صوفیا کہتے ہیں: آدمی اپنی ذات کا اسیر ہو جائے تو سیاہ اور سفید کا امتیاز کھو دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جبلت کے غلبے میں آرزو اندھی ہو جائے تو عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ فقط ہیجان باقی رہ جاتا ہے:
ہیولہ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
پراپرٹی ڈیلر نے چیف جسٹس پہ یلغار کا فیصلہ کیا تو دو ارب روپے مختص کئے۔ چیف جسٹس کے خلاف دھواں دار پریس کانفرنس سے آغاز کیا۔ تہیہ اس کا یہ تھا کہ میڈیا میں طوفان اٹھا دے۔ اس کا رسوخ حکومت او رسیاسی پارٹیوں میں بہت گہرا تھا۔ ہمہ وقت چیخنے چلانے والے لیڈروں کی مجال نہ تھی کہ برائے وزنِ بیت بھی اس کے خلاف بات کریں۔ ایک آدھ استثنیٰ کے سوا میڈیا کا عالم بھی یہی تھا۔ ٹی وی کا ایک پروگرام اس کی حمایت میں نشر ہوا۔ قدرے دھیمے سروں میں۔ غالباً ردّعمل کا اندازہ قائم کرنے کے لیے۔ ایک نکتہ اس کا بالکل درست تھا۔ کاریں دوڑانے کا ایک مقابلہ اس نے کرایا تھا۔ حادثہ ہوا اور ایک جان چلی گئی عجیب بات ہے، کتنی عجیب بات پراپرٹی ڈیلر اس آدمی کو روندنے پر تلا تھا، تین برس پہلے جو ہیت حاکمہ کو ہرا چکا تھا، جو اب بجائے خود قوت و حشمت کا ایک لہکتا ہوا استعارا تھا۔ المیہ یہ ہوا کہ اب وہ من مانی پر تلے رہتے۔ اس کے اکلوتے فرزند پہ قتلِ عمد کا مقدمہ چلانیکا حکم صادر کیا، درآں حالیکہ موقع پر وہ موجود ہی نہ تھے۔
فوجی حکمران نے چیف جسٹس کو برطرف کیا تو وکلاء میدان میں نکل آئے تھے اور بتدریج احتجاج کے دوسرے خوگر بھی، وہ جو انسانی زخموں کی تجارت کرتے ہیں، سیاستدان اور اخبار نویس۔ فعال طبقات تنگ آچکے تھے۔ معاشی طور پہ ملک ہر چند فروغ پذیر تھا لیکن جیسا کہ اس نادر روزگار فاروق اعظم ؓ نے کہا تھا: خلقِ خدا کو اپنے حاکموں سے فطری طور پر ایک نفرت ہوتی ہے۔
اب سیاسی پارٹیاں بھی اٹھیں۔ اس لیے کہ سیاست کی کشتی عوامی احساسات کے سمندر میں بہتی ہے۔ وہ پارٹیاں، اخبار اور چینل بھی، زار کے جن پر احسانات تھے۔ حکومت کو چکمہ دینے میں جو اس کے شریک کار تھے۔ انتہا یہ ہے کہ اے این پی اور جمعیت علمائِ اسلام بھی۔ ان پارٹیوں کے کارکن مظاہروں میں شریک ہوتے لیکن لیڈر منمنایا کرتے "ججوں کی بحالی ہمارا دردِ سر نہیں "
نوبت یہاں تک پہنچی کہ سروے ہوا تو پتہ چلا کہ 83فیصد پاکستانی ججوں کی بحالی کے خواہش مند ہیں۔ 83سالہ سبکدوش بیوروکریٹ روئیداد خاں ہر صبح گھر سے نکلتے۔ چہل قدمی کے لیے مارگلہ کو جاتے۔ غیر معمولی عزم و ارادے کے اس آدمی کو چلتے دیکھنا خود ایک منفرد مشاہدہ تھا۔ جہاں کہیں فٹ پاتھ میں گلی کا وقفہ ہوتا، بوڑھے آدمی کو رکنا پڑتا۔ اہلِ عزم کے اپنے ہی پیمانے ہو اکرتے ہیں۔ جسمانی کوفت اور کراہت انہیں بیزار نہیں کرتی۔ ذہنی اور قلبی سکون ہمیشہ ان کا مقصود رہتا ہے۔ گھنٹوں شاہراہِ دستور پر وہ موجود رہتا۔ پھر ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا، ڈیڑھ دو کلومیٹر دور اپنے گھر کی راہ لیتا۔ ایک بڑے اخبار کے پبلشر سے، زار سے جس کے ذاتی مراسم تھے، ناچیز نے پوچھا: ہمیشہ کے آلودہ پٹواریوں کی خوشامد کرنے والے اس آدمی کو کیا ہوا۔ جواب یہ تھا: طاقت کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ بڑھتے پھیلتے آخر کار فتور کو جنم دیتی ہے۔ خواہشات بے قابو ہو جاتی ہیں۔
ہاں!اس نے ٹھیک کہا خبطِ عظمت کی اپنی ایک نفسیاتی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلسل اور متواتر آدمی اپنی انا کی آبیاری کرتا ہے۔ زار کے ایک دوسرے دوست سے کہا: آپ نے اسے سمجھایا ہوتا۔ پژمردہ لہجے میں بولے: کیوں نہیں۔ پوری کوشش کی مگر نہیں مانے۔ ضد پہ تلے یہ کہتے رہے: آج دشمن پہ اگر یلغار نہ کی تو پاگل ہو جاؤں گا۔ نہ صرف ان صاحب کو پسپا ہونا پڑا، اس سے پہلے فوجی حکمران کو سپہ سالار کی وردی بھی اتارنا پڑی۔ اس جنرل کو پہنانا پڑی، جو اس کے لیے بہت پسندیدہ بہرحال نہ تھے۔ اسے نکال پھینکنے کی تدابیر سوچا کرتے مگر پاک فوج کے سربراہ کو برطرف کرنا ہمالہ سے ٹکرانے کے مترادف۔ انہی دنوں پیپلزپارٹی کی مقبول خاتون رہنماقتل ہو گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بدعنوانوں کے بدعنوان آصف علی زرداری ایوانِ اقتدار میں داخل ہو گئے۔ یہ حادثہ اگر نہ ہوتا تو پرویز الٰہی پرائم منسٹر ہوتے۔ شریف خاندان پنجاب میں لوٹ آیا اور ایسی تمکنت کے ساتھ کہ خدا کی پناہ۔ پولیس افسروں اور ڈپٹی کمشنروں کا تقرر اب شہباز شریف کے فرزندِ ارجمند حمزہ شہباز کیا کرتے۔
کوسِ لمن الملک بجانے والے اب کئی ایک تھے۔ چیف جسٹس نے ریاست کے اندر الگ اپنی ریاست بنا لی۔ حکمران پارٹی کو ہر روز وہ ایک نیا زخم لگاتے کہ ججوں کی بحالی میں کیوں تاخیر کی۔ وکلا اپنی قوت دریافت کر چکے تو سب قومی اداروں کو روندنے پہ تل گئے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، پولیس پہ چڑھ دوڑتے۔ معزز جج حضرات پہ یلغار کرتے؛حتیٰ کہ انہیں گالی دیتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لاہور میں امراضِ قلب کے ہسپتال پہ حملہ کیا۔ ڈاکٹر تو رہے ایک طرف، مریضوں کو مارا پیٹا، لواحقین کی تذلیل کی۔ دہلی میں قتلِ عام کرتے نادر شاہ کے لشکر کی طرح، اپنی راہ کا ہر نشان وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔
آدمی جب اختیار پاتا ہے تو قلب و دماغ کی ماہئیت بدل کیوں جاتی ہے؟ گاہے یکسر بدل کیوں جاتی ہے۔ ہزاروں برس سے آدمی یہ سوال پوچھ رہا ہے۔ کوئی دانشور اس سوال کا شافی جواب نہیں دیتا۔ میاں محمد نواز شریف پہ کیا دیوانگی طاری ہے۔ کس نے ان سے کہا کہ وہ پاک فوج کو سرنگوں کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو فاتح بن کے ابھری اور جس کا نظم مثالی ہے۔ آئین کی بجائے کہ اشرافیہ نے ہمیشہ اسے ٹھوکرپہ رکھا، وہی ملک کے اتحاد اور بقا کی علامت ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کو کیا ہوا کہ 2007ء اور 2008ء کے المناک تجربات کے باوجود اب بھی اپنی ترجیحات مسلط کرنے پہ مصر ہیں۔ وہ ایام کہ وردی پہن کر فوجی افسر بازار نہ جا سکتے۔ عمران خان کو کیا ہوا کہ آئے دن نیا محاذ کھولتے ہیں۔ کس نے انہیں بتایا ہے کہ ایک ہی وقت میں سارے حریفوں کو ہرایا جا سