کس چیزکا انتظار؟ آخر کس چیز کا؟ کب تک، آخر کب تک؟ فراری ذہنیت کی کوئی آخری حد ہوتی ہے، بے حسی اور سنگ دلی کی کوئی انتہا!عمران حکومت کے باب میں کوئی چیز اس قدر حیرت زدہ نہیں کرتی، جتنا کہ مقبوضہ کشمیر پہ اس کا رویّہ۔ جبر اور سفاکی کی کوئی جہت نہیں جو بروئے کار نہ آئی ہو۔ ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور وحشت اپنی انتہا کو پہنچی۔ شاید ہی کوئی گھر بچا ہو۔ شاید ہی کوئی بچہ، بوڑھا، خاتون اور نوجوان ہو، جو انتقام کا نشانہ نہیں بنا۔ اس کے باوجود کوئی لائحہ عمل ہے نہ منصوبہ۔
ایسا لگتا ہے کہ حیرت، بے بسی اور بیچارگی کا شکار حکومت تماشا دیکھنے میں مصروف ہے، محض تماشا دیکھنے میں۔ کیا ابتلااور امتحان سے دوچار اقوام اور قیادت کا رویہ ایسا ہونا چاہیے۔
مظلوم آبادیاں ہوتی ہیں اور استعمار کی گرفت میں۔ اس سے پہلے مگر ایسا کبھی نہ ہوا تھاکہ اتنی ایسی مختصر سی آبادی پر اتنی بڑی فوج چڑھا دی جائے۔ نو لاکھ مسلح جوان، نو لاکھ نہ سہی، سات آٹھ لاکھ۔ کوئی شہر، کوئی قصبہ، کوئی شاہراہ نہیں، وردی پوش جہاں موجود نہ ہوں۔ دس ہزار سے زیادہ نوجوان گرفتار ہیں۔ پوری کی پوری لیڈر شپ، سید علی گیلانی۔ عہدآئند ہ کا مورخ جن کی جرأت و جسارت بے باکی اور تابناکی کے لئے شاید موزوں الفاظ تلاش نہ کر سکے۔ یاسین ملک، جو اب دور دراز کی تہاڑ جیل میں پڑا ہے۔ دو اڑھائی عشرے، زنداں میں بسر کرنے والاشبیر شاہ۔ آئندہ زمانوں، اگلی نسلوں کے لئے ایک دمکتی ہوئی مثال آسیہ اندرابی۔
بیس برس ہوتے ہیں، ایک کشمیری لیڈر نے مجھ سے کہا تھا؛ ہم مردوں نے بھی قربانیاں دیں ہیں۔ لیکن ہماری خواتین بازی لے گئیں۔ وہ دہرے عذاب کا شکار ہیں۔ اپنے باپوں، بیٹوں، بھائیوں اور بچوں کو روتی ہیں۔ ان کی جدائی کے زخم سہتی ہیں۔ اس کے باوجود، ایک ذرا سا موقع پاتے ہی، شاہراہوں پہ پرچم بردار لپکتی ہیں۔
چالیس برس میں ایک لاکھ سے زیادہ شہید۔ ہر شہر اور قصبے میں نئے قبرستان اگ آئے، گنج شہیدان۔ ان میں کشمیر کے وہ فرزند مٹی اوڑھے سو رہے ہیں، بدترین حالات میں جنہوں نے خوف زدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ آزادی کی جدوجہد میں، کم کسی قوم نے ایسی اور اس قدر قربانیاں پیش کی ہوں گی۔ ان حالات میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ریاست ہائے متحدہ جب بھارت کی پشت پر کھڑی ہے۔ اور اس کے جلو میں یورپی یونین بھی۔ ایک محکوم آبادی پہ سب سے زیادہ اور سب سے سنگین حربے استعمال کرنے والا۔ تل ابیب، دہلی کا پشت پناہ ہے۔ حکمت عملی کی تشکیل میں اس کا دست و بازو۔ ہر ہتھیار مہیا کرنے پر آمادہ، حریت پسندوں کو جس سے کچلا جا سکتا ہو۔ چہروں پر سوراخ کرنے اور بینائی کو چاٹ لینے والی پیلٹ گنیں وہیں سے آتی ہیں۔
آزادی کی تحریکوں پہ حالات نامہربان ہیں۔ خاص طور پر مسلمانوں کے لئے۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد۔ باایں ہمہ ایک ذرا سی غفلت اور مصلحت کو اہل کشمیر نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے "ہم کیا چاہتے ہیں، آزادی"ہمیشہ بروقت وہ نعرہ زن رہتے ہیں۔ اپنے مظاہروں میں، وہ سبز پرچم لہراتے اور اعلان کرتے ہیں، "ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے" ہر شہید کے جنازے میں ہزاروں افراد امڈ آتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ چاروں طرف سے فوج کا گھیرائو۔
مودی حکومت خوف زدہ ہے۔ اس قدر خوف زدہ کہ پوری وادی کا گھیرائو کرنے کے باوجود، مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، اپنے تین سابق وزراء اعلیٰ کو قید میں ڈال رکھا ہے، عمر عبداللہ، ان کے والد فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی۔ خود بھارت کے اپوزیشن لیڈروں کو وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ بہت احتیاط کے ساتھ، مغرب سے ایسے لوگوں کا انتخاب مودی حکومت نے کیا، رعایت اور ہمدردی کی، جن سے وہ امید رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود عام لوگوں سے ملنے کی اجازت نہ دی۔ تزویراتی حلیف امریکہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ایلس ویلز کو کہنا پڑا کہ یہ ایک اندوہناک صورت حال ہے۔ انٹر نیٹ بند پڑا ہے، ہر ممکن آزادی سے عام آدمی محروم ہے۔ تمام حقوق اس کے چھین لئے گئے۔
پہلی بار، 73برس میں پہلی بار مغربی پریس بھارت کی درندگی بیان کرنے پر مجبور ہے۔ پردہ ڈالا جا سکتا ہے، حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے مگر کب تک؟ الف ننگے بادشاہ کو کب تک زرتا ر لباس میں ملفوف دکھایا جا سکتا ہے؟ عالمی ضمیر کے سامنے بھارت کو بے نقاب کرنے کے لئے عمران خان کو کس دن کا انتظار ہے؟ اس آدمی کو، جس نے کہا تھا:کشمیریوں کا میں سفیر ہوں۔ کیسا وہ سفیر ہے؟ سی این این پہ، بی بی سی کے مقبول پروگرام ہارڈ ٹاک میں، بی جے پی کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ سفید جھوٹ بولتے، پھٹی پرانی تاویلیں پیش کرتے ہوئے۔ نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، انڈی پینڈنٹ اور لندن ٹائمز میں ان کا موقف شائع ہوتا ہے۔ جس قدر ممکن ہے، حالات جتنی سی اجازت دیتے ہیں، بعض ان کے اپنے وقائع نگار مظالم کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ سنبھل سنبھل کر ہی سہی، دکھ درد کے ماروں کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ وہ جو ہسپتال نہیں پہنچ پاتے۔ وہ جو دوا کی ایک ایک گولی کو ترستے ہیں۔ جن کے گھر، کھیت اور باغ ویران پڑے ہیں۔ اپنے پیاروں سے بات کرنے اور اپنے درد کی حکایت بیانی کرنے کی بھی جنہیں مہلت نہیں۔
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے، ہم کیوں بیٹھے ہیں؟ ذہنوں کو جکڑ رکھنے والی کون سی زنجیریں ہیں؟ ہاتھ اور پائوں تو کیا، کیا ہم زبان بھی کھول نہیں سکتے؟ فریاد بھی نہیں کر سکتے؟ اقوام متحدہ سے وزیر اعظم نے خطاب کیا، بہت دلیرانہ خطاب۔ بہت داد پائی اور چہار دانگِ عالم میں چرچا ہوا۔ اس کے بعد؟ مگر اس کے بعد؟
اس سے زیاد غلغلہ تو ترکیہ میں برپا ہے۔ چھ ماہ کے دوران تیس عدد کانفرنسیں منعقد ہو چکیں۔ اس لئے کہ صدر اردوان، سب سے پہلے آگے بڑھے۔ اعلان کیا کہ ایک صدی پہلے کی نوازش کو ہم بھول نہیں سکتے، مسلم برصغیر، پوری یکسوئی کے ساتھ، جب ہماری پشت پہ آ کر کھڑا تھا۔ پاکستان اور اہل کشمیر کو کسی حال میں ہم تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ قوم کا لیڈر جب بروئے کار آتا ہے تو قوم بھی جاگتی ہے۔ ان کے ٹی وی چینلز میں مذاکرے ہیں۔ تھنک ٹینک کام میں جتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اجلاس منعقد کرتی ہیں۔ سول سوسائٹی سرگرم ہے۔
ہم تو کچھ بھی نہ کر سکے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیرصدائے جرس رہی
بھارتی مسلمانوں اور کمزور طبقات کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے بھارتی قصاب نے ایک اور موقع ارزاں کیا۔ پھر بھی ہم کچھ نہ کر سکے۔ کیا ہم فراری ذہنیت کا شکار ہیں؟ کسی غیبی امداد کے منتظر؟ 27دسمبر 1979ء کو سرخ سوویت یونین کی سفاک سپاہ افغانستان میں داخل ہوئی تو اخبار نویس ضیاء الاسلام انصاری نے جنرل محمد ضیاء الحق سے پوچھا: اب کیا ہو گا؟ دنیا کیا ہماری مدد کو آئے گی؟ جنرل کا جواب یہ تھا؛ اگر ہم کچھ کر دکھائیں تو دنیا بھی لپکتی ہوئی آئے گی۔
خون آلود کشمیر کا مقدمہ بھی اگر ہم پیش نہیں کر سکتے تو اور کیا کارنامہ انجام دیں گے؟ سامنے کے واضح نکات ہیں۔ دس بارہ نکات۔ غیر ملکی قبضہ، وزیر اعظم پنڈت نہرو کی طرف سے رائے شماری کا وعدہ اور اس سے انحراف۔ بالآخر مکمل بغاوت، آبادی کے تمام طبقات کی بغاوت۔ کرفیو، ابلاغ کے تمام ذرائع مقید۔
ایک اچھے انگریزی بولنے والے کو یہ نکات رٹائے جا سکتے ہیں۔ ان پر اٹھنے والے تمام ممکنہ سوالوں کے جواب بھی۔ ارکان پارلیمان، دانشوروں اور سفارت کاروں کے سینکڑوں وفود چھ ماہ میں تربیت پا چکے ہوتے۔ قریہ قریہ کوبہ کو پھیل چکے ہوتے۔ دنیا بھر میں شاید ماتم برپا ہوتا۔ کس چیزکا انتظار؟ آخر کس چیز کا؟ کب تک، آخر کب تک؟ فراری ذہنیت کی کوئی آخری حد ہوتی ہے، بے حسی اور سنگ دلی کی کوئی انتہا!