ان میں سے کوئی بھی تاریخ کے افق اور آسمان پہ ستارہ بن کر جگمگائے گا نہیں۔ ان میں محمد علی جناحؒ کوئی نہیں۔ حسنِ خیال تو گاہے چمکتا ہے مگر بجھ جاتا ہے۔ حسنِ عمل کا نام و نشان تک نہیں۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
شریف خاندان لندن براجے گایا پاکستان پہ اترے گا۔ انہیں کھینچ کر لایا جائے گا یا وہ فاتحانہ آمد کا بگل بجائیں گے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے دھمکی دی ہے کہ مفرور نواز شریف کو واپس لایا جائے گا۔ برطانوی حکومت کو خط لکھا جائے گا۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ اسحٰق ڈار کو تو لایا نہ جا سکا، نواز شریف پہ لندن کو کیسے مجبور کیا جائے گا۔ وہ ان کے لیے کام کے آدمی ہیں، الطاف حسین سے زیادہ۔ الطاف حسین پر تو کالا دھن سفید کرنے اور نفرت انگیز تقریروں کے شواہد واضح تھے۔ شریف خاندان نے برطانیہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، انہیں وہ کیوں عزیز نہیں ہوں گے۔
حیرت انگیز طور پر مشیرِ اطلاعات نے الزامات کی تردید کی کہ میاں صاحب کے طبّی کوائف میں جعل سازی تھی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ علالت کی رپورٹس درست ہیں۔ اس طرح فواد چوہدری کے الزامات کی تردید کر دی، جن کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کے کاریگروں نے گھپلا کیا۔ اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی یا کسی اور مریض کے کوائف چپکا دیے۔ اس کہانی پر کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہیں، جن کے مطابق نون لیگ کا حاکم خاندان سیاست کار نہیں بلکہ مافیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ممکن ہے خون کے جو نمونے جانچ کے لیے بھجوا ئے گئے، وہ اصلی نہ ہوں۔ ان کا اب سراغ بھی لگایا نہیں جا سکتا۔ وہ مٹ چکے۔ دفتر را گائو خورد و گائو را شیر خورد۔ کاغذ وں کو گائے کھا گئی اور گائے کو شیر۔ پریوں کی کہانی لگتی ہے۔ ہر فریب اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے اور خون نہیں چھپتا۔
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا
اڈیالہ جیل میں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس اس تیزی سے گرتے رہے۔ عمران خان اس قدر گھبرائے کہ سمندر پار جانے کی اجازت دے دی۔ لندن پہنچتے ہی مستحکم کیسے ہو گئے۔ قرینِ قیاس یہ ہے کہ بندی خانے میں مریض ذہنی دبائو کا شکار تھا۔ شدید رنج میں، جسے ڈپریشن کہاجاتا ہے۔ خود ترسی اور ڈپریشن میں مبتلا مریض کی قوتِ مدافعت کام نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اتفاق رائے کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیا تو اسلام آباد سے لاہور تک روتے گئے "مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا"۔ میرا کھلونا کیوں چھین لیا۔ میری مٹھائی کیوں کھا لی۔ بے حوصلہ آدمی پر افتاد پڑتی ہے تو وہ بسورنے لگتا ہے۔ اپنے آپ پہ رحم آتا ہے اور ساری دنیا اسے ظالم دکھائی دیتی ہے۔
ہمیشہ سے طبی ماہرین یہ کہتے آئے ہیں کہ زندہ رہنے کی آرزو صحت مندی کے امکانات بڑھاتی اور مایوسی کم کرتی ہے۔ میاں صاحب گھٹن کا شکار تھے۔ ہمہ وقت اپنی پسند کا کھانا میسر نہ تھا اور اس کی وہ تاب نہیں رکھتے۔ آزادی سے محروم تھے۔ وہ ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام دیکھتے، ون سونّے کھانے کھاتے اور گپ لگانے کے عادی ہیں۔ کاروبارِ حکومت اپنے بھائی، فواد حسن فواد اور اسحٰق ڈار پہ چھوڑ رکھا تھا۔ وزیرِ اعظم نہیں، بادشاہ ہیں، وہ بادشاہ۔ عمران خان اور عدالتی نظام کے علاوہ نا ہنجار اخبار نویسوں نے زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کی۔ آخر کار جرنیلوں نے بھی۔ نفسیاتی سہارا دینے کے لیے مگر خاندان موجود تھا۔
