Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Manzil Yehi Kathin Hai Qaumon Ki Zindagi Mein

Manzil Yehi Kathin Hai Qaumon Ki Zindagi Mein

اس علمی مجدد اقبال ؔنے یہ کہا تھا:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مسائل تباہ نہیں کرتے، مصائب برباد نہیں کرتے۔ یہ اندازِ فکر اور طرزِ احساس کی خرابی ہے، جو دلدل کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

مسئلہ صرف یہ نہیں کہ حکومتی پالیسیوں کارخ ٹھیک نہیں یا یہ کہ پوری کی پوری اشرافیہ بگڑ گئی۔ بگڑ کر فرار کی ذہنیت میں مبتلا ہو چکی۔ معاملہ شاید یہ ہے کہ صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک کسی کو نہیں۔ سیاسی قائدین کو تو ہرگز نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔

سب کے اپنے اپنے دکھ ہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے

اے دلِ غمگیں تیری کہانی کون سنے گا، کس کو سنائیں

ملکی معیشت روبہ زوال ہے اور اس شدت کے ساتھ کہ 75برس میں شاید ہی اس کی کوئی دوسری مثال ہو۔ مہنگائی روز افزوں ہے اور اس قدر کہ عام آدمی خوف کے عالم میں ہے۔ ملکی و غیر ملکی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس حال میں بھی کوئی نہیں، خرابیوں کی جڑ تلاش کرنے کی فکر جسے لاحق ہو۔ سیاستدانوں کی ساری توانائی ایک دوسرے کے خلاف کھپ رہی ہے۔

جام کمال رخصت ہو گئے تو کیا بلوچستان کا بحران تمام ہو گیا۔ جی نہیں، کرپشن اسی طرح فروغ پاتی رہے گی۔ اسی طرح وسائل رائیگاں ہوتے رہیں گے۔ جوڑ توڑ اسی طرح جاری رہے گا۔ عدم استحکام باقی رہے گا۔

ملک اشرافیہ کا غلام ہے اور اشرافیہ خوں آشام۔ بلوچستان کے ارکانِ اسمبلی کی اکثریت کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ ٹھیکیدار اور سرکاری افسر ان کی مرضی سے مقرر ہوں۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کے بااختیار حلقے کل تک یہ کہا کرتے کہ تمام وزراء اعلیٰ میں جام کمال سب سے بہتر آدمی ہیں۔ اس بہتر کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ کل پنجاب میں عدمِ اعتماد ہو جائے یا عمران خاں چلے جائیں تو کیا مرہم میسر آجائے گا؟ تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم۔ سارا پیکر مجروح ہے، کہاں کہاں دوا لگائی جائے؟

مقدس بنا کر پیش کیا جانے والا نام نہاد پارلیمانی جمہوری نظام ناکام ہو چکا۔ افسر شاہی بگڑ چکی۔ سیاسی پارٹیاں خاندانوں کی میراث ہیں یا کسی فردِ واحد اور اس کے پسندیدہ افراد کی۔ پارٹیاں نہیں، اقتدار کے حریص لشکر ہیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے!

فروغ پانے والے ایک معاشرے کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں۔ سیاست سے لا تعلق ایک مضبوط فوج، ٹیکس وصول کرنے والا ایک قابلِ اعتماد ادارہ، موزوں وقت میں فیصلے صادر کرنے والی عدالتیں، اچھی سول سروس اور پولیس۔ ایسے بلدیاتی ادارے، مقامی ضرورتوں کے مطابق جو ترقیاتی ترجیحات طے کر سکیں۔ جمہوری سیاسی پارٹیاں، جو اپنے بہترین افراد کو ذمہ داریاں سونپیں۔ ان میں سے کون سی چیز ہمیں حاصل ہے؟

یہ قرضوں کی معیشت ہے اور صارف معاشرہ۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ اخراجات آمدن سے کم ہیں۔ جانے والی ہر حکومت آنے والوں کے لیے مسائل کے انبار چھوڑ جاتی ہے۔ نئے آنے والے پرانوں کو کوستے رہتے ہیں۔ کامیاب لوگوں کا قرینہ یہ ہوتاہے کہ وہ مسائل کا سامنا کرتے اور ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ گریہ و ماتم میں نہیں لگے رہتے۔

عمران خان ناکام ہو گئے اور بری طرح ناکام۔ پولیس، عدلیہ، سول سروس اور ایف بی آر میں اصلاحات کے لیے ایک قدم بھی اٹھا نہ سکے۔ جب یہ نکتہ اجاگر کیا جاتاہے تو حکمران پارٹی کے فدائین بھڑک اٹھتے ہیں۔ تو کیا اقتدار کل کے بدعنوان لیڈروں کے حوالے کر دیا جائے؟ بجا ارشاد مگر آپ نے بھی کیا کیا؟

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

شبر زیدی نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ ایف بی آر میں بہتری کا آغاز کیا جائے۔ صنعت کاروں اور تاجروں نے ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ خود ان کے اپنے ادارے نے مزاحمت کی۔ جھلا کر انہیں کہنا پڑا کہ22ہزار میں سے 20ہزار بدعنوان ہیں یا ناکردہ کار۔ ایک عامی بھی جانتاہے کہ آدھا ٹیکس بھی وصول نہیں ہوتا۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو درکار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بساط لپیٹ کر اس کی جگہ نیا ادارہ قائم کرنا چاہئیے۔

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں یا کم از کم اب تک رہے۔ دونوں کیا مل کر اقدام کی جسارت کر سکتے ہیں؟ واضح طور پر اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم فراری ذہنیت کا شکار ہیں۔

پولیس وہی، پٹوار وہی، عدالتوں کے وہی اہلکار، چند ہزار روپے لے کر مقدمے کو جو التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ پھر کس برتے پر امید پالی جائے، نمود اور فروغ کی آرزو کی جائے؟ نہ میں بدلانہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلیمیں کیونکر اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں قوم کا حال یہ ہے کہ سب کچھ اس نے حکمرانوں پر چھوڑ دیا۔ منقسم معاشرہ، مختلف لیڈروں کے فدائین، سارا وقت ایک دوسرے کے خلاف جو زہر اگلتے رہتے ہیں۔ الفاظ، الفاظ اور الفاظ۔ رہنماؤں کے کیسہء عظمت میں تاویلوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

بے بسی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے دلی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں

ہفتہ رحمتہ للعالمینؐ حکومت منا رہی ہے۔ ایک ادارہ بھی قائم کر دیا ہے کہ سرکارؐ کے افکار اور اخلاق عام کیے جائیں۔ کیا اتنی سی مہربانی سیاسی پارٹیاں کر سکتی ہیں کہ مخالفین کی کردار کشی کے لیے قائم کیے گئے میڈیا سیل خاموش کر دیں؟

احتساب بجا، کون اس کی اہمیت و افادیت سے انکار کر سکتاہے۔ فقط اپنے مخالفین کی ناک رگڑ نے کی بجائے ادارہ جاتی اصلاح او رمعیشت کے فروغ پر توجہ دی ہوتی تو کونپلیں پھوٹ پڑتیں، روئیدگی جنم لیتی۔ امید کا کھیت ہرا ہو جاتا۔ قوم آمادہء عمل ہو جاتی۔ طرزِ احساس بدلنے لگتا۔

آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار

جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

کوئی نہیں ہے، کوئی ایک بھی نہیں، جس کے پاس ایک جامع منصوبہء عمل ہو۔ مہنگائی کے خلاف جلوس نکالنے سے گرانی کیا کم ہو جائے گی؟ اپنے سب مخالفین کاصفایا کرنے میں وزیرِ اعظم اگر کامیاب ہو جائیں تو کارخانے اور کھیت کیا سونا اگلنا شروع کر دیں گے؟

ساری خرابی اندازِ فکر کی ہوتی ہے۔ تمام غلطی تجزیے کی۔ خطا و نسیان سے آدمی کو بنایا گیا ہے۔ غلطیوں کا ارتکاب ہو کر رہتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ کوئی قوم اپنے تعصبات اور جذبات کی دلدل میں اتر کر رہ جائے۔ محض مادی وسائل نہیں، ا یک صحت مند اندازِ فکر۔ اس علمی مجدد اقبالؔ نے یہ کہا تھا:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.