پاکستانی لیڈر عجیب لوگ ہیں۔ گردو پیش سے بے خبر، حقائق سے بے نیاز، عوامی امنگوں سے بے نیاز۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ہو یا حکومت، سیاسی قیادت نے عوام کو احمق سمجھ رکھا ہے۔ زخم لگا کر نمک چھڑکتے ہیں اور اس پر داد کے طالب بھی۔
نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیونکر اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں
خبر یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل سمیت 184شخصیات کو سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس سے زیادہ نمایاں ایک اطلاع اور بھی ہے۔ وزیرِ اعظم نے اعلان کیا کہ طاقتوراب قانون کے تابع ہیں اور ملک ایک نئے دور میں داخل ہو چکا۔
اسی ہنگام حکومتِ پاکستان نے ایک عظیم صدمے سے قوم کو دوچار کیا ہے۔ مولانا طارق جمیل کو تمغہ عطا کرنے کی بات تو قابلِ فہم ہے۔ یہ اخبار نویس تو ان کا قائل نہیں اور بہت سے دوسرے لو گ بھی۔ پچھلے برس جن کے حامیوں کی طرف سے جنہیں عتاب کا سامنا ہوا۔ البتہ یہ کہ اپنے فدائین کو انہوں نے روکا اور اخبار نویسوں سے معذرت کی۔ ان کے سب اقدامات کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ بالخصوص بارسوخ طبقات پہ ان کی خصوصی عنایات؛با ایں ہمہ تنقید کو انہوں نے گوارا کیا اور اس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
رہی اعزاز کی بات تو یہ ایک مذاق ہے۔ ٹیلی ویژن کی ایک ایسی شخصیت کو ان سے بہتر اور برتر تمغہ دیا گیا، جن کے چینل پر مبتذل ڈرامے نشر ہوتے ہیں۔ وہ کہانیاں، جو معاشرے کے سماجی پیرہن (Social fabric) کو تباہ کرنے کا مستقل ذریعہ ہیں۔ رشتوں کی تقدیس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ان محترمہ کو نشانِ امتیاز بخشا گیا، جب کہ مولانا طارق جمیل کو تمغہء حسنِ کارکردگی، جو نسبتاً کمتر ہے۔
کہاں طارق جمیل او ر کہاں یہ محترمہ۔ مولانا کے طرزِ احساس سے کتنا ہی اختلاف ہو، پیہم اور مسلسل وہ سماجی خرابیوں کے سد باب میں لگے رہے۔ کتنوں تک، ان کے طفیل رحمتہ اللعالمینؐ کے اقوالِ مبارک پہنچے اور پروردگار کے ارشادات۔ وہ خاتون ان سے زیادہ محترم کیسے ہو گئیں؟
ایسا ہی ایک سانحہ پچھلے برس ہوا تھا۔ جب ایک مبتدی اداکارہ کو ایسا ہی اعلیٰ ایوارڈ دیا گیا۔ قوم دنگ رہ گئی۔ ایک وفاقی وزیر نے اس پر خم ٹھونک کر کہا: میں نے ان کی سفارش کی ہے، میں نے۔ ایک وزیر کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا اور اس پر فخر کرنے کا مطلب کیا۔ ادبی انعامات کے لیے جو کمیٹی بنی، اس میں ایک وفاقی سیکرٹری شامل تھے۔ خیر سے کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ادراک کا عالم مگر یہ ہے کہ متعلقہ منعقدہ اجلاس میں ڈاکٹر جمیل جالبی کو وہ متواتر ڈاکٹر جلیبی کہتے رہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی محض ایک عظیم سکالر نہ تھے بلکہ حسنِ اخلاق کا ایک نادر نمونہ۔ ان کے ایک سابق ڈرائیور نے بتایا: جتنا عرصہ میں ان کے ساتھ رہا، ایک باپ کی سی شفقت میرے حصے میں آئی۔ ساری زندگی طلبِ علم کے لیے وقف کردی تھی۔ تفصیلات کا محل نہیں، کہا جاسکتا ہے کہ تنِ تنہا اتنا کام کر دکھایا کہ شاید کوئی ادارہ بھی کر نہ سکتا۔ دن رات کام میں جتے رہتے۔ قانون اور آداب و ضوابط سے بے نیاز اس معاشرے میں، جہاں کہیں تصادم کا کوئی واقعہ ہوتا، سلیقہ مندی سے گرہ کھولتے۔ جہاں بھی گئے، ان کے احترام میں اضافہ ہوا۔
قومی اعزازعطا کرنے کا قرینہ اور نظام کیا ہے؟ کیا ڈھنگ کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ کیا کوئی تحقیق و جستجو بھی ہوتی ہے۔ ہمارے بلند پایہ کالم نگار عامر خاکوانی نے تفصیل سے اس موضوع پر لکھا تھا۔ وہ اعتدال کو ہاتھوں سے کبھی جانے نہیں دیتے۔ تحقیق کے تقاضے نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ خیال تھا کہ ان کے تجزیے کو ملحوظ رکھا جائے گا مگر افسوس، مگر افسوس!
