پاکستانی قوم کے مزاج میں ہیجان ہے، شخصیت پرستی ہے، ضد پائی جاتی ہے۔ بڑے اور چھوٹے، ہم میں سے ہر ایک کو شاید اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔ بس یہی ایک کام ہے، جس پر ہم آمادہ نہیں۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
پاکستانی سیاست سنور سکتی ہے اور معیشت بھی لیکن اس طرح نہیں، جس طرح ہم تراشنے اور سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ علم اور ادراک سے۔ خالص علمی تجزیے اور مسلسل ریاضت سے۔ ہر طرح کے تجربات ہم نے کر لیے۔ ہر لیڈر پر اعتبار کر دیکھا۔ عسکری قیادت سمیت سبھی کو آزما لیا۔ نتیجہ یہ کہ آج بھی ہم اپنے اپنے خیالات کے جنگلوں میں بھٹک رہے ہیں۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ فقط کسی ایک گروہ یا ایک لیڈر پر حتمی بھروسہ کرنے کی بجائے تمام بڑے مسائل کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا ہمارے قومی مزاج اور عادات و اطوار میں کوئی بڑی خرابی ہے۔ اگر ہے اور یقینا ہے تو کس طرح سلجھائی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رفتہ رفتہ، بتدریج اور مرحلہ وار۔ پیہم ریاضت اور پوری یکسوئی کے ساتھ۔ اس کے بغیر نہیں، کسی طرح بھی نہیں۔ سوچنا چاہئیے کہ ہر دریا آخر کو سراب کیوں نکلا۔ ہر لیڈر اور ہر جماعت آخر کو ادھوری کیوں ثابت ہوئی۔
جب ایک مکان کی تعمیر کا آغاز کیا جاتا ہے، زمین جانچی جاتی ہے۔ اس کی ساخت کیا ہے۔ مٹی کتنا بوجھ برداشت کر سکتی ہے۔ اس کی بنیادوں کے لیے کتنا لوہا اور دیواروں کے لیے کتنی اینٹیں درکار ہوں گی۔ نقشہ بنایا جاتا ہے۔ وسائل کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ پھر خریداری کا مرحلہ آتا ہے تو معلومات کی مہم درکار ہوتی ہے۔ سلیقہ مندی کے ساتھ انتخاب کیا جاتا ہے۔ ٹھیکیدار یا کارکنوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور تصحیح کی جاتی ہے۔ آخر کو ایک عمارت بن کے تیار ہو جاتی ہے۔ مکمل نہ سہی، بڑی حد تک تسلی بخش۔
ایک چھوٹے سے واقعے نے نکتے کو سمجھنے میں مدد دی۔ ٹیلی ویژن کا ایک بڑا نام ہے۔ کل وہ صاحب سکرین پر نمودار ہوئے اور اعلان کیا کہ جون ایلیا پچھلی دو صدیوں کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ کہا کہ اقبالؔ بھی عظیم ہیں، غالبؔ بھی مگر جون ایلیا کے کیا کہنے۔ پھر ان کے دو شعر پڑھے اور داد سمیٹی۔ وہ شعر یہ تھے
مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں
بیٹھیے، میں بلا کے لاتا ہوں
اور یہ
یہ تو بس سر ہی مانگتاہے میاں
عشق پر کربلا کا سایہ ہے
ہم سب جانتے ہیں کہ جون ایک منفرد شاعر تھے۔ ایک شاندار نثر لکھنے والے بھی۔ ان لوگوں میں سے ایک جو یاد رکھے جاتے ہیں، جنہیں دہرایا جاتا ہے، جن کا حوالہ دیا جاتاہے اور جن سے محبت کی جاتی ہے مگر وہ اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر بہرحال نہ تھے۔
لگ بھگ بارہ برس ہوتے ہیں۔ ایک خو ش ذوق، رومان پسند، مرحوم صنعت کار نے پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملنے کی خواہش کی۔ ان سے درخواست کی تو وہ خود گوجر خان سے اسلام آباد تشریف لائے۔ کسی بھی سچّے فقیر کی طرح، اپنی ذات کو اپنی راہ میں وہ حائل ہونے نہیں دیتے۔ فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ممکن ہو تو جلد از جلد۔
یہ صاحب جذبات کے طوفان میں تھے۔ وراثت میں دولت کا ایک انبار پایا تھا اور تخلیقی صلاحیت بھی۔ دوسرے موضوعات کے بعد شاعری پہ گفتگو شروع ہوئی تو میر ؔانیس کا ذکر ہوا۔ وہ نادرِ روزگار آدمی، مرثیے کی دنیا میں جس کا عَلم ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ جس نے کہا تھا:
