ہم اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ غیب تو بس اللہ ہی جانتا ہے۔ مکّرر عرض ہے کہ بھارت کو دلدل میں دھنسا کر قدرتِ کاملہ نے ایک سنہری تاریخی موقع ہمیں عطا کیا ہے۔ ہمیں اپنا گھر سنبھالنا چاہئیے۔ دشمن خود اپنے جال میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔
کیسا چونکا دینے والا واقعہ ہے۔ توجیہہ یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت آپڑی ہے۔ افغانستان سے انخلا کے لیے صدر ٹرمپ بے چین ہیں۔ انہیں الیکشن جیتنا ہے، معیشت کو فروغ دینا ہے۔ افغانستان میں 80-90 بلین ڈالر سالانہ کی بچت ممکن ہے۔ طالبان سے کوئی معاملہ اور افغانستان میں امریکی رسوخ کی بقا پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات زیادہ کشیدہ نہ ہوں۔
ایک بہت باخبر آدمی نے رازداری کے ساتھ بتایا کہ مارچ تک کشمیر کی سرحد پہ بھارت مہم جوئی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کے پاس شواہد موجود ہیں۔ امریکیوں کو مطلع کیا جا چکا۔ ان کا دردِ سر یہ بھی ہے کہ پاکستان مکمل طور پر چین کے ساتھ نہ چلا جائے۔ ان کی خواہش ہے کہ سی پیک کو ختم نہیں تو محدود کر دیا جائے۔ پاک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کووہ قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہ وہ بہتر شرائط پر قرض مہیا کر سکتے اور پاکستان میں معاشی استحکام کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
اسلام آباد کے بارے میں تمام تحفظات اور ساری مسلم دشمنی کے باوجود، واشنگٹن کا دردِ سر چین ہے۔ کورونا وائرس الگ مگر ساری دنیا میں وہ طوفان کی طرح بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ امریکی عزائم اور منصوبوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہی ہے۔ اسے روکنا ہے تو پاکستان کو امریکی بلاک میں شامل کرنا ہوگا۔ ان تجزیہ کرنے والوں کو یقین ہے کہ احمد آباد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا، سوچ سمجھ کر کہا۔ وہ بھارت کو پاکستان پر حملے سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔
امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک سے بھارت دلدل میں اترتا چلا جائے گا۔ ایک جنگل میں، جہاں راستہ سجھائی نہ دے۔ ایک صحرا میں، جہاں کوئی نشانِ منزل نہ ہو۔ خود اپنے اور بھارت کے مفاد میں، دونوں ملکوں کے درمیان کم از کم وہ وقتی مفاہمت کے خواہشمند ہیں۔ یہ سب بجا مگر کچھ سوالات ہیں۔ امریکی صدر کو نریندر مودی نے کس لیے مدعو کیا تھا۔ خاص طور پر احمد آباد کا انتخاب انہوں نے کس لیے کیا؟
ظاہر ہے کہ اپنے حلقہء انتخاب کو مضبوط کرنے اور ظاہر ہے کہ بھارت امریکہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے۔ امریکی اور بھارتی اندازِ فکر میں ایک بنیادی تضاد ہے۔ امریکہ اسلام آباد کو لبھانا اور برتنا چاہتا ہے، اگرچہ دل ان کا بھارت کے ساتھ ہے۔ مگر ان کے مفادات اور مجبوریاں ہیں۔ بالکل برعکس نریندر مودی پاکستان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو سکّم، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی طرح اسے کمزور اور محتاج رکھنا۔
بھارتی رائے عامہ میں پاکستان کے خلاف نفرت کے شدید جذبات پیدا کیے جا چکے۔ بھارتیوں کو توقع تھی کہ پاکستان کو توڑ دیا جائے گا یا زخم لگا کر جھکنے پر مجبور۔ امریکی تجزیہ مختلف نظر آتا ہے۔ واشنگٹن اور پینٹا گان ادراک رکھتے ہیں کہ پندرہ برس سے دہشت گردوں سے نبرد آزما ایٹمی پاکستان کی فوج بہترین حالت میں ہے۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے، پامال اور خستہ نہیں کر سکتا۔ جھکنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
صدر ٹرمپ کے دورے میں کھنڈت تو ایسی پڑی ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ اوّل حیران و پریشان ہوئے۔ پھر برہم اور برا فروختہ۔ نجی ٹی وی چینلز پر مبصر چیخ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خواب تو یہ تھا کہ پاکستا ن کو الگ تھلگ کر دیا جائے۔ یہ کیا ہوا کہ امریکی صدر نے اعلانیہ طور پر پاکستان کی اہمیت کا اعتراف کیا۔ وہ بھی ایسے موقع پر، جب ہرگز ہرگز ایسی کوئی توقع نہ تھی۔ رنج اور وحشت کا شکار ہو کر وہ میلانیا ٹرمپ کی نیم عریاں تصاویر چھاپ رہے ہیں، جو کبھی ایک سپر ماڈل تھی او رنمائش میں حد سے گزر جایا کرتی۔
وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عزتِ نفس سے محروم ٹرمپ ایک بے حمیت آدمی ہے۔ وہ بھارت کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وہ یہ بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکہ میں مقیم بھارتیوں کو صدر ٹرمپ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں ووٹ نہیں دینا چاہئیے۔ بھارت کو موزوں لمحے کا انتظار کرنا چاہئیے۔ اس وقت، جب امریکہ میں کوئی اور شخص اقتدارمیں آئے۔ جو پاکستان کے باب میں بھارتی موقف سے ہم آہنگ ہو۔
یہ تو واضح ہے کہ خطے میں امریکہ بھارت ہی کی بالادستی چاہتا ہے۔ چین کے خلاف اس کی حکمتِ عملی میں دہلی کا ایک بنیادی کردار ہے۔ عزائم کا نہیں، فرق حکمتِ عملی اور طریقِ کار کا ہے۔ اب یہاں ایک اور سوال ہے کہ امریکی قیادت، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتیوں کی شدّتِ جذبات سے واقف نہیں؟ پاکستان سے ان کی نفرت کا احساس نہیں رکھتے؟ ثانیاً یہ کہ وہ ان جذبات کو مجروح کرنے کے مرتکب کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا کوئی جواب تو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً ٹرمپ کے طرزِ احساس میں، جوطاقت کے خمار اور خبط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ با ایں ہمہ ایک بڑی حماقت سرزد ہو چکی اور اب دونوں کو اس کی قیمت چکانا ہے۔
بھارتی میڈیا واویلا کر رہا ہے مگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ خاموش ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں، وہ معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے، تنہائی میں مہمان کو سمجھانے کی۔ دیکھیے، کیا ہوتا ہے لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ گرہ آسانی سے نہیں کھلے گی۔ کھلی بھی تو اس میں وقت لگے گا۔ افراد کی طرح اقوام کو بھی ان کے تضادات مصیبت میں ڈالتے ہیں۔
نفرت کا کھیل ٹرمپ نے امریکہ میں شروع کیا، گوروں کی بالادستی کا۔ ایسا ہی نریندر مودی نے بھارت میں۔ مسلمانوں کو پست کرنے اور پاکستان کو برباد کرنے کا خواب۔ مشاہدہ کہتا ہے کہ نفرت کا جن بوتل سے نکالا جا سکتا ہے، اس کی واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ توہین کے عظیم احساس سے دوچار ہٹلر نے جرمن قوم کی عظمت کا سپنا دیکھا۔ ایک خالص آرین نسل کی برتری کا۔ ٹھیک اسی وقت اٹلی کا مسولینی روم کی عظمتِ رفتہ بحال کرنے کی لگن میں تھا۔ علّامہ اقبالؔ اس سے ملے اور اس کے محسوسات کو بیان کیا تھا!
میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار، تو چھلنی، میں چھاج
ہٹلرا ور مسولینی کا انجام کیا ہوا؟ بھارت اور امریکہ کاانجام کیا ہوگا۔ ماضی کی عظیم طاقتوں، ایران، روم، امویوں، عباسیوں، ترکوں، انگریزوں اور روسیوں پہ کیا بیتی؟ آج کے فراعین پہ کیا بیتے گی۔ ہم اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ غیب تو بس اللہ ہی جانتا ہے۔ مکّرر عرض ہے کہ بھارت کو دلدل میں دھنسا کر قدرتِ کاملہ نے ایک سنہری تاریخی موقع ہمیں عطا کیا ہے۔ ہمیں اپنا گھر سنبھالنا چاہئیے۔ دشمن خود اپنے جال میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