمبر ہیں۔ ہراقل نے روم کے بڑے آدمی کو اپنے محل میں طلب کیا۔ دروازے بند کر دیے گئے۔ وہ سامنے آیا اور کہا: اے روم والو!کیا ہدایت اور کامیابی کے لیے کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبیؐ کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جائو۔ یہ سننا تھا کہ یہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے مگر انہیں بند پایا۔
ہراقل نے ان کی یہ نفرت دیکھی تو کہنے لگا، ان لوگوں کو میرے پاس لائو۔ وہ آئے تو اس نے کہا: جو بات میں نے کہی تھی، اس سے دینی پختگی میں تمہارے آزمائش مقصود تھی۔ سو وہ میں نے دیکھ لی۔ وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور شاد ہو گئے۔ اقتدار، اس کے حصول اور اسے باقی رکھنے کی خواہش بے کراں ہوتی ہے، آدمی جس کی گرفت میں بے بس و لاچار ہو جاتا ہے۔ یہ بخاری شریف کی روایت ہے، بخاری شریف کی۔