طلال چوہدری، پرویز رشید، زبیر عمر اور دانیال چوہدری بھی۔ ہر روز پاکستان میں یافت نہ ہوتی تو لندن میں ہو جاتی۔ لندن نہ سہی، دبئی اور سوئٹزرلینڈ میں۔ دنیا بھر میں ان کا سرمایہ پڑا ہے۔ پھر ایوانِ اقتدار کا شاہانہ جلال۔ انا کو گنّے کا رس مہیا رہتا۔ خاندانی کالم نگار شاعری فرماتے، قصیدے لکھتے۔ ارشاد فرماتے کہ معیشت کا فروغ میاں صاحب کے طفیل ہے۔ ملک ایٹمی قوت ان کی عنایت سے بنا۔ کہاں رائیونڈ میں سونے کی ٹونٹیاں، کہاں مری کا گورنر ہائوس کہ بادشاہ بھی رشک کریں۔۔ اور کہاں اڈیالہ کی کال کوٹھڑی۔ دوردراز کے کھیتوں میں اسد الرحمٰن، سحر کے سانس لینے، شفق کے پھولنے میں، پھولوں کے کھلنے اور مرجھانے میں محو رہتے ہیں۔ یہ ان کا شعر ہے۔
تم نے دیکھا ہی نہیں، جیت کے ہارا ہوا شخص
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
امید مرجھاتی اور آس جب ٹوٹنے لگتی ہے تو شکست و ریخت کا ایک طوفان امنڈتا ہے۔ جسمانی عوارض تو رہے ایک طرف، قلب و دماغ پہ قیامت بیت جاتی ہے۔ حافظہ دغا دینے لگتا ہے۔ اڈیالہ جیل کے سپرنڈنٹ سے میاں صاحب نے اس کا نام پوچھا۔ پھر دوسری، تیسری، حتیٰ کہ ساتویں بار۔ آخری بار وہ خاموش رہا۔ اس پر ذرا سے وہ خفیف ہوئے کہ آخر اشرافیہ سے ہیں۔۔ اور معذرت کی۔ زمانہ گزرا کہ ان کی مختصر دورانیے کی یاداشت مرجھا چکی۔ 86ارب خلیات پر مشتمل پیچیدہ انسانی دماغ اور تحقیق کرنے والے ماہرین یہ کہتے ہیں: فطرت سے آدمی جتنا قریب ہو، شخصیت میں اتنا ہی آہنگ، جتنا دور، اتنا ہی اضطراب۔ نفسیاتی دبائو قوتِ عمل کو چاٹ جاتا ہے۔ جوشِ عمل اور فرطِ کردار کو تباہ کر دیتاہے۔
جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع
کوہ الوند ہوا، جس کی حرارت سے گداز
یکسوئی جاتی رہتی ہے اور یکسوئی چلی جائے تو باقی کاٹھ کباڑ، جھاڑ جھنکار۔ جلیل القدر عمر ابن خطابؓ اور رسولِ اکرمﷺ سے سیف اللہ کا لقب پانے والے خالد بن ولیدؓ دانشوروں کی سمجھ میں شاید نہ آسکیں۔ آئن سٹائن اور سٹیون ہاکنگ عظیم کارنامے اس لیے انجام دے سکے کہ اپنی ترجیحات میں واضح تھے، یکسو تھے۔ تضادات سے ماورا۔ تضادات کا بوجھ اٹھا کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ منزلیں طے نہیں کرتے، معرکے سر نہیں کیا کرتے۔ پیچھے رہ جاتے ہیں، خام اور بھدے بن جاتے اور ٹوٹ کر گر پڑتے ہیں۔ پامال ہو جاتے اور آخر کار بھلا دیے جاتے ہیں۔
لوٹ آئے تو نواز شریف، ان کے حواری اور اہلِ خاندان اس سوال کا جواب کیا دیں گے کہ چار ماہ تک کسی معالج کا منہ نہ دیکھا۔ کیا جواز شہباز شریف پیش کریں گے، جب واپسی کی ضمانت آنجناب نے دی تھی؟ علاج الگ، مخالفین کہتے ہیں کہ مسئلہ جائیداد کی تقسیم کا ہے۔ اسی لیے شہباز شریف کہتے ہیں کہ مریم کی آمد سے قبل وہ واپس نہیں آسکتے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
شریفین ہی نہیں، آصف علی زرداری اور عمران خاں بھی تضادات کے مارے ہیں۔ ظاہر الگ، باطن الگ۔ اعلان ایک، عمل دوسرا۔ ان میں سے کسی کا مقدر بھی یاور نہیں۔ ان میں سے کوئی بھی تاریخ کے افق اور آسمان پہ ستارہ بن کر جگمگائے گا نہیں۔ ان میں محمد علی جناحؒ کوئی نہیں۔ حسنِ خیال تو گاہے چمکتا ہے مگر بجھ جاتا ہے۔ حسنِ عمل کا نام و نشان تک نہیں۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی