پی ٹی آئی کے ایک جواں سال لیڈر نے یہ کہا: ہم پلٹ کر دیکھیں یا سامنے، خوابوں اورخیالوں کی ایک پامال فصل ہے۔ آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن میں کس منہ سے ہم ووٹ مانگنے جائیں گے؟
کیا ہر گزرتے دن کے ساتھ وزیرِ اعظم کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں؟ کیا وجوہات وہی ہیں، مردم نا شناسی اور ذہنی مشقت سے گریز؟
آزاد کشمیر کے الیکشن سترہ ماہ کے فاصلے پر ہیں۔ اسمبلی میں نون لیگ دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ براجمان ہے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور کا ثمر، آزاد ریاست کو جس نے مالِ غنیمت سمجھا۔ کچھ کرشمے ادی نے انجام دیے اور کچھ چوہدری عبد المجید نے۔ ردّعمل اتنا شدید تھا کہ پارٹی کا صفایا ہو گیا۔
عمران خان کو اب آزاد کشمیر کی سوجھی ہے۔۔ اور ہمیشہ تاخیر سے سوجھتی ہے۔ بہترین وقت انہوں نے کھو دیا۔ مہلت اب کافی نہیں اور حالات ناسازگار۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے سبھی نالاں ہیں۔ کشمیر اور شمالی علاقوں والے کچھ زیادہ۔ مشکل راستے، مہنگا تیل۔ دشوار گزار علاقوں میں رسد پہنچانے پر اٹھنے والے زاید اخراجات۔
وادیء کشمیر میں بھارتی بربریت پہ پاکستانی عوام رنج کا شکار ہیں۔ کشمیریوں کا کرب اور بھی گہرا ہے۔ ان کا احساس یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور انفرادیت ہی نوچ لی گئی۔ ان کی ہستی اور وجود ہی سے انکار کر دیا گیا۔ پاگل پن کی شکار بھارتی قیادت نے تو جوکیا سو کیا۔ حکومتِ پاکستان نے مگر کیا کیا؟ چھ ماہ گزرنے کو آئے۔ بلند بانگ وزیرِ اعظم کی حکومت اب تک باقاعدہ سفارتی مہم کا آغاز نہیں کر سکی۔
حضرت مولانا فضل الرحمٰن کو کشمیر کمیٹی کا چئیر مین کرنا کیا اہلِ کشمیر کی توہین نہ تھا؟ عالی مرتبت ان سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، اپنی ذاتِ گرامی ہی سے جنہیں فرصت نہیں ہوتی۔ فخر امام بدرجہا بہتر ہیں۔ بجا کہ عمر ان کی زیادہ ہے اور غیر معمولی سرگرمی اب نہیں دکھا سکتے۔ مغرب کے مزاج اور اسلوب کو پہچانتے ہیں۔ ان کی ثقافت اور اندازِ کار سے خوب آشنا۔ مغربی سفارت کاروں سے ان کے مراسم گہرے ہیں۔ مزاج میں ایک وقار، سادگی اور بے ساختہ پن ہے۔
بدقسمتی سے وہ کبھی وزیرِ اعظم کی پسندیدہ شخصیات میں شامل نہ تھے۔ الیکشن 2018ء سے پہلے میں نے ان سے کہا کہ فردوس عاشق اعوان تک کو شامل کر لیا، پارٹی کا تاثر بہتر بنانے کے لیے فخر امام ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ وہ طرح دے گئے۔ کہا تو بس یہ کہا: اب وہ ایک بزرگ آدمی ہیں۔ چڑکر میں نے کہا: کیا ان سے ٹریکٹر چلوانا ہے؟ فخر امام شاکی آدمی نہیں۔ وزیرِ اعظم کی بے اعتنائی سے مگر نا خوش ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک جواں سال لیڈر پچھلے دنوں ملنے گئے تو کہا کہ اسلام آباد کا کشمیری قیادت سے رابطہ کبھی اتنا کم نہ تھا۔ کل جماعتی کشمیرکانفرنس بلانی چاہئیے، وزیرِ اعظم جس میں شریک ہوں۔ فخر امام نے جواب دیا: خان صاحب توجہ عنایت کریں تو بات کروں۔
جنرل پرویز مشرف مگر مستقل طور پر کشمیری لیڈروں سے رابطے میں رہتے۔ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان میں آبسنے والے کشمیری لیڈروں، حریت کانفرنس سے بالخصوص۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی۔ ڈیڑھ سال ہونے کو آیا، وزیرِ اعظم نے ان سے بات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اگست 2019ء کے بعد ترکیہ میں کشمیر پہ تیس کانفرنسیں منعقد ہو چکیں۔ صدر اردوان اس سلسلے میں تھنک ٹینکس، میڈیا اور سول سوسائٹی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے چین نے سلامتی کونسل میں بھارتی وحشت انگیزی کا سوال اٹھایا۔ ہر چند کوئی قرار داد منظور نہ ہو سکی مگر عالمی سطح پر معاملہ اجاگر ہوا۔ چین اور اس سے زیادہ ترکی سے موازنہ کیجیے تو سوال پھوٹتا ہے:سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے۔ ایک سے زیادہ تھنک ٹینک بنتے، سینکڑوں ماہرین پیدا کیے جاتے۔ اپوزیشن اور میڈیا سے مدد طلب کی جاتی۔ ساری دنیا میں پاکستانی پھیل جاتے۔ مظلوم کشمیری مسلمانوں کا مقدمہ لڑتے۔ اپنے وطن کی خدمت کرتے۔ اپنے فرائض سے سبکدو ش ہو کر نہال ہوتے۔
کشمیر کا مقدمہ اتنا واضح ہے کہ آسانی سے بھارت کو بے نقاب کیاجاسکتاہے۔ استعماری قبضہ اور ظلم کے پہاڑ جوپیہم کشمیریوں پہ توڑے گئے، تاریخ میں جس کی نظیر کم ہوگی۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ بچوں کو اغوا کر کے ذہنی غسل سے گزارنے کے منصوبے ہیں۔ اس پر بھی کشمیریوں کے سفیر کی حکومت کیوں دم سادھے بیٹھی ہے؟ وسائل کا فقدان ہے اور نہ انسانی وسائل کا۔ سمندر پار پاکستانی ایک تڑپ رکھتے ہیں کہ معلومات اگر مہیا ہوں تو دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ خوابِ خرگوش کے مزے کیوں لوٹ رہی ہے؟ کوئی نہیں جو اس سوال کا جواب دے۔ پوچھنے والے دیواروں سے سر ٹکراتے ہیں۔
آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کا حال ابتر ہے۔ اب اور بھی ابتری کا اندیشہ۔ سردار سکندر حیات کو ساتھ لے کر بیرسٹر سلطان محمود وزیرِ اعظم عمران خان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ 5 فروری کو مظفر آباد میں اسمبلی سے خطاب کی بجائے عشروں کی روایت توڑ کر میر پور میں پارٹی کا جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ کشمیرکی نہیں، الیکشن کی فکر لاحق ہے۔ سردار صاحب کی عمر 85 برس سے کیا کم ہوگی۔ بیرسٹر صاحب کی طرح وزیرِ اعظم رہ چکے۔ سیاستدانوں سے مراسم ضرور ہیں مگر اب اس عمر میں کیا کارنامہ انجام دیں گے؟
چند روز قبل برطانوی ہائی کمشنر نے چند کشمیری لیڈروں کو مدعو کیا۔ برطانوی پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں خارجہ پالیسی پر نصف گھنٹے کی بحث میں بیس منٹ تک کشمیرکا مسئلہ زیرِ بحث رہا تھا۔ بیرسٹر صاحب سے ہائی کمشنر نے پوچھا: آپ کیا تجویز کرتے ہیں۔ فرمایا: مشرف فارمولے کا اطلاق اور سرحد سے آر پار آمدورفت کی آزادی۔ جنابِ سفیر سمیت سبھی ہکّا بکّا۔ کتنا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ جاتا ہے کچھ لوگ وہیں کے وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں ربع صدی سے پی ٹی آئی کی حمایت میں سرگرم کارکنوں نے سوشل میڈیا پہ اودھم مچا رکھا ہے۔ " کیا ان لوگوں کے لیے ہم نے اپنی جوانیاں کھپا دیں؟" آزاد کشمیر میں خواندگی کی شرح زیادہ ہے اورسیاست کا شعور بھی۔ نون کے کچھ امیدوار پی ٹی آئی سے شایدآملیں۔ مگر ان حالات میں؟ اس وقت جب جناب عمران خان کی اپنی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک جواں سال لیڈر نے یہ کہا: ہم پلٹ کر دیکھیں یا سامنے، خوابوں اورخیالوں کی ایک پامال فصل ہے۔ آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن میں کس منہ سے ہم ووٹ مانگنے جائیں گے؟