وزیرِ اعظم کے اس دعوے پر کیا کہیے کہ طاقتوراب قانون کے تابع ہیں اور ملک نئے دور میں داخل ہو چکا۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ پٹوار اور پولیس اب تک ویسی ہی خونخوار ہے۔ عام آدمی آج بھی پولیس کی وردی سے خوفزدہ رہتاہے۔ اصلاحات کے لیے ایک قدم تک اٹھایا نہیں گیا۔ کچہریوں میں لوگ آج بھی خستہ وہ خوار ہیں۔ پچھلے برس ایک پولیس افسر نے حیرت زدہ کر دیا۔ اس نے کہا کہ خود ہمیں بھی مقدمات درج کرانے کے لیے عدالتی عملے کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ یہ روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ یہی کیا، پولیس سٹیشنوں میں سٹیشنری اور گشت کے لیے مطلوبہ ڈیزل کی رقم بھی پوری مہیا نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ بوجھ شہری اٹھاتے ہیں۔ عدلیہ میں اصلاحات کا کبھی سوچا تک نہیں گیا۔ جہاں مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ججوں کی تعداد کم ہے، ایک ہزار کم۔ مہنگائی کے عفریت نے چہرے مرجھا دیے اور چولہے بجھ گئے ہیں۔ آٹے کی ملوں کو حکومت چودہ سو روپے فی من کے حساب سے گندم فراہم کرتی ہے مارکیٹ میں گیہوں کی قیمت 2200روپے فی من تک جا پہنچی۔ فلور ملوں میں ایسی ہیں، جو گندم پیستی ہی نہیں، براہِ راست بازار میں بیچ دیتی ہیں۔ چینی کی قیمت ایک سور وپے فی کلو سے اوپر جا پہنچی۔ دواؤں کا حال اور بھی پتلا ہے۔ ایک سے دس گنا تک نرخ پاتی ہیں۔ بعض دوائیں نایاب رہتی ہیں۔ خاص طور پر جان بچانے والی ادویات۔ ڈریپ کا حال اس قدر پتلا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے وزیرِ پہ حرف آیا اور ایک کے بعد دوسرے وزیر کو برطرف کرنا پڑا۔ اس پہ وزیرِ اعظم کا اظہارِ فخر۔ میرؔ صاحب یاد آئے:
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
خدا خدا کر کے کرونا ویکسین کی قیمت کا تعین ہوا ہے۔ میڈیا کو اس کے لیے پیہم چیخنا پڑا۔ چند گھنٹوں سے زیادہ درکار نہ تھے لیکن دنوں پر دن گزرتے گئے؛تب کابینہ کو رحم آیا۔ سب جانتے ہیں مگر وزیرِ اعظم ہی نہیں۔ اس کے سوا کیا عرض کیجیے،
پتہ پتہ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
انسان کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ آد می سے غلطی سرزد ہوتی ہے۔ قرینہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف اور اصلاح کی کوشش کرے۔ یہ کیا کہ سامنے کی سچائی کو ماننے سے انکار کر دے۔ دوسروں کا حال اور بھی بدتر ہے۔ جوتیوں میں دال بٹنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے فرمایا ہے: رمضان المبارک کے بعد تازہ دم ہو کر پی ڈی ایم حکومت پر یلغار کرے گی۔ خاک یلغار کرے گی کہ ایک دوسرے کے گریبانوں سے فرصت نہیں۔ پارٹی کارکنوں کو بلاول بھٹو نے اب تلقین کی ہے کہ نون لیگ کے جواب میں تلخ نوائی نہ کریں۔ تلخ نوائی کے مرتکب تو وہ خود ہوئے اور ان سے پہلے محترمہ مریم نواز۔ اپوزیشن اور حکومت کی جوتم پیزار اور میڈیا سیلوں کی گالم گلوچ اس کے سوا۔
پاکستانی لیڈر عجیب لوگ ہیں۔ گردو پیش سے بے خبر، حقائق سے بے نیاز، عوامی امنگوں سے بے نیاز۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ہو یا حکومت، سیاسی قیادت نے عوام کو احمق سمجھ رکھا ہے۔ زخم لگا کر نمک چھڑکتے ہیں اور اس پر داد کے طالب بھی۔