خلقِ خدا کی بہبود نہیں، یہ صرف ذاتی نمود کے تمنا ئی ہیں اور سرکار ؐ کا فرمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتاہے۔ ہمارے لیڈر اقتدار کے بھوکے اور ہم سب فریب خوردہ۔
جمہوریت سے مراد اگریہ ہے کہ عام آدمی کی امنگوں او ررجحانات کو ملحوظ رکھا جائے۔ سلطانیء جمہورکا مطلب یہ ہے کہ ہیئت ِ مقتدرہ کی تشکیل خلقِ خدا کی رضا مندی سے ہو تو سر آنکھوں پر لیکن اس سے مراد اگر من مانی ہے، فتنہ وفساد کی آزادی ہے تو صد ہزار بار لعنت۔ قرآنِ مجید کہتا ہے "الفتنۃ اشد من القتل"۔ فتنہ قتل سے بھی کہیں بڑا جرم ہے۔ معلوم نہیں، یہ جملہ کس احمق نے گھڑا تھا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ اختلاف جمہوریت کی ضرورت ہے، حسن نہیں۔ معاشرے ایک کم از کم اتفاق رائے میں پنپتے ہیں۔ وہ جسے آئین کہاجاتاہے یا عمرانی معاہدہ۔
کائنات کے پروردگار نے اس دنیا کو کشمکش کے لیے پیدا کیا اور تنوع میں۔ ایک آدھ نہیں، اس کے ہزاروں اور لاکھوں رنگ اور پہلو ہیں اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ روزِ ازل آدمی کو آسمان سے کرّہء خاک پہ اتارا گیا تو بعض امور پہلے دن ہی اجاگر کر دیے گئے۔ مثلاً یہ کہ زندگی آزمائش میں ہے۔ آدمی بھوک اور خوف سے آزمایا جائے گا اور ترغیبات سے۔ ان میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔۔ اور یہ بھی کہ جب تک اس ہری بھری دنیا میں وہ جئیں گے، آخرت کی بجائے، جہاں لوٹ کر جانا ہے، ان کے دل عارضی نعمتوں کی طرف مائل رہیں گے، مائل اور مرعوب۔ شہید کامرتبہ غالباً اسی لیے خیرہ کن ہے کہ وہ زندگی اور اس کے ثمرات سے ہاتھ اٹھا لیتاہے۔ جان ہتھیلی پر رکھتاہے اور بارگاہِ ایزدی کی نذر کر دیتاہے۔ غالبؔ نے کہا ہے
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
لیکن قرآن مجید یہ کہتاہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے، انہیں مردہ نہ کہو۔ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔
جو اللہ کی راہ میں مارے گئے۔ اس کا کلمہ بلند کرنے اور اس کی عظمت کا سکّہ بٹھانے کے لیے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر نہیں، جو اقتدار کی جنگ میں مارے گئے۔ وہ مظلوم ہو سکتے ہیں، ان پہ ترس کھایا جا سکتاہے، ان کے لیے دعا کی جا سکتی ہے، قصاص طلب کیا جا سکتاہے اور اگر ایک قوم اتنی ہی احمق ہو، جتنے کہ ہم ہیں تو ان کے سروں پہ تاج سجائے جا سکتے ہیں مگر وہ شہید ہیں اور نہ کسی تقدیس کے حامل۔
سلطانیء جمہور کا قصہ بھی یہی ہے۔ کہا جاتاہے کہ فلاں اور فلاں نے جمہوریت کے لیے بہت قربانی دی۔ جیلیں کاٹیں، مقدمات بھگتے او ر حکمرانوں کے عتاب کا شکار رہے۔ جی نہیں، جمہوریت نہیں، اقتدار کے لیے۔ ان میں سے جب کسی کو اقتدار حاصل ہوا، اسی قہرمانی کا اس نے مظاہرہ کیا، جس سے خود وہ گزر کے آیا تھا۔
اس خطہء ارض میں جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن ذوالفقار علی بھٹو مانے جاتے ہیں۔ آٹھ برس تک وہ دربارِ شہی سے وابستہ رہے ؛تا آنکہ مربّی ذوالفقار علی بھٹو سے ناراض ہو گئے۔ کہنے کو بھٹو نے یہ کہا تھا"میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں، جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے۔ " فخرِ ایشیا اور قائدِ عوام کا حال یہ تھا کہ ان کے دور میں آٹا اور چینی راشن کارڈ پہ ملاکرتی۔ شرحِ نمو اوسطاً2۔ 4فیصد رہی، جس پر آج کپتان کو ہم ملامت کرتے ہیں اور بجا طور پر۔ ہر نام نہاد جمہوری لیڈر جذبات فروش ہوتا ہے اور خود پسند بھی۔ آٹھ برس تک ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ڈیگال اور صلاح الدین ایوبی کہتے رہے۔ کیسا ڈیگال اور کہاں کا صلاح الدین ایوبی؟ بھٹو کے عہدِ اقتدار میں ایوب خان دنیا سے اٹھے تو ریڈیو او رٹیلی ویژن کو خبر جاری کرنے سے روک دیا گیا۔ اخبارات کو بمشکل دوسرے صفحے پر چھ سطری خبر چھاپنے کی اجازت دی گئی۔
عمر بھر جمہوریت کا گیت گانے والے قائدِ عوام 1977ء میں لاڑکانہ سے بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ ان کے حریف مولانا جان محمد عباسی اغو اکر لیے گئے۔ آٹھ انچ، تین کالم کی ایک تصویر اخبارات کے دفاتر میں موصول ہوئی، جس کا کیپشن یہ تھا "فخرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو جو لاڑکانہ کے حلقہ نمبر 163سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے۔ " یہ وہی حلقہ ہے، جہاں جمعرات کے دن بھٹو کا نواسہ پانچ دن تک در در بھیک مانگتا رہا مگر دھتکار دیا گیا۔
کل پھر وہ جیت سکتاہے۔ اس لیے کہ دیہی سندھ جہالت کا ایک عظیم گڑھ ہے۔ بھٹو اور بے نظیر کی قبروں پر دیہاتی دعائیں مانگتے ہیں۔ صوفیا اور درویشوں کی طرح انہیں مقدس مانتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی گاڑی کے ساتھ ساتھ ہاری بھاگتے ہیں۔ ایک بار اپنے ہاتھ سے چھو لینے کی بے تاب تمنا کے ساتھ۔ بھٹو وہ تھے جنہوں نے جمعیت علماء اسلام کے مولانا شمس الدین، جماعتِ اسلامی کے ڈاکٹر نذیر، خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق اور احمد رضا قصوری کے باپ کو قتل کرایا۔ بعض کو اپنی ذاتی فوج فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعے۔ سینکڑوں دوسرے لوگوں کو بھی۔ 1977ء کی احتجاجی تحریک میں 329افراد قتل کیے گئے اور کم از کم چالیس ہزار جیلوں میں تھے۔
اوّل تو حکومت کا حق تھا ہی نہیں۔ اس لیے کہ 1970ء کے الیکشن میں اکثریت شیخ مجیب الرحمٰن کو ملی تھی۔ بھٹو کی حمایت صرف پنجاب اور سندھ میں تھی، جہاں آسانی سے صوبائی حکومتیں وہ تشکیل دے سکتے تھے مگر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی پشت پناہی سے وہ شیخ مجیب الرحمٰن کی راہ میں حائل ہو گئے۔ اقتدار کے تین بھوکے۔ انہی کی کشمکش نے ملک کو دولخت کر ڈالا۔ یحییٰ خاں صدارتی نظام چاہتے اور صدر بننے کے آرزومند تھے۔ ان دو صوبوں کے علاوہ، پیپلز پارٹی کو جہاں اکثریت حاصل تھی، بھٹو مرکز میں بھی شرکتِ اقتدار پہ مصر تھے۔ ذرا سا صبر شیخ مجیب الرحمٰن میں ہوتا تو اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی گودمیں آگرتا مگر اقتدار کے بھوکوں میں انتظار کی تاب کہاں۔
میاں محمد نواز شریف جنرل محمد ضیاء الحق کے لے پالک تھے۔ بغاوت اٹھی تو پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنرل نے کہا کہ میری عمر اسے لگ جائے۔ یہ دعا قبول ہوئی اور چار عشروں کے لیے شریف خاندان ملک پہ مسلّط ہو گیا۔ تاریخ سے نا آشنا، سچائی کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہوئے خوش فہم یابھاڑے کے ٹٹو اب نواز شریف کو جمہوریت کا ہیوی ویٹ چیمپئن ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ وہ آدمی، جس نے جی بھر کے ملک کو لوٹا اور موقع ملا تو پھر لوٹے گا۔
مقبول نواز شریف بہت ہیں، بھٹو ان سے بھی زیادہ تھے، عمران خان بھی لیکن ترجیح ان سب کی اقتدار ہے۔ من مانی کرنے والے خود پسند اور اقتدار کے بھوکے۔ کپتان نے انتظار کیا ہوتا تو اقتدار کی شاخ خودبخود اس کے قدموں میں جھکتی لیکن بے تاب کر دینے والی بھوک میں صبر کہاں۔ پروردگار، اپنی قوم اور خود پر اعتماد کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے انہوں نے مفاہمت کر لی اور یہی موصوف کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔
خلقِ خدا کی بہبود نہیں، یہ صرف ذاتی نمود کے تمنا ئی ہیں اور سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتاہے۔ ہمارے لیڈر اقتدار کے بھوکے اور ہم سب فریب خوردہ۔