پاکستان ایک منوّر مستقبل رکھتا ہے۔ مسلم برصغیر کے لیے پیغمبرِ آخر الزماں ؐ کی بشارت یہ ہے کہ اسے مشرکین اور یہودیوں کو نمٹانا ہے۔ نہیں، چند ہزارلوگ مملکتِ خداداد کا آنے والا کل اغوا نہیں کر سکتے، چرا نہیں سکتے۔
پانچ آدمی ہیں، پانچوں کی کہانی معلوم۔ تیس برس ہوتے ہیں، اسفند یار ولی خاں کے والدِ گرامی عبد الولی خاں نے ایک کتاب لکھی تھی۔ "Facts are facts" اس میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان انگریزوں کی سازش کا نتیجہ ہے۔ ربع صدی کے بعد عبد الغفار خاں کے ایک پرجوش پیروکار جمعہ خان صوفی نے تفصیلات بیان کر دیں کہ باچا خان کا خاندان پاکستان توڑنے کی منصوبہ بندی میں شامل و شریک تھا، جو دہلی میں کی جا رہی تھی۔
اس نے اپنی کتاب میں ان ملاقاتوں کی روداد رقم کی، جو اجمل خٹک کابل میں بھارتیوں کے ساتھ کیا کرتے۔ ان رقوم کی روداد بھی جو باقاعدگی سے افغان حکومت خان صاحب کو ادا کرتی۔ ایک بار پانچ لاکھ روپے جو مبلغ پچاس ہزار ڈالر ہوتے تھے، انہوں نے لندن کے افغان سفارت خانے میں وصول کیے۔ اس شرط کے ساتھ کہ ان کی رسید نہیں دی جائے گی۔ 27برس ہوتے ہیں، جلال آ باد میں باچا خان مرحوم کی جائیداد دیکھنے کا موقع ملا۔ ممتاز اور معتبر اخبار نویس سہیل وڑائچ اور پی ٹی آئی کے رہنما اعجاز چوہدری کی معیت میں۔ اسی کے ایک حصے میں عبد الغفار خان کا مقبرہ تعمیر ہوا۔
یہ جولائی 1992ء تھا۔ کابل میں گندم ابھی سبز تھی لیکن سروں کی ایک اور فصل کاٹ ڈالی گئی۔ مجاہدین ڈاکٹر نجیب اللہ کو پھانسی پہ لٹکا چکے تھے۔ کابل خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا تھا۔ جلال آباد یونیورسٹی میں کمانڈر ملّا ملنگ سے پوچھا کہ غفار خان کے نامکمل مزار کا کیا ہوگا؟ اس کا جواب مختصر اور واضح تھا۔ "یہ ایک مسلمان کی قبر ہے "صرف دو سال قبل، اس وقت سب سے زیادہ مقبول افغان رہنما، گلبدین حکمت یار عبد الولی خان کے ساتھ ملاقات سے انکار کر چکے تھے۔ ولی خان کے پیغام پر ان کا جواب یہ تھا:مسلمان تو کیا، آپ کے اندر تو ایک پشتون کی خصوصیات بھی نہیں۔
جمعہ خان صوفی کے بقول صوبہ سرحد کو پاکستان سے الگ کر کے افغانستان میں شامل کرنا اور اسے پشتونستان کا نام دینا۔ سوال یہ تھا کہ اس نئی مملکت کا فرمانروا کون ہوگا۔ رسان سے باچا خاں بولے " اپنا ولی خاں ہے نا "
45 برس ہوتے ہیں، لاہور میں فضل الرحمٰن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود نے ارشاد کیا تھا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ ایک واقعہ پہلے لکھ چکا، اب دہراتا ہوں۔ پندرہ برس ہوتے ہیں، علما کے ایک وفد نے دعوتِ شیراز کے لیے غریب خانے کو عزت بخشی۔ کھانے کے بعد گفتگو کا دور چلا تو ایک مولوی صاحب نے ارشاد کیا: پاکستان میں اسلام کیونکر نافذ ہوگا۔ انگریزوں کے ایک ایجنٹ نے بنایا ہے۔
فرمایا: مولانا شبیر احمد عثمانی آزردہ تھے کہ تحریکِ پاکستان کا حصہ کیوں بنے۔ ان کے بقول وہ بھارت گئے اور مولانا حسین احمد مدنی کی قبر پہ کھڑے روتے رہے۔ پورے وثوق سے عرض کرتا ہوں کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کبھی بھارت نہیں گئے۔ دوسرا لطیفہ اور بھی حیران کن ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی کا انتقال 1959ء میں ہوا اور اس سے کئی برس پہلے مولانا عثمانی کا۔ جو بھلا آدمی پہلے اس دنیا سے چلا گیا، ان بزرگ کے مزار پر وہ کیسے جا سکتاتھا، جو بعد میں فوت ہوئے۔ یہ اتنی سادہ سی بات ہے لیکن جب لوگ جھوٹ گھڑنے پر تلے ہوں اور یقین کرنے والے یقین کرنے پر آمادہ ہوں تو روکے کون۔
حاصل بزنجو کے والدِ گرامی غوث بخش بزنجو 1970ء کے عشرے میں نسبتاً ایک معقول اور معتدل مزاج سیاستدان کے طور پر ابھرے۔ انہیں بابائے مذاکرات کہا جا تا تھا۔ 1947ء سے پہلے مگر بھرپور کوشش انہوں نے فرمائی تھی کہ ریاستِ قلّات کا اتحاد بھارت سے ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو مقبوضہ کشمیر کی طرح آج قلّات میں بھی بھارتی فوج دندنا رہی ہوتی۔ خدا خدا کر کے زخم مندمل ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے پھر سے جگا دیے ہیں۔
زخم بھرتا ہے زمانہ مگر اس طرح ندیمؔ
سی رہا ہو کوئی پھولوں کے گریباں جیسے
جس طرح اسفند یار کے بابا جان، باچا خان کو سرحدی گاندھی کہا جاتا، اسی طرح محمود اچکزئی کے والدِ مرحوم عبد الصمد اچکزئی کو صوبہ بلوچستان کا گاندھی۔ موہن داس کرم چند گاندھی جو ایک عجوبہ تھے۔ معلوم بھارتی تاریخ کے سب سے مقبول رہنما۔ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں اقبالؔ نے کہہ دیا تھا کہ موہن داس کرم چند کو ایک دن ہندوئوں کے عظیم ترین رہنما کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ کانگریس کے جس وفد نے جنوبی افریقہ سے بھارت پہنچنے والے گاندھی کا استقبال کیا، محمد علی جناح اس میں شامل تھے، جنہیں ابھی قائدِ اعظم بننا تھا۔
گاندھی نے کہا: مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سواگت کرنے والوں میں " محمڈن "لوگ بھی ہیں۔ جواں سال جناح اس پر بڑبڑائے: یہ شخص ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دے گا۔ گاندھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح نہیں تھے۔ اس سے کہیں زیادہ ہوشمند تھے۔ نبوت کا دعویٰ کرنے کی بجائے، وہ اوتار بنے۔ اس کوشش میں پوری طرح وہ کامیاب رہے۔ یہ الگ بات کہ رفتہ رفتہ پرتیں کھلتی جا رہی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ، قائدِ اعظم کی عظمت میں اضافہ اور گاندھی کا قد گھٹتا جاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے یہ کہا تھا:
بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا
اگر اس طرّہ ئِ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
شریف خاندان نے اپنے نو تخلیق گائوں کا نام بھارتی گائوں کے نام پر رکھا۔ اس سے بہت پہلے جب فوج سے وہ ناراض ہوئے اور بتدریج یہ ناراضی بغض و عناد میں بدل گئی۔ محترمہ مریم نواز کی خاتون اتالیق گواہی دیتی ہیں کہ جاتی امرا میں بھارتی شہریوں، مرد وخواتین کی آمدرفت روزانہ تھی۔ کیا آصف علی زرداری کی طرح نواز شریف بھی اس عالمی منصوبے کا حصہ تھے، جس کے تحت پاکستان کو سکّم، بھوٹان اور بنگلہ دیش کی طرح بھارت کے زیرِ اثر لانا تھا۔ زرداری صاحب نے کہا تھا: ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی اور ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی بستا ہے۔ بے نظیر کے ساتھ بیاہ رچانے سے پہلے وہ اے این پی کے کارکن تھے۔ کسی زمانے میں ان کے والدِ گرامی بھی۔
تحریکِ پاکستان کے ہنگام شریف خاندان لاہور میں مقیم تھا۔ غالباً 1937ء میں محمد شریف اور ان کے بھائی امرتسر سے لاہور منتقل ہوئے۔ اس تمام عرصے میں جدوجہد ِ آزادی اور مسلم لیگ سے وہ الگ رہے۔ 1985ء میں ان کے سرپرست جنرل ضیاء الحق نے مسلم لیگ کی تشکیلِ نو کا فیصلہ کیا تو میاں صاحب نا خوش تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ مسلم لیگ ایک مقبول جماعت نہیں، ایک مردہ گھوڑا ہے۔ 1937ء سے 1947ء تک شریف خاندان تحریکِ پاکستان کو کراہت کے ساتھ دیکھتا رہا۔
تحریکِ پاکستان کے سب مخالفین آج ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ ایک مسلم لیگی خاندان کے فرزند سے استعفے کا مطالبہ کر نے والے۔ ان کے والد اکرام اللہ نیازی 1940ء میں منٹو پارک میں موجود تھے، جب قائدِ اعظم کی موجودگی میں قرار دادِ پاکستان منظور کی گئی۔
پاکستان ایک منوّر مستقبل رکھتا ہے۔ مسلم برصغیر کے لیے پیغمبرِ آخر الزماں ؐ کی بشارت یہ ہے کہ اسے مشرکین اور یہودیوں کو نمٹانا ہے۔ نہیں، چند ہزار لوگ مملکتِ خداداد کا آنے والا کل اغوا نہیں کر سکتے، چرا نہیں سکتے۔