یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ ہر بونے والے کو اپنی فصل کاٹنا ہوتی ہے مگر جذبات اور جنون کے ماروں کو یہ بات کون سمجھائے۔
تازہ افواہ یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے میڈیا ایڈوائزر افتخار درانی کو سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ خود درّانی صاحب تبصرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ چند ماہ قبل انہیں پشاور بھیج دیا گیا تھا۔ صوبے میں ضم ہونے والی قبائلی پٹی میں انہیں کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
فردوس عاشق اعوان ان سے ناراض ہیں۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں، جب وہ خاندانی منصوبہ بندی کی وزیر تھیں تو یہ ان کے دفتری رفیق تھے۔ اب یہ بات انہیں خوش نہیں آتی کہ وہ اس اہم منصب پر فائز ہوں۔ وہ ان کی جگہ شہباز گل کا تقرر چاہتی ہیں۔ چند ماہ پہلے تک جو حکومتِ پنجاب کے ترجمان تھے۔ وہ وزرا سے زیادہ چمکتے اور چہکتے مگر ایک شب اچانک ہٹا دیے گئے۔ اب بیشتر وہ نعیم الحق کے دفتر میں فروکش رہتے ہیں۔
یوسف بیگ مرزا مستعفی ہونے کے بعد اپنے گھر جا بیٹھے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں کہ ناراضی کی نوبت کیوں آئی۔ یوسف بیگ مرزا ٹی وی کی دنیا کے ممتاز ماہرین میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ عشرہ قبل بیرونِ ملک سے پاکستان آئے تو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ پاکستانی ٹیلی ویژن کے ایم ڈی بنے۔ کئی اور چینل استوار کیے اور پھر ایک دن وزیرِ اعظم کی اطلاعتی ٹیم کا حصہ ہو گئے۔
طاہر اے خان کی کہانی سب جانتے ہیں۔ وہ بھی مشیرانِ کرام میں سے ایک تھے۔ ایک دن ان کے ذاتی چینل سے نیب کے چئیرمین جسٹس جاوید اقبال کے خلاف ایک سنسنی خیز خبر نشر کی گئی۔ ایسی خبر کہ سننے والوں کو یقین ہی نہ آیا۔ سننے والے حیران رہ گئے کہ کیا ایک قومی چینل سے اس طرح کی خرافات بھی جاری ہو سکتی ہیں۔ اسی شام وہ برطرف کر دیے گئے اور طاقِ نسیاں ہو گئے۔ اب فردوس عاشق اعوان اور نعیم الحق ہیں جو فیصلے صادر کرتے ہیں۔ اللہ انہیں صحتِ کاملہ عطا کرے، نعیم الحق بیچارے بیمار ہیں اور ایسی بیماری کا شکار کہ ہمہ وقت توجہ اور علاج کی ضرورت رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی علالت کے سبب خان صاحب ان پر شفقت فرماتے ہیں۔ منصب سے الگ کرنا نہیں چاہتے اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔ علاج، آرام اور تنازعات سے دور رہنے کی ضرورت ہے ؛حتیٰ کہ پوری طرح صحت یاب ہو جائیں مگر تیور ان کے وہی ہیں۔ پہلے ایک اور پھر دوسرے معروف اخبار نویس کے بارے میں انہوں نے ٹویٹ کیا کہ وہ ہمہ وقت مدہوش رہتا ہے۔ دوسرے مشہور صحافی کے بارے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آج کل بے روزگار ہے۔ تاثر دیا کہ ذاتی پریشانیوں کے سبب اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔
لاہور کے اخبار نویس اس پر حیران رہ گئے۔ اس لیے کہ نہ صرف وہ بے روزگار نہیں بلکہ ایک ممتاز ادارے کے انتظامی سربراہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ جو الزام ان پر عائد کیا وہ یکسر بے بنیاد تھا۔ ایک متحرک رپورٹر کی زندگی انہوں نے بسر کی ہے اور کسی ادنیٰ محفل میں کبھی پائے نہیں جاتے۔
ان دونوں اخبار نویسوں نے نعیم الحق کو معاف کر دیا۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ کے متلون مزاج ہیں۔ سنجیدگی چھو کر بھی نہیں گزری۔ 2018ء کے الیکشن سے قبل جب افواہ یہ تھی کہ الیکشن کی بجائے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہو سکتی ہے تو ان کی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح اس کا حصہ ہو جائیں۔ بعض دوستوں سے سفارش کی التجا کرتے رہے۔ لاہو رسے تعلق رکھنے والے عمران خان کے ایک ممتاز اور معزز دوست ان سے ملنے گئے تو جنابِ نعیم الحق نے ان سے خلوت میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے باوجود کہ جلد انہیں لاہور پہنچنا تھا، موصوف کو وہ ایک ریستوران میں لے گئے۔ چھوٹتے ہی وہ بولے : آپ اس پارٹی میں کیوں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ آپ شریف آدمی ہیں اور یہ بے تکے بازاری لوگوں کا ایک مجمع۔۔۔
ایسا نہیں کہ نعیم الحق عمران خان کے وفادار نہ ہوں۔ پارٹی کے بنیادی ممبر ہیں۔ عمران خان کے پرانے شناسامگر مزاج ایسا پایا ہے کہ تانک جھانک سے باز نہیں رہ سکتے۔ گاہے بے وجہ ذمہ دار اخبار نویسوں سے الجھتے ہیں۔ اکثر بے مصرف لوگوں کے جمگھٹے میں رہتے ہیں۔ برہمی سوار ہو جائے تو نتائج سے بے نیاز ہو کر کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران پیپلزپارٹی کے لیڈر جمیل سومرو کو پانی کا گلاس دے مارا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیرِاطلاعات فواد چوہدری تھے۔ نعیم الحق اور فردوس عاشق اعوان کے مقابلے میں کہیں ذہین اور دلیر آدمی ہیں۔ اپنی شجاعت اور ذکاوت پر ایسا ناز ہے کہ باید و شاید۔ گزشتہ برس فیصل آباد کی ایک تقریب میں، لگ بھگ ایک ہزار معززین جہاں موجود تھے، ایک مشہور اینکر کو تھپڑ رسید کیا۔ چند ہفتے قبل ایک دوسرے، اتنے ہی ممتاز ٹی وی میزبان کو۔ اگر ان کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ وفاقی وزیر کے منصب پر فائز اتنے اہم آدمی کو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئیے۔ عامیوں کی طرح ہاتھا پائی سے گریز کرنا چاہئیے تو بھڑک کر وہ کہتے ہیں : میری عزت بھی تو کوئی چیز ہے۔ آج تک کوئی نہیں قائل نہیں کر سکا کہ اس طرح کی چیزوں سے عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
ان دونوں معتوب اخبار نویسوں پر عائد الزامات نادرست تھے۔ کم از کم اکثریت یہی سمجھتی ہے لیکن فواد چوہدری کے تہلکہ خیز طرزِ عمل سے ہمدردی انہی کے حصے میں آئی۔ پوری استقامت سے وہ آج بھی اپنے موقف میں قائم ہیں اور ممکن ہے کہ کل کلاں کوئی اور حادثہ بھی پیش آئے۔ اس باب میں ان کا طرزِ عمل طالبان کا سا ہے۔ ان لوگوں کا سا، جو نہیں جانتے کہ خوف ایسا ہتھیار ہے، جو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ خود خان صاحب بھی اس نکتے کا کچھ زیادہ ادراک نہیں رکھتے۔ غالباً یہ فواد چوہدری ہی تھے، وزیرِ اعظم کو جنہوں نے قائل کیاکہ تنقید کرنے والے اخبار نویسوں کو مستقل طور پر دبائو میں رکھنا چاہئیے بلکہ پورے کے پورے میڈیا کو۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ تنقید کرنے والے کئی طرح کے ہیں۔ چند ایک ایسے ہوسکتے ہیں جو کسی دوسری پارٹی سے وابستہ ہوں او رمفادات کی بنیاد پر وابستہ۔ کچھ مغالطوں میں مبتلا لوگ یا مزاجاً انتہا پسند۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو کبھی اتفاق اور کبھی اختلاف کرتے ہیں۔ جو توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لازم نہیں کہ وہ عداوت یا محبت رکھتے ہوں۔ پھر ایسے بھی ہیں، جن کی تحقیر کی جاتی ہے اور وہ چڑ جاتے ہیں۔ میرے دوست عدنان عادل کی طرح کچھ ایسے اخبار نویس بھی پی ٹی آئی میڈیا سیل کا شکار ہوتے ہیں جو خان صاحب سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار ہی اختلاف کی جسارت، مگر وہ بھی عتاب کا شکارہو جاتے ہیں۔
خان صاحب کی مردم شناسی اور معاملہ فہمی معلوم۔ یوں بھی پی ٹی آئی کے توانائی سے لبریز کارکن اور لیڈر باہم الجھتے رہتے ہیں۔ مگر میڈیا کے باب میں ان کا روّیہ تقریباً بچگانہ ہے۔ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ ہر بونے والے کو اپنی فصل کاٹنا ہوتی ہے مگر جذبات اور جنون کے ماروں کو یہ بات کون سمجھائے۔