Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Is Mauj Ke Matam Mein

Is Mauj Ke Matam Mein

طوفانی دریا کی طرح طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہلِ بامیان، تاجک اور ترک قبائل کے ساتھ بروقت وہ مفاہمت کرپائیں گے یا نہیں۔ معاملے کی سنگینی اور نزاکت کاکیا انہیں ادراک ہے؟ وقت ہاتھ سے پھسل جائے تو لوٹ کر نہیں آتا۔ اقبالؔ نے کہا تھا:

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

حکمت یار کے لہجے میں تکان تھی۔ کہا: میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہر ایک کو معاف کر دوں گا۔ سبھی سے مصالحت کر لوں گا۔ یہ 1991ء کا موسمِ سرما تھا۔ لاہور سے میں روانہ ہوا تو یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح آسانی سے ملاقات ہو جائے گی۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کی اس گلی میں پہنچا تو عالم ہی دوسرا تھا۔ رسائی تو کجا، محافظ گیٹ کے سامنے کھڑا ہونے کی اجازت نہ دیتے۔ بی بی سی سمیت، کتنے ہی مغربی اداروں کے نمائندے لاچار کھڑے تھے۔ دفتر کی چھت پر طیارہ شکن توپیں نصب تھیں۔ گارڈ اس قدر چوکنا کہ گویا میدانِ جنگ میں کھڑے ہوں۔ امید بر آنے کی کوئی صورت تھی ہی نہیں۔ معاً ڈاکٹر غیرت بہیر پہ نظر پڑی۔ چلّا کر میں نے انہیں آواز دی۔ میرا ہاتھ تھام کر وہ مجھے اندر لے گئے اور سیڑھیوں پر لے جا کر کھڑا کر دیا "یہیں کھڑے رہو۔ مسلسل دو راتیں جاگنے کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر وہ سوئے ہیں۔ عصر کے لیے اٹھیں تو شاید تم ان سے مل سکو"

دروازہ کھلا تو اس آدمی کو دیکھا، سالہا سال جس کے ساتھ بتائے تھے۔"آپ نے مجھے فراموش کیا" انجینئر صاحب نے کہا۔ خاموش، میں وہیں کھڑا رہا۔ گزرے ہوئے بارہ برس کی یادیں ہجوم کرتی ہوئی آئیں۔ دل ٹھکانے پر نہیں تھا۔ ہمیشہ کی طرح دھیرج سے چلتے ہوئے، وہ میرے پاس آ کھڑے ہوئے۔ اب یاد نہیں پڑتا، میں نے انہیں کیا جواب دیا۔ اصرار کرتا رہا کہ کچھ وقت عنایت کریں۔"صدر غلام اسحق خان اور وزیرِ اعظم نواز شریف سے ایک ساتھ مجھے ملنا ہے" گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا، پھر گھڑی پہ نظر ڈالی اور بولے "آپ جانتے ہیں کہ وقت کی میں سختی سے پابندی کرتا ہوں۔ آج میں لیٹ ہو جاؤں گا۔ کل سویرے مکّہ مکرمہ روانگی ہے"۔

عرض کیا: کل صبح سات بجے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ جواب سنے بغیر واپس آ گیا۔ رات گئے سونے والا آدمی صبح سویرے کیونکر اٹھا اور ٹھنڈ میں کانپتا کس طرح اس گلی میں پہنچا، اب یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ دروازہ کھلا اور ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ چند منٹ کے بعد وہ تشریف لائے۔ حزبِ اسلامی کی مجلسِ عاملہ کے ارکان متصل ہال میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ ان میں سے بعض برہمی سے مجھے گھور رہے تھے کہ یہ کہاں سے آ ٹپکا۔ ابھی کچھ دیر میں دوسرے افغان لیڈروں کے ساتھ حکمت یار کو حجازِ مقدس چلے جانا تھا۔ غالباً اس سے پہلے معاہدہء اسلام آباد کی تفصیلات سے اپنے ساتھیوں کو انہیں آگاہ کرنا اور مستقبل کے باب میں مشاورت کرنا تھی۔

عمر بھر اس ملاقات کو اخبار نویس بھول نہ سکے گا۔ تب یہ احساس مجھے نہیں تھا کہ اخبار نویس اور لیڈر کی دوستی سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہوتا۔ گاہے اسے اختلاف کرنا پڑتا ہے اور لیڈر لوگ گوارا نہیں کرتے۔ اللہ کو منظور کہ یہ تعلق خوشگوار رہے۔ مدتوں بعد پچھلے برس ملاقات ہوئی۔ میاں اسلم کے ہاں جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں سے انہیں ملنا تھا۔ پیغام ملا کہ وہیں آجاؤ۔ میاں اسلم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: اخبار نویس مدعو نہیں۔ عرض کیا: انجینئر صاحب سے تصدیق کر لیجیے، ناچیز اخبار نویس نہیں۔ ملے تو عمران خاں کے برعکس وہی بے تکلفی، وہی بے ساختگی اور باہمی اعتماد۔ میرؔصاحب نے کہا تھا

روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف

عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

اعتماد کا رشتہ ایک بار قائم ہو چکے تو حسنِ نیت اور رواداری سے ہمیشہ برقرار رہ سکتاہے۔ 1991ء کی ملاقات میں غایت صرف یہ تھی کہ تین روزہ مذاکرات کی روداد وہ خود سے بیان کر دیں کہ پوری طرح تصویر روشن ہو جائے۔

اچانک کرشماتی لیڈر نے وہ بات کہی، جو سان گمان میں نہیں تھی۔ آدمی ایسا کہ تین محاذ کھلے ہوں تو چوتھا کھولنے میں اسے تامل نہ ہوتا۔ اب مگر اس نے ادراک کر لیا تھا۔ وہ یکسر بدلا ہوا دکھا ئی دیا۔ اس نے کہا: افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اتفاقِ رائے کی حکومت ہی اسے چلا سکتی ہے۔

دفتر پہنچ کر جو خبر میں نے لکھی، اس نے گلبدین کو حیرت زدہ کر دیا: حکمت یار کو اگرچہ وزیرِ اعظم کی نامزدگی کا اختیار ہے مگر یہ عہدہ انہوں نے خود سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملاقات میں اس بات کا ذکر تک ہوا نہ تھا۔ سات کالمی شہ سرخی کے ساتھ خبر چھپی تو مجھ سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ بات کیسے کہی۔ میرا جواب یہ تھا: گھنٹے بھر کے دوران، جس انداز اور جس لہجے میں اپنے عزائم اور منصوبے انہوں نے بیان کیے، پارٹی کے سربراہ کا نہیں، وہ ایک منتظم کا انداز تھا۔ اگر میں سوال کرتا تو ظاہر ہے کہ وہ شخص کبھی راز نہ کھولتا، جس نے رازداری کو ایک سائنس بنا دیا تھا۔ ایسا ہی ایک واقعہ بیس برس کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ پیش آیا، جب سینیٹر جان کیری کے ساتھ ہونے والی ان کی گفتگو ٹی وی پر بیان کر دی۔ بہت دن وہ ناخوش رہے۔ اس کی روداد پھر کبھی۔ گاہے اس خیال کا غلبہ ہوتا ہے کہ کالم نگاری چھوڑ کر تمام ہوتے ہوئے عہد کی یادیں لکھ ڈالوں۔ کوئی خوبی ذاتی ہوا کرتی ہے اور نہ کوئی کامیابی۔ کوئی اخبار نویس تیس مار خاں نہیں ہوتا۔ قسمت جب مہربان ہو تو خبر خود اسے ڈھونڈ لیتی ہے وگرنہ بہترین کاوش بھی گاہے رائیگاں۔

شاداں و فرحاں دفتر پہنچا کہ بہت بڑی خبرجیب میں تھی مگراندیشہ کہ فیصلہ کرنے میں شاید اس نے تاخیر کر دی۔ خانہ کعبہ میں اٹھایا گیا حلف بھی نتیجہ خیز نہ ہوا۔ زمانہ گزر چکا اور جنگ کی بھٹی سلگ رہی ہے۔ فصل بونے کا ایک موسم ہوتا ہے۔ کھو دیا جائے تو کھیتی ہری ہو سکتی ہے لیکن بارآور ہرگز نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خزاں کا موسم بیت جانے کے بعد گندم بوئی جائے تو ہر روز ایک من کی متوقع پیداوار ایک کلو کم ہو جاتی ہے۔ اڑھائی فیصد روزانہ۔

پروردگار نے زندگی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ دو طرح کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ کہ امتحان درپیش ہو تو وقت کو ماتھے کے بالوں سے پکڑ تے ہیں۔ دوسرے وہ جو ایک سنہری ساعت کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ وقت کی لگام ان کے ہاتھ میں آ جائے۔ وقت کی لگام بھی کیا کبھی کسی کے ہاتھ میں آئی ہے؟ اپنی زندگیاں وہ رائیگاں کرتے ہیں۔ اگر لیڈر ہوں تو قوم کی بھی۔ جونیجو حکومت برطرف کرنے کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق آنسوؤں سے رو دیے تھے: بہت سا قیمتی وقت میں نے ضائع کر دیا۔

اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: زندگی ایک سواری ہے۔ آدمی اگر اس پر سوار نہ ہو تو وہ آدمی پہ سوار ہو جاتی ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کی قوم پر اللہ رحم کرے۔

طوفانی دریا کی طرح طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہلِ بامیان، تاجک اور ترک قبائل کے ساتھ بروقت وہ مفاہمت کرپائیں گے یا نہیں۔ معاملے کی سنگینی اور نزاکت کاکیا انہیں ادراک ہے؟ وقت ہاتھ سے پھسل جائے تو لوٹ کر نہیں آتا۔ اقبالؔ نے کہا تھا:

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ

دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.