ناکامی کے صحرا میں امید کی کونپل کیسے پھوٹتی ہے۔ ہزاروں برس سے معلم، مفکر، فلسفی اور صوفی اس پہ فکر کے موتی رولتے آئے ہیں۔ ایک نکتے پہ سب متفق کہ تاریکی میں فقط امید دیا جلا سکتی ہے، مایوسی موت ہے اور وہ ویرانہ، جس میں کبھی کچھ نہیں اگتا۔
بھارتی سرحد سے متصل تحصیل ڈالی کے گاؤں سخی سیار میں، کھجور کے خوشے کوئی دن میں پیلے ہو جائیں گے۔ تھر پارکر کے صحرا میں آخر کو ایک نخلستان نمودار ہوا ہے۔ اکتوبر2018ء میں کراچی کی دعا فاؤنڈیشن نے کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کی عمل فاونڈیشن کے تعاون سے تھرپارکر میں پہلا باغ برپا کرنے کا قصد کیا۔ اسلام آباد سے زیتون کے سو، میرپور خاص سے قندھاری انار اور بیر کے 300 درخت منگوائے گئے۔
کھجور کے 125شجر خیرپور سے۔ اعلیٰ قسم کی کھجور، یہ دیارجس کا گھر ہے۔ کھجور، اللہ کے آخری رسول ﷺنے فرمایا تھا: جنت کا درخت ہے۔"مسجدِ قرطبہ" میں اقبالؔ نے عمارت کے ستونوں کو دیارِ شام کی کھجوروں سے تشبیہہ دی ہے:
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
کیا عجب ہے کہ خیر پورؔ کے یہ شجر شام کی کھجوروں کی اولاد ہوں، جو عرب شہسوار اپنے ساتھ لائے ہوں۔ کہا جاتاہے کہ مسجدِ قرطبہ کی طرح، اقبالؔ کی نظم بھی لافانی ہے۔ لفظوں سے تعمیر کی گئی یہ خیرہ کن عمارت باقی رہے گی، جب تک گردش لیل و نہار قائم ہے۔
سخی سیار کے دیہاتیوں نے سنا تو مذاق اڑایا، کھجور تو انگریز بھی لگا نہیں سکا تھا۔ ماسٹر شہاب اور اس کے سرپرست کیا بیچتے ہیں۔ تھرپارکر میں زیتون؟ پاگل پن! ماسٹر شہاب لوگوں کی باتیں سنتے، مسکراتے اور خاموش رہتے۔ چھوٹے بھائی کو ساتھ لیے، نمازِ فجر کے بعد وہ زمین کے اس ٹکڑے پرچلے آتے۔ درختوں کو پانی دیتے اور گوبر کی کھاد ڈالتے۔ ان کے درمیان اگی گھاس کھودا کرتے۔ آخر کار کھجوروں پہ سبز خوشے اگے۔ اگلے سال انار کے درختوں پر۔
جولائی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں لذیذکھجور کام و دہن کی تواضع کریں گے۔ بیس ہزار مربع کلومیٹر پر محیط وسیع و عریض صحرا کے ایک دور درازکونے میں ماسٹر شہاب الدین سمیجو اورنعمت اللہ خاں کے جانشین ڈاکٹر فیاض عالم نے ایک انقلاب اگا دیا ہے۔ صحرا میں پہلا نخلستان بنادیا ہے۔ اس تجربے سے نہ صرف تھر بلکہ چولستان بھی فیض پا سکتاہے۔ اسی زمین کے پانی سے زیتون، کھجور، انار اور انجیر کے لاکھوں درخت لہلہا سکتے ہیں۔ قطرہ قطرہ آبیاری Drip irrigation زراعت کا نیا دستور ہے۔
ماسٹر شہاب الدین سمیجو کی کہانی عجیب ہے۔ غور کرنیوالوں کیلئے جس میں نشانیاں ہیں۔ وہ اسی گاؤں سخی سیار میں پیدا ہوا اور یہیں پرائمری تک تعلیم پائی۔ 90 کی دہائی تک شہاب سمیجو کے گوٹھ میں صرف ایک پرائمری سکول ہی تھا حالانکہ آبادی کئی ہزار۔ پانچویں جماعت کے بعد شہاب نے والد سے درخواست کی کہ وہ مزید تعلیم کا آرزومند ہے۔ آرزو مند نہیں، وہ بے تاب تھا۔ باپ نے کہا: میرے پاس اتنے پیسے کہاں کہ تمہیں عمرکوٹ بھیج سکوں۔ ہر ماہ جہاں پانچ چھ ہزار روپے درکار ہوں گے۔ تم کراچی یا حیدر آباد کے کسی دینی مدرسے میں چلے جاؤ۔ مفت تعلیم، رہائش اور کھانا بھی شہاب کے ایک عزیز انہیں ٹنڈوجام لے آئے اور ایک مدرسے میں داخل کرادیا۔
جوان ہوتے شہاب الدین کے لیے یہ ایک نئی دنیا تھی۔ مدرسے کے ساتھ 150 ایکڑ زرعی زمین، پہلو سے گزرتی ہوئی پانی سے لبالب نہر۔ صحرا کے مکیں نے یہ منظر پہلی بار دیکھااور مبہوت رہ گیا۔ وہ تو بس یہ جانتا تھا کہ مو ن سون میں بارش ہو تو فصل اگتی ہے۔ گوارا، باجرہ اور موٹھ کے سوئے ہوئے کھیت جاگ اٹھتے ہیں اور ہاں تربوز بھی، صدیوں سے تھر کے مکین اور اونٹ جس سے پیاس بجھاتے آئے ہیں۔ جو خود رو ہوتا ہے اور بویا بھی جاتا ہے اور خود رو کھمبیاں۔ تربوز صحرا میں زندگی کی ضمانت ہے اور کھمبیاں ریگ زار میں قدرت کا انمول عطیہ۔ شہاب نے درس نظامی مکمل کیا تو گھر واپس جانے کی بجائے کراچی کا رخ کیا۔ سندھ یونی ورسٹی میں تعلیم کی تکمیل کے لیے۔
جناب زرداری کے بہنوئی اور سندھ کی موجودہ وزیرصحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے خاوند ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو سیکریٹری تعلیم تھے۔ اللہ نے انہیں توفیق دی کہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی مقابلے کے امتحان سے ہوئی۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ کامیاب امیدواروں کو متعلقہ اضلاع ہی میں تعینات کیا جائے گا۔ شائد عالمی بینک اور دوسرے امدادی اداروں کا دباؤ بھی تھا۔ سندھ میں ورنہ سرکاری اداروں، خاص طور پر اسکولوں کالجوں میں استحقاق پر بھرتی ایک خواب ہے۔ کم از کم غریب لوگ تو یہ سپنا کبھی نہیں دیکھتے۔
شہاب سمیجو تحریری امتحان میں کامیاب ہوا اور پھر زبانی میں بھی۔ تقرر کا پروانہ لے کر وہ اپنے گاؤں لوٹ گیا۔ چند برس کے اندر اسکول پرائمری سے مڈل ہوگیا اور طلبہ کی تعداد 300 سے بڑھ گئی۔ پے درپے کامیابیوں نے شہاب الدین میں زندگی کا ولولہ بیدار کر دیا تھا۔ 2014 میں صحرا کو بدترین خشک سالی کا سامنا ہوا تو وہ کراچی گیا۔ اپنے دوست ڈاکٹر فیاض عالم کے پاس جو جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔ سیاست نہیں بلکہ ہمہ وقت سماجی خدمت میں منہمک۔ ہر آدمی کا ایک مزاج ہوتاہے اور عمر بھر وہی اس پر حکومت کرتا ہے۔ قحط زدگان کے لیے دونوں نے عطیات جمع کیے۔ آئندہ برسوں میں رفتار بڑھتی گئی۔ اب تک وہ تین سو کنویں کھدوا چکے۔ ہر سال رمضان المبارک میں لاکھوں روپے کا راشن وہ تقسیم کرتے ہیں۔ مہربان کراچی کے عطیات سے عیدالاضحٰی پر درجنوں جانورقربان ہوتے ہیں۔ دوردراز کے اس گاؤں میں زندگی مسکراتی ہوئی جاگ اٹھتی اور کہانی کہنے لگتی ہے۔
اکتوبر 2017 میں ڈاکٹر فیاض نے تجویز پیش کی کہ شہاب الدین کی آبائی 20 ایکڑ بارانی زمین پر ٹیوب ویل نصب کیا جائے۔ گوٹھ کے بزرگوں نے کہا کہ زمین کے پانی سے فصل ہوگی، نہ شجر۔ کھارا پانی الٹا نقصان دہ ہوتاہے۔ شہاب سمیجو حیران تھے۔ سرحد کے اس پار ان کی پھوپھی کا خاندان ٹیوب ویل کے پانی سے سفید زیرے کی فصل اگاتا اور لاکھوں روپے کماتا ہے۔
کچھ ہی عرصے میں اس زمین پر 450 فٹ گہری بورنگ ہوئی۔ سولر سسٹم نصب کیا گیا۔ 16000 گیلن گنجائش کا حوض بنایا گیا۔ کپاس ہوئی، سرسوں اگی اور گندم بھی۔ اہلِ علاقہ حیران اور شاد تھے۔ دور دور سے دیکھنے آئے۔ 2018ء میں نخلستان کا خواب دیکھا گیا۔
سلسلہء روزو شب سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
ناکامی کے صحرا میں امید کی کونپل کیسے پھوٹتی ہے۔ ہزاروں برس سے معلم، مفکر، فلسفی اور صوفی اس پہ فکر کے موتی رولتے آئے ہیں۔ ایک نکتے پہ سب متفق کہ تاریکی میں فقط امید دیا جلا سکتی ہے، مایوسی موت ہے اور وہ ویرانہ، جس میں کبھی کچھ نہیں اگتا۔