آنے والے کل میں کیا لکھا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وقت ایک نیا ورق الٹنے والا ہے۔ کاٹھ کے یہ سارے کھلاڑی جل بجھیں گے۔ جہاں تک تجزیے اور تخمینے کا تعلق ہے، اب تقریباًحتمی طور پر یہ بات طے پا چکی کہ پی ٹی آئی کی حکومت پانچ برس پورے نہ کر سکے گی مگر یہ بھی نہیں کہ ہتھیلی پہ سرسوں جما دی جائے۔ جو کچھ ہوگا، بتدریج ہوگا، بندوبست کر لینے کے بعد۔
خان صاحب اور ان کے حلیف ایک دوسرے سے مطمئن نہیں۔ پنجابی محاورے میں اسے"ڈڈّئوں کی پنسیری" کہتے ہیں۔ پانچ سیر مینڈک تولنا ہیں، کیسے تولیں؟ دو چار پھدک کر اِدھر جاتے ہیں تو دو چار اُدھر۔ اس پیچیدہ مسئلے کا حل تازہ انتخابات کے سوا کیا ہو؟
ایم کیو ایم کا ماضی کیسا اور کتنا ہی گھنائونا کیوں نہ رہا ہو، مطالبات اس کے درست ہیں۔ شہر گندگی سے اٹا پڑا ہے اور ہر اگلے دن کوڑے کرکٹ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کراچی شہر سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ بگڑتا ہے تو بگڑتا رہے اور بکھرتا ہے تو بکھرتا چلا جائے۔ سر سے پائوں تک کرپشن میں لتھڑے زرداری قبیلے کا دردِ سر دیہی سندھ ہے، جس کے بل پر تین بار صوبائی الیکشن جیتے اور آئندہ بھی جیتنے کی امید کر سکتے ہیں۔ کراچی نے زرداری پر عدمِ اعتماد کی مہر ثبت کر دی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ کراچی اور حیدر آباد کے بارے میں زرداری خاندان کا اندازِ فکر یہ ہے کہ
سایۂ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ایم کیو ایم سے نالاں، جبر، بھتہ خوری اور خوں ریزی سے نالاں کراچی شہر نے دو بار عمران خاں پہ اظہارِ اعتماد کیا۔ ایک مرتبہ جزوی اور دوسری بار تقریباً مکمل طور پر۔ دسمبر 2011ء میں پی ٹی آئی کے جلسہء عام میں خلقِ خدا اس طرح امڈ کر آئی کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ الیکشن میں ابھی پندرہ سولہ ماہ باقی تھے۔ پارٹی کی تنظیم مستحکم ہوتی تو الیکشن 2013ء میں ایک تہائی سیٹیں جیت لیتی۔ ایسا نہیں تھا۔ اس لیے کہ قیادت میں شعوراور ادراک ہی نہ تھا۔ اس کے باوجود تحریکِ انصاف شہر کی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
ایم کیو ایم میں ماتم برپا تھا۔ پارٹی کے بانی نے اپنی پارٹی کے لیڈروں کو برا بھلا کہا۔ تنبیہہ اور تادیب پہ ہی اکتفا نہ کیا، کارکنوں کو حکم دیا کہ ان کی تذلیل کریں۔ ایم کیو ایم ایک عجیب پارٹی ہے۔ الطاف حسین کی قیادت میں تھی تو بس انہی کی۔ گویا ایک ذاتی جاگیر ہو۔ یوں تو سبھی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر دیوتا ہیں لیکن ایم کیو ایم کا حال تو فوجی رنگروٹوں کا سا تھا۔ پارٹی بکھر گئی، الطاف حسین سے نجات پا لی مگر رنگروٹ کے رنگروٹ ہی رہے۔ ایک مصطفی کمال کے سوا کسی کی ذہنی نشوونما نہ ہو سکی۔ کچھ کر دکھانے کا جس میں ولولہ ہو، مواقع کا وہ انتظار نہیں کیا کرتا۔ مصطفی کمال نے یہ کر دکھایا۔ رزم گاہ میں ایک دن کھڑے ہو کر اعلان کیا ع
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
ان کی اور ان کے ساتھیوں کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ الطاف حسین کے ایک اشارے پر گردنیں کاٹ دی جاتیں اورویرانوں میں بوری بند لاشیں ملتیں۔ مصطفی کمال سے زیادہ کون جانتا تھا مگر ایک وقت آتا ہے، آدمی کو جب فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی دوسری چیز ہے۔ یہ اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ عمر بھر کی تگ و دو کے باوصف کوئی ظفر مند نہیں ہوتا۔ گاہے تھوڑی سی کاوش کے ساتھ کچھ کامران ہو جاتے ہیں۔ مصطفی کمال ڈٹ گئے اور اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ ابھی کل پرسوں عزیز آباد میں وہ فاتحانہ داخل ہوئے۔ تیور ان کے یہی ہیں : ؎
شکست و فتح تو نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
فاروق ستار ایم کیو ایم کے سربراہ بنے تو عرض کیا تھا، یہ ان کے بس کی بات نہیں، نرے روبوٹ ہیں۔ طاقت کے خمار میں مبتلا لوگ کب کسی کی سنتے ہیں۔ سینیٹ کے ایک امیدوار کی دلجوئی کے لیے، کہا جا تاہے کہ ان کا مالی سرپرست تھا، خود کو انہوں نے دائو پر لگایا اور پٹ گئے۔ اب وہ ماضی مرحوم کا قصہ ہیں۔" میں ہوں اپنی شکست کی آواز" بجھ سکتے نہیں کہ اردگرد اکسانے والے کچھ موجود رہتے ہیں۔ بھڑک سکتے نہیں کہ تاب و توانائی نہیں۔ افتخار عارف کا شعر ہے ؎
اک چھوٹی سی لہر ہی تھی میرے اندر
اس لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں
فاروق ستار کے اندر ایک چھوٹی سی لہر بھی نہ تھی۔ برقی آلے کی طرح پلگ لگانے سے حرارت آجاتی اور زندوں میں ان کا شمار ہونے لگتا۔ اب خالد مقبول صدیقی ہیں۔ حیدر آباد کی خاک سے اٹھے۔ وفاداری بشرطِ استواری کی بنیاد پر ایک ایک زینہ چڑھتے ہوئے منزلِ مراد کوپہنچ گئے۔ مہم جوئی ان کا مزاج نہیں۔ قمار باز نہیں کہ جوا کھیلیں مگر متحمل مزاج مگر وہی سہاروں کے بل پر جینے والے۔ اوپر سے دبائو پڑے تو جھک جاتے ہیں۔ آندھیوں میں جیسے لچکدار درخت۔ رفقا مصر ہو جائیں تو بیچ کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیڈر وہ بھی نہیں۔ الطاف حسین کے سوا ایم کیو ایم میں لیڈر صرف مصطفی کمال ہے۔ جیتے یا ہارے، اپنی جنگ وہ لڑتا رہے گا۔
خالد مقبول صدیقی چابی کا کھلونا ہیں۔ مطالبات ان کے بجا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وزارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ انہوں نے خود کیا۔ خود کیا ہوتا تو کم از کم قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے۔ ایسا لگتاہے کہ فی الحال خان صاحب کو اشارہ دینا مقصود ہے کہ سنبھل جائو اور ہماری بات مان لو ورنہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر۔ کہنا مشکل ہے کہ فیصلہ ساتھیوں کے کہنے پر کیا یا کہیں اور سے رہنمائی فرمائی گئی۔ یہ آئندہ کچھ دنوں میں کھلے گا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو کیا چاہتے ہیں، بتدریج والدِ گرامی جن کے اختیارات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ مرکز سے الگ ہو کر سندھ حکومت کا حصہ ہو جائیں کہ سودے بازی کے لیے پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہو۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ایم کیو ایم کیا پائے گی؟ آخری تجزیے میں کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ ایک بڑے اور پیچیدہ کھیل کا حصہ ہے، بتدریج جو واشگاف ہوگا۔
اختر مینگل کا معاملہ مختلف ہے۔ بظاہر وہ گم شدہ لوگوں (missing persons) کے وکیل ہیں لیکن مقصود کچھ اور ہے۔ کبھی وہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ ان دنوں کی یاد اب بھی تڑپاتی ہے۔ ہر روز جب روزِ عید اور ہر شب شبِ برات تھی۔ شاعر نے کہا تھا ؎
کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
خلش سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے
خوابوں میں نہیں جیتے۔ بیج بوتے ہیں، پھر مسلسل آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب۔ رہی قاف لیگ تو وہ حصہ مانگتی ہے، پورا حصہ۔ پنجاب میں نون لیگ کی فصل اگر کوئی اجاڑ سکتاہے تو چوہدری۔ عمران خان یہ بات جانتے ہیں۔ بیچ میں مگر بدگمانی کی ایک بھرپور دیوار کھڑی ہے۔ خان اور چوہدریوں کے مصاحب جسے مضبوط تر کیے رکھتے ہیں۔ آنے والے کل میں کیا لکھا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وقت ایک نیا ورق الٹنے والا ہے۔ کاٹھ کے یہ سارے کھلاڑی جل بجھیں گے۔