خلق ہم سے کہتی ہے
ساراماجرا لکھیں کس نے
کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
چشمِ نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں؟
اخبار نویس کو مخمصے کے پار اترنا ہوتاہے۔ خاص طور پر اس وقت جب ایک بڑی خبر ہو اور اس کے سارے پہلوئوں پر وہ روشنی ڈال نہ سکے۔ ہر آدمی دسترس میں نہیں ہوتا۔ کچھ پہلو خطرناک ہوتے ہیں۔ خطرہ مول لیا جا سکتاہے مگر کتنا؟ فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا: قاری کبھی اندازہ نہیں کر سکتا کہ لکھنے والے نے کتنے مترادفات مسترد کیے ہیں۔ یہی نکتہ درویش شاعر مجید امجد نے بالفاظ دگر بیان کیا تھا۔
عمر اس الجھن میں گزری
کیا شے ہے یہ حرف و بیاں کا
عقدہ مشکل
صورت معنی؟ معنی صورت
اکثر گرد سخن سے نہ ابھرے
وادی فکر کی لیلائوں کے
جھومتے محمل
طے نہ ہو اویرانہء حیرت!
بہت دیر سے ایک خبر کا بوجھ سر پہ اٹھائے بیٹھا ہوں۔ خیال کسی طور واضح نہیں ہوتا کہ آغاز کیونکر ہو اور انجام کس طرح؟
منصوبہ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے الگ کر کے عصرِ رواں کے شیر شاہ سوری شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بنا دیا جائے۔ یہ تصور تب پھوٹا جب وزیرِ اعظم توسیع کے باب میں تامل کا شکار ہوئے۔ اس سلسلے میں کچھ غیر محتاط اقدامات بھی آنجناب نے کیے۔ عندیہ اور اشارہ تو یہی دیا کہ حق میں ہیں مگر تانک جھانک بھی کرتے رہے۔
صورتِ حال سے شہباز شریف نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ توثیق کی، تدبیر کا پیمان کیا اور لپک کر لندن پہنچے کہ بھائی کو ہموار کریں۔ فکر یہ بھی لاحق تھی کہ بھتیجی دردِ سر ہے، سدا کی باغی۔ بھنک پڑ گئی تو اللہ جانے کیا ہو؟ خان صاحب کے حلیف ناخوش ہیں، سب کے سب۔ وہ بھی، کل تک جو یک جان و دوقالب تھے۔ منگل کی شام مگر ایم کیو ایم نے اپنا موقف واضح کر دیا۔ ان سے کیے جانے والے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ کراچی کے لیے اتنی رقوم بھی مختص نہ ہو سکیں جتنی ضلع میانوالی اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے لیے، بالترتیب 83 اور 53 ارب روپے۔ درحقیقت دو حلقہء انتخاب کے لیے، ایک وزیرِ اعظم اور دوسرا وزیرِ اعلیٰ کا۔
اطلاعات یہ ہیں کہ خالد مقبول صدیقی نے لچک دکھانے سے انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم مفاہمت کے لیے ہر مطالبہ تسلیم کرنے پر تیار ہیں، جو تسلیم کیا جاسکتا ہو۔ منگل کی شام مگر ایم کیو ایم نے کہا کہ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے پر وہ آمادہ نہیں۔ جسے بات کرنی ہے، ان کے دفتر میں آئے۔ باخبر لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مفاہمت کا اعلان ہو جائے تو بھی اسے مفاہمت نہیں، اعلان ہی سمجھا جائے۔ دونوں طرف سے وقت حاصل کرنے کی سعی۔ اس طرف اب ایم کیو ایم مائل ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کو چلتا کیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ مجبور لوگ ہیں مگر جیسے ہی مجبوری ٹلی، میدان میں کود پڑیں گے۔
اختر مینگل کے کچھ مطالبات وہ ہیں، سبھی لوگ جن سے واقف ہیں۔ کچھ ان کے سوا بھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مذاکرات کے لیے اسلام آباد آئے۔ کچھ ایسی بات ہوئی کہ بگڑ گئے۔ طے شدہ ملاقاتیں منسوخ کر کے کوئٹہ کی راہ لی۔ ان سے بھی نہ ملے، جن کا کوئی تعلق معاملے سے نہیں تھا۔ نازک مزاج واقع ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک بہت اہم لیڈر خان صاحب سے ناراض ہیں۔ اظہار نہیں کرتے بلکہ وفاداری کا تاثر برقرار رکھتے ہیں۔ اپنے دل میں تحریکِ انصاف کو وہ خدا حافظ کہہ چکے۔ خان سے زیادہ وہ وزیرِ اعلیٰ سے ناراض ہیں۔ ماہِ گزشتہ پارٹی میں اپنے حامیوں سے ملے۔ چار چار، پانچ پانچ کے گروپوں میں۔ گفتگو کا محور یہ تھا کہ عثمان بزدار سے نجات کیسے پائی جائے۔ چند ایک نے حمایت کا یقین دلایا۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان ایسے بھی بے خبر نہیں۔ چند دن ہوتے ہیں، ایک صوبائی وزیر نے سوگودہا ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز رکن کے کان میں سرگوشی کی: کیوں نہ حمزہ شہباز سے ملاقات کی جائے؟ محتاط آدمی ہیں۔ کہا: پہلے آپ تنہا مل لیجیے۔
معرکہ برپا ہوا تو سب سے اہم کردار گجرات کے چوہدری صاحبان کا ہوگا۔ کئی ماہ پہلے شریف برادران پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کی انہیں پیشکش کر چکے۔ چوہدری کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ سامنے کا سوال یہ تھا کہ ضمانت کون دے گا۔ مکر جانے میں، پھسل جانے میں رائیونڈ والوں کو دیر ہی کیا لگتی ہے۔ پیمانِ وفا تو جنرل حمید گل مرحوم سے بھی تھا، جنرل مرزا اسلم بیگ سے بھی، صدر غلام اسحٰق خان کے ساتھ بھی۔ صدر سے میاں محمد شریف مرحوم نے کہا تھا: میرے بیٹوں کو آپ اپنا فرزند ہی جانیے۔ ایک نہیں، کئی بار غلام اسحٰق خان نے فریب کھایا۔
نصف صدی ہوتی ہے، حیدر آباد میں ایک نوجوان جادو جگایا کرتا۔ 24برس کی عمر مگر شاعری کا وہ سحر کہ سننے والے دنگ رہ جاتے۔
تم نے پیمانِ محبت تو کیا تھا لیکن
اب تمہیں یاد نہیں تو مجھے شکوہ بھی نہیں
کس کڑے وقت میں بدلی ہیں نگاہیں تم نے
جب مجھے حوصلہء ترکِ تمنا بھی نہیں
گجرات کے جہاندیدہ چوہدری شاعر نہیں، سیاستدان ہیں۔ سب سے زیادہ منجھے ہوئے سیاستدان۔ وہ ضمانت طلب کریں گے اور پختہ ضمانت۔ اگر یہ بندوبست ہو سکا۔۔ اور اس کی بھرپور تیاری ہے تو ایم کیو ایم آنکھیں پھیر لے گی اور خیال ہے کہ اختر مینگل بھی۔ نئے حکمران، ان کے دیدہ اور نادیدہ مطالبات پورے کرنے میں تامل نہ کریں گے۔
منصوبے کے جو خدوخال سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق اوّل تحریکِ عدم اعتماد کا ڈول ڈالا جائے گا۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے گاکہ تحریکِ انصاف کے زیادہ سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہو۔
عثمان بزدار غافل نہیں۔ ان کا تمام تر انحصار اب خان صاحب پہ نہیں۔ کچھ اور بندوبست بھی کیا ہے۔ چالیس پچاس ارکان کی فہرست سامنے رکھتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش فرماتے ہیں کہ مشکل آن پڑے تو تنہا پرواز کرنے کی بجائے ایک گروہ ان کے ساتھ ہو۔ گروہ ان کے ساتھ چلے اور یا وہ خود اس گروہ کی اکثریت کا ساتھ دیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سیاسی پارٹیوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کر دوسروں کے سپرد کر دیے ہیں۔ اپنی موت کے پروانوں پہ دستخط کر ڈالے۔ اب وہ معذور اور محتاج ہیں۔ خود اپنے طور پر فیصلے صادر نہیں کر سکتے، وقت، حالات اور زمانے کے تیور کریں گے۔ کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری/اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو۔ تفصیلات اور بھی ہیں مگر کیا کیجیے؟
خلق ہم سے کہتی ہے
ساراماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
چشمِ نم سے شرمندہ