لگا رہا ہوں مضامینِ تازہ کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
اور جس کا یہ شعر صدیوں سے اہلِ ذوق کے وردِ زباں ہے، نواب زادہ نصر اللہ خاں جو ایک سرشاری کے ساتھ پڑھا کرتے۔
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
وفورِ جذبات سے لبریز، اچانک اس آدمی نے یہ کہا کہ غالبؔ کتنا ہی بڑا سہی، انیسؔ اس سے بڑے شاعر ہیں۔ کیا وہ واقعی ایسا سمجھتے تھے؟ یا لکھنئو کی محبت غالب آگئی تھی۔ کیا ٹی وی کے لیے معرکتہ الآرا ڈرامے تخلیق کرنے والا ہدایت کار واقعی جون ایلیا کو اسی مقام پہ فائز پاتا ہے؟
پروفیسر احمد رفیق اختر طرح دے گئے۔ ایسے مواقع پر گریز ہی زیبا ہے۔ ایک ذرا ٹھہر کر دعویٰ کرنے والے کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔ اس کے شخصی رجحانا ت اور نفسیاتی تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم مگر بحث میں الجھ جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان مباحثوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کوئی نتیجہ تو کیا نکلے، ایک بدمزگی فضا میں رہ جاتی ہے۔ ان صاحب نے البتہ جب قرآنِ کریم کی بعض آیات کی سطحی سی تشریح کی اور اس پہ مصر ہوئے تو ایک عاجزی کے ساتھ درویش نے فقط یہ کہا "قرآنِ کریم کو صرف اس کے عالم ہی سمجھ سکتے ہیں"
افتخار عارف مدتوں کے بعد لوٹ کر لکھنو گئے تو کسی نے کہا: کبھی میر ؔ یہاں آئے تھے۔ آج افتخار عارف۔ جب یہ واقعہ وہ سنا رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اور ایک والہانہ کیفیت۔ افتخار صاحب نسبتاً زیادہ پڑھے لکھے ہیں ؛چنانچہ انہوں نے کوئی دعویٰ کرنے سے گریز کیا۔ ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا اور چل نکلے۔
ایسے بھی مگر موجود ہیں اور ہو گزرے ہیں، جنہوں نے غالبؔ کی تصحیح فرمائی اور اس کے پرچم کے مقابل بلند تر پرچم نصب کرنے کی کوشش کی۔ غالبؔ اکثر خاموش رہے۔ عمرِ خضر عطا ہوتی تو آج بھی خاموش رہنا ہی پسند کرتے۔ دعویٰ باطل ہے، خود پہ قابو رکھ سکیں یا نہ رکھ سکیں، یہ اکثر لوگ جانتے ہیں۔ کسی لیڈر، کسی شاعر یا کسی ادیب پہ فریفتہ ہو جانا بھی ایک آفت ہے ؛اگرچہ کم ہی اس بات کا ادراک کیا جاتا ہے۔
کوئی لیڈر کامل نہیں ہوتا، کوئی بھی نہیں۔ کوئی تحریک اور نہ کوئی جماعت۔ عظیم ترین لوگ بھی غلطیوں کا ادراک کرتے ہیں۔ اردو شاعری کی ساخت بدل دینے والے اور مسلم برصغیر کی سیاست میں انقلاب برپا کر دینے والے اقبالؔ کے اشعار میں بھی دو چار غلطیاں تو نکل ہی آئیں گی۔ مجھ سے کئی طالبِ علم قائدِ اعظم کو خلوص اور بصیرت کا نادر نمونہ سمجھتے ہیں۔ جذباتی توازن کا شاہکار۔
شاید پچھلی تین صدیوں کا سب سے بڑا سیاسی حکمت کار لیکن کیا ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی۔ کیا وہ اتنے ہی بڑے حکمران تھے، جتنے کہ سیاسی مدبر؟ اقبالؔ کے نظریہء عقل و عشق پہ ایک ذرا سا تنقیدی سوال اٹھایا تو میرے ایک دوست کو سخت صدمہ ہوا۔ تب ان سے عرض کیا: علمی مجدد کی عظمت میں کلام نہیں لیکن آخر کار وہ ایک انسان ہی تھے۔ مجھ حقیر کی رائے غلط ہو سکتی ہے لیکن زندگی کو، اور اہلِ عظمت اس میں شامل ہیں، اپنی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش تو کرنی چاہئیے۔ ناچیز کی رائے غلط ہو سکتی ہے مگر غور و فکر میں کیا عیب؟
پاکستانی قوم کے مزاج میں ہیجان ہے، شخصیت پرستی ہے، ضد پائی جاتی ہے۔ بڑے اور چھوٹے، ہم میں سے ہر ایک کو شاید اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔ بس یہی ایک کام ہے، جس پر ہم آمادہ نہیں۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں