تیسری عالمی جنگ کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے، اور اقبالؔ یاد آتے ہیں :
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
اقوام کی باہمی آویزش بنی نوع انسان کی تقدیر ہے۔ یہ آدمی کی سرشت میں ہے۔ روز ازل اسے بتا دیا گیا تھا کہ تم سے بعض، بعض کے دشمن ہونگے۔ لشکر ہمیشہ لشکروں سے ٹکراتے رہے۔ جدید جنگوں کا معاملہ اور بھی ہولناک ہے۔ زرہ پوش افواج سے زیادہ عام آبادی ہدف ہوتی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی سرخ سپاہ نے تیرہ لاکھ شہریوں کو قتل کر ڈالا اور تیرہ لاکھ کو اپاہج۔ نتیجہ کیا نکلا؟ اس کے حصے بخرے ہوئے۔ ماسکو کی سڑکوں پر تمغے پہنے جنرلوں کو بھیک مانگتے دیکھا گیا۔ افتادسب سے بڑھ کر غریب گھرانوں کی خواتین پہ ٹوٹی۔ اپنی سرزمین ہی نہیں، برسوں دنیا بھر میں اپنی قوم کی رسوائی کا سامان کرتی رہیں۔
اب بھی ایسے احمق موجود ہیں، جو افغانستان پہ روسی یلغار کو جائز بتاتے ہیں۔ پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے اور مطعون کرتے ہیں۔ روسیوں کو کیا پاکستان نے مدعو کیا تھا؟ پاگل پن نرا پاگل پن۔ نپولین کی طرح، آدھے یورپ کو پامال کرنے کے بعد جو روس کے برف زاروں پہ چڑھ دوڑا تھا۔ اس کے باوجود کہ خیر خواہوں نے روکنے کی پوری کوشش کی تھی۔ فتوحات کی سرشاری میں مبتلا فرانسیسی قوم اس کی پشت پر کھڑی تھی۔ ایک آدھ نہیں، کتنے ہی فاتحین اور کتنی ہی اقوام ساری دنیا کو فتح کرنے کے خبط میں مبتلا ہوئیں، اور مٹ گئیں۔ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک یہی ہوتا رہے گا۔
دو بڑی طاقتوں پہ آج جنون سوار ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، قیادت جب انتہا پسندوں کے ہاتھ میں آ جائے۔ بھارت میں نریندر مودی ہیں، امیت شاہ اور اجیت دوول۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ پومپیو۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ جب ایرانی چیلنج پر وہ سوچ رہے تھے تو ذہن میں 2012ء کا لیبیا ابھر آیا۔ امریکی سفارت خانے اور شہریوں پہ جب یلغار کی گئی۔ صدر کو مشورہ دیا گیا تھا کہ ایران کے کسی بحری جہاز کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
شروع میں وہ اس طرف مائل بھی تھے، لیکن پھر جذبات کے وفور نے غلبہ پایا۔ انہوں نے ایرانی ہیرو جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔ سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ مضمرات سے آگاہ کیا گیا ہو۔۔ صدر کو بتا دیا گیا تھا کہ ایک قومی ہیرو کا قتل کس ہولناک حد تک جذبات کو بھڑکا سکتا ہے۔ اپنے آپ پر فخر کرنے والی ایک خوددار قوم کے جذبات کو۔ اپنے دائرہ اثر کو وسیع تر کرنے کی مہم میں جو مبتلا ہے۔ آخر کوانتہا پسند غالب آئے اور اب دنیا ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب بجائے خودامریکی معاشرے کے جذباتی عدم توازن کا مظہر ہے۔ ایک عشرہ قبل اوباما پر اعتماد کرنے والی ہوش مند قوم پر کیا گزری کہ اس نے گوروں کی بالادستی کوعقیدے کا درجہ دے دیا؟ افریقی اور ایشیائی نسلوں، صدیوں میں تعمیر کئے گئے سول اداروں اور امریکی سیاست کی محترم شخصیات کی تذلیل کا عمل اب پہم جاری۔ ریاست ہائے متحدہ میں رواداری کا عہد میں تمام ہوا۔ کبھی یہ اس کا سب سے بڑا امتیاز تھا۔ ابرہام لنکن اور مارٹن لوتھر کنگ سے لے کر بارک حسین اوباما تک جو کچھ امریکہ نے کمایا تھا، سب گنوا دیا۔
دو سابق امریکی صدور جارج بش اور بارک اوباما ایسی شخصیات نے جنرل سلیمانی کے قتل کو ناعاقبت اندیشی قرار دیا ہے۔ ہوش مند عناصر پریشان اورماتم کناں ہیں۔ امریکی عوام کی اکثریت مگر اپنے صدر کے پیچھے کھڑی ہے۔ دو عشرے ہوتے ہیں جب "Amrican Hubris" کے نام سے، کی ایک کتاب منظر عام پر آئی تھی۔ عراق اور افغانستان پر امریکی مہم جوئی کے پس منظر میں لکھا گیا تجزیہ۔ ویت نام کی ہولناک ناکامی اور ملٹری انڈسٹریل کامپلیکس کی بہیمانہ ذہنیت کا ذکر بھی تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کے عمل میں سیاہ فام اور مسلم ایشیائی اقوام کے خلاف دبی ہوئی نفرت لاشعور کی تاریکیوں سے ابھر ی اور چھا گئی۔
میرے محترم امریکی دوست مصطفی کہا کرتے: امریکی نفسیات کو سمجھا نہیں جا سکتا، جب تک تاریخ کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ اسلام سے نفرت اس کی گٹھی میں پڑی ہے۔ پانچ کروڑ ریڈ انڈین گوری اقوام نے قتل کئے۔ امریکہ کے قدیم باشندوں میں سے نوے فیصد سے زیادہ۔ پانچ کروڑ افریقی، جانوروں کی طرح اغوا کر کے لائے گئے۔ ان میں سے آدھے بحری جہازوں میں، تاریک راستوں میں مارے گئے۔ باقی آدھے غلام بنا لئے گئے۔
مصطفی کو اصرار تھا کہ امریکی سرشت میں، خوں ریزی، الحاد اور غلام بنانے کی وحشت پوشیدہ ہے۔ عالم اسلام مغالطے میں مبتلا ہے۔ اس کے لئے سب سے بڑا خطرہ کمیونسٹ سوویت یونین یا چین نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ مسلمان حکمران، سیاست دان اور دانشور خود فریبی کا شکار ہیں۔ بالکل غلط طور پر کمیونسٹ ممالک کو وہ اپنا اصل دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ امریکی پراپیگنڈے کا کمال تھا۔ عالمی طاقت کا غلبہ فقط عسکری اور مالی اداروں تک محدود نہیں۔ یورپی ممالک کی خوش دلانہ پش پناہی سے، ذرائع ابلاغ پر غیر معمولی گرفت واشنگٹن کو اس قابل بناتی ہے کہ مستقل طور پر بنی نوع انسان کو فریب دے سکے۔ یہ اکتوبر 1977ء تھا جب طویل قامت اور وجیہ مصطفی نے عالم اسلام کے بعض لیڈروں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
عالم عرب اور ایران سے ہوتے ہوئے وہ لاہور پہنچے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت کئی مذہبی لیڈروں سے انہوں نے ملاقاتیں کیں۔ اپنے بچوں کو وہ ساتھ لائے تھے۔ چاہتے یہ تھے کہ وہ یہاں اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہوں۔ اسلامی طرز زندگی کا مشاہدہ کریں اور خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ 1978ء میں انہوں نے دوسری کوشش کی۔ پاکستانی رہنمائوں کو انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ تہران میں امریکی تھانے دار شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دن گنے جا چکے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ انقلاب برپا ہو جائیگا۔ مصطفی نے یہ بھی کہا کہ عالم اسلام میں وہی تحریک کامیاب ہو گی جو افتادگانِ خاک کا درد پالے گی۔ جوڑ توڑ سے نہیں، حقیقی انہماک اور وسیع تناظر میں، دیانت دارانہ تجزیے ہی سے پیہم بدلتی دنیا کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عالمگیر اسلامی انقلاب کے علمبردار رہنمائوں نے سنی ان سنی کر دی۔ مایوس ہو کر مصطفی لوٹ گئے۔
عصری دنیا سے بے خبر، خود شکنی پر تلے، ہم باہم الجھتے رہے۔ مستقبل سے نمٹنے کی ذرا سی تیاری بھی نہ کی۔ سیاسی، عسکری اور نہ علمی اعتبار سے۔ کہیں بھی، ترکی اور ملائشیا کے سوا کہیں بھی مسلم عوام پر اعتماد نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان بھارت کی زد میں ہیں۔ روہنگیا مسلمان صرف برما کی سفاک سپاہ کا ہدف نہیں۔ بھارت ان کا مددگار ہے اور بنگلہ دیش کی ناعاقبت اندیش حسینہ واجد بھی۔
عرب ممالک اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہو چکے۔ اسرائیل کے حلیف برہمن سے مرعوب، ہندوستان میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے۔ نریندر مودی کے لئے اعلیٰ ترین اعزازات ہیں اور اس عرب ملک میں بت کدے کی تعمیر، جسے کبھی سرکارؐ کے قدموں نے چھوا تھا۔ جب ایک تجارتی میلے میں شرکت کے لئے آپؐ وہاں تشریف لے گئے، جسے اب امارات کہا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ ناگزیر ہے اور برصغیر میں بھی۔ عسکری ماہرین کی اکثریت کہتی ہے کہ اغلباً چند برس بعد۔ کون جانتا ہے کہ کب؟ آج، تین برس یا ایک عشرے کے بعد۔ فرار کی کوئی راہ نہیں۔ فیصلہ صادر کرنے والی قیادتوں پہ جب بھی پاگل پن سوار ہو، ساری دنیا رزم گاہ۔ پچھلی صدی میں دو عالمگیر جنگوں کو آدمیت بھگت چکی۔
تیسری عالمی جنگ کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے، اور اقبالؔ یاد آتے ہیں :
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف