آج کل خیال اس شدت سے آتا ہے کہ ہوا جیسے خزاں رسیدہ پتوں کو اڑا لے جانا چاہے۔ ایسے میں کیا خاک لکھوں!
صوفی عائش محمد ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا ہوتا تو شک گزرتا مگر وہ تو مذاق میں بھی مبالغہ نہیں کرتے۔ کہا: کھانے کا وقت ہوا تو گلی میں جھانک کر دیکھا۔ سچّے صوفی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ سنت کو ملحوظ رکھتا ہے۔ تنہا پیٹ بھرنا پسند نہیں کرتا۔ بتایا کہ تیرہ چودہ سالہ ایک بچّہ نظر آیا۔ اس کے لیے رکابی میں سالن ڈالنے والا تھا کہ بے اختیار وہ درُود پڑھنے لگا "اللّھم صلی علیٰ محمد۔۔ "
ان کے بقول ان دنوں بہت کثرت سے وہ درُود پڑھا کرتے۔ لڑکے پر ایک ہیجان سا طاری ہو گیا اور اس عالم میں تیزی سے وہ درُود کے الفاظ دہرانے لگا "اللّھم صلی علیٰ۔۔ " اپنی ہمیشہ کی سادگی سے انہوں نے کہا: مجھے ڈر لگا، میں نے سوچا، کہیں اس کا غبارہ ہی نہ پھٹ جائے، ایک چپاتی اٹھائی، گوشت کا ایک بڑا سا ٹکڑا اس پہ رکھا اور دروازے کی راہ دکھائی۔
ایک بار اس ناچیز کی بھی صوفی صاحب نے ضیافت کی۔ حرم پاک میں تھے۔ سرگوشی میں کہا: ظہر کی نماز پہلی صف میں پڑھنی ہے۔ بے تکلفی سے عرض کیا: مجھے تو بھوک ستا رہی ہے۔ میرے ساتھ وہ باہر نکلے۔ باب فہد کے سامنے ہم ٹیکسی کے انتظار میں جا کھڑے ہوئے۔ معاملہ اب ان کے ہاتھ میں تھا۔ ایک گاڑی گزر گئی اور شاید دوسری بھی مگر رکنے کا اشارہ نہ کیا۔ تیسرے ڈرائیور سے بات کی اور ایک قریبی محلے کو روانہ ہو گئے۔ قرائن سے بعد میں اندازہ ہوا کہ یہاں ان کا ایک ذاتی ریستوران تھا۔
شوربے والا مٹن اور گرم چپاتی، سبحان اللہ۔ تندورچی سے انہوں نے کہا: صرف ایک چپاتی، اس کے بعد دوسری۔ خود وہ پانی کا گلاس لے کر آئے۔ شرمندہ بلکہ خجل، دبی زبان سے احتجاج کیا تو بولے: مسلمانوں کو اس کا حکم ہے "اکرام الضیّوف" مہمان کی تکریم۔
درویش اپنی تربیت میں لگا رہتا ہے اور دوسروں کی بھی۔ پھر وہ بات کہی کہ آج تک حیرت برقرا ر ہے۔ کہا: معاف کرنا بھائی جی۔ معلوم تھا کہ پہلی اور دوسری گاڑی چھوڑنے پر آپ خوش نہ ہوں گے مگر میں ایک اور خیال کی زد میں تھا۔ سرکارؐ ہمیشہ اچھی سواری پسند فرماتے۔
کھانے کا لطف اپنی جگہ کہ انحصار بھوک پہ ہوتا ہے لیکن کئی گھنٹے تک مسافر خاموش رہا:"تیری دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں یا رب"، وہ کہ جن کے فکر و خیال کا تانا بانا ایسے گہرے شعور اور ادراک سے بُنا ہوتا ہے۔ حسِّ مزاح صوفی صاحب کی اچھی ہے۔ ایک زمانے میں حرم پاک کے نواح میں ان کا مطبخ تھا۔ اپنے اس مرحوم ریستوران کے بارے میں ایک بار صوفی صاحب نے کہا تھا:اتنا ہجوم حجر اسود پر ہوتا یا اس مطعم میں۔ معلوم تھا کہ بہت دن پہلے سمیٹ دیا گیا تھا۔ سوال کیا اور ظاہر ہے کہ برسبیلِ تذکرہ ہی "کیا وہ حرم کی توسیع میں آگیا؟"
صوفی صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ حسرت کی ایک دھیمی سی لہر ان کی آنکھوں میں ابھری اور مرجھا گئی۔ "ہاں !حرم کی توسیع لیکن سبب کچھ اور تھا۔ "
"اور کیا سبب ہوتا؟" تعجب سے میں نے سوچا۔ صوفی صاحب بھی عجیب آدمی ہیں۔ توسیع ہوئی تو بیت اللہ کی نواحی عمارتوں کو گرانا ہی تھا۔ کہا: اصل وجہ اور تھی۔ میں نے کہا تھا: ایک تو کھانے کی قیمت کسی سے طلب نہ کی جائے۔ کھانا کھانے کے بعد ادائیگی کیے بغیر اگر کوئی چلا جائے تو اس سے تعارض نہ کیا جائے۔ دوسرے آمدن کا ایک حصہ غریب طلبہ کے لیے وقف رکھا جائے۔ دوستوں نے پرواہ نہ کی۔ اگر وہ بند نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ یہ تو انہوں نے کہا: ان کے لہجے نے یہ کہا: جس مال میں دوسروں کا حصہ نہ ہو، اس میں برکت کا کیا امکان؟
روپے کی انہیں کیا فکر ہوتی۔ غم نے آج بھی دل میں پڑائو ڈال رکھا تھا کہ آمدن کا ایک حصہ حاجت مندوں پہ کیوں صرف نہ ہوا۔ کیوں نہیں؟ کیسے کیسے لذیذ کھانے عمر بھر کھائے۔ شکر واجب ہے اور شکر ادا نہیں ہو سکتا۔ اب مگر مہاتیر محمد کی بات جی کو لگتی ہے۔ آخری لقمہ وہ ہونا چاہئیے، ذائقہ جب عروج پر ہو۔ ہمیشہ تو نہیں مگر اکثر اب پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رحیم یار خان میں ایک شکاری ہوا کرتا۔ صبح سویرے شکار پہ نکل پڑتا۔ جسیم اور بزرگ آدمی۔ ڈرتے ڈرتے ایک بار عرض کیا: کس کام میں آپ پڑے ہیں۔ ایسا اچھا باورچی آپ کے ہاں موجود ہے۔ ایک سے ایک اچھا کھانا پکاتا ہے۔ آپ ہیں کہ سرما کی کہر میں پرندے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بولے: اپنی پسند کی بات ہوتی ہے میاں۔ پرند کے گوشت کا ہتھیلی بھر شوربہ میسر ہو تو دنیا کی ہر نعمت سے افضل لگتا ہے۔ مراد یہ تھی کہ وحشت سے ٹھونسنے کی نہیں، طعام لطف اٹھانے کی چیز ہے۔ محض پیٹ بھرنا حیوان کا کام ہے، آدمی کا نہیں۔
کتنے برس بیت گئے۔ ناشتے اور دوپہر کے کھانے میں اہتما م سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ سویر میں جوکا دلیا میسر آئے۔ اتفاق سے خشک پھل اور کھجور موجود ہو تو کیا کہنے، بادام، اخروٹ اور کھجور۔ اس سے بھی زیادہ انبساط چوکر کی روٹی میں محسوس ہوتاہے۔ رحیم یار خان سے منگوائی گئی شکر اور اس پر ذراسی بالائی۔ مگر اب یہ خال خال ہی ہوتاہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا!
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
ہر روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
اہتمام کو فرصت چاہئیے اور فرصت اب کہاں۔ مطالعے کے لیے پوری مہلت نہیں ملتی تو خورونوش کیا۔ فالکن کامپلیکس میں جب تک بسیرا تھااور ایک اچھا خانساماں میسر تو دوستوں کو زحمت دی جاتی۔ خاص طور پر جامعہ پنجاب کے بعض اساتذہ۔ شرق پور سے کبھی تازہ امرود منگوائے جاتے، دیسی مرغی اور دیسی انڈے۔ فراغ ہوتا تو کبھی کبھار ایک آدھ کھانا خود بھی پکاتا۔ ع
اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
لاہور میں رات کا کھانا اکثر اب سیّد ارشاد عارف کے ساتھ کھاتا ہوں، گھر کا پکا ہوا۔ رات گئے بھوک چمک اٹھے تو باورچی خانے کا رخ کرتا ہوں۔ شکر قندی کا ایک ٹکڑا بھونتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ کن نعمتوں کو حکم دیا ہے جواز کا۔
یاد ہے کہ بچپن میں، رحیم یار خان میں لغاریوں کے اس چھوٹے سے گائوں رحیم آباد میں، سحر بی بی جی سے شکر قندی کی فرمائش کیا کرتا، چائے کے ایک پیالے کے ساتھ۔ اب ان کی یاد ہم رکاب ہوتی ہے۔ عجیب ایک اداسی فضا میں گھل جاتی ہے اور اس بے کراں محبت کا گداز جو صرف ماں کے ہاتھ اور لب و لہجے میں ہوتا ہے۔
برادرم عامر خاکوانی نے اپنے اور اس ناچیز کے پسندیدہ "کھابوں" کا ذکر کیا تو دل چاہا کہ اس موضوع پر خامہ فرسائی کروں۔ محترم گلبدین حکمت یار، صدر غلام اسحٰق خان، برادرم خالد مسعود خاں، بھائی عرفان شیخ اور سب سے بڑھ کر پروفیسر احمد رفیق اختر کی عنایات یاد آئیں۔ دھند کے اس طوفان میں مضمون کی سکت اب کہاں۔ زیادہ سے زیادہ ایک تاثر ہی رقم ہو سکتاہے۔
آج کل خیال اس شدت سے آتا ہے کہ ہوا جیسے خزاں رسیدہ پتوں کو اڑا لے جانا چاہے۔ ایسے میں کیا خاک لکھوں!