اخبا رنویس کے مقابلے میں شاعر اور ادیب کا تناظر وسیع ہوتاہے، بہت وسیع۔ خبر بھلا دی جاتی اور شعر زندہ رہتاہے۔ شیکسپئر کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازدا ں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا۔۔۔
اس کھیل میں تعینِ مراتب ہے ضروری
شاطِر کی عنایت سے تُو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مُہرہ ئِ نا چیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطِر کا ارادہ علامہ اقبالؔ۔۔۔
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
تخت و کلاہ و قصر کے سب سلسلے گئے
وہ دست و پا میں گڑتی سلاخوں کے روبرو
صدہا تبسموں سے لدے طاقچے گئے
آنکھوں کو چھیدتے ہوئے نیزوں کے سامنے
محرابِ زر سے اٹھتے ہوئے قہقہے گئے
ہر سانس لیتی کھال کھچی، لاش کے لیے
شہنائیوں سے جھڑتے ہوئے زمزمے گئے
دامن تھے جن کے خون کی چھینٹوں سے گلستاں
وہ اطلس و حریر کے پیکر گئے، گئے
ہر کنجِ باغ ٹوٹے پیالوں کا ڈھیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے مجید امجد۔۔۔
جاہ و جلال، دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیاں
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر افتخار عارف۔۔۔
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغ حجرہء درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علیٰ نور
بنام مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
دل نا مطمئں ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا افتخار عارف۔۔۔
اب مرے کچھ بھی نہیں ہے آس پاس
ایک تھی جو خوش گمانی ختم شد منصور آفاق۔۔۔
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر، کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر
جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جان اوپر
نقارے نوبت بان نشاں دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ مِلک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذراہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی باندی دائی دواکیا بند چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنویں کیا گھاٹ سرا کیا باغ چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
جب مرگ بنا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی تاج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیئے اورٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آھ نظیر اک بھنگا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا نظیر اکبر آبادی۔۔۔
اخبا رنویس کے مقابلے میں شاعر اور ادیب کا تناظر وسیع ہوتاہے، بہت وسیع۔ خبر بھلا دی جاتی اور شعر زندہ رہتاہے۔ شیکسپئر کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازدا ں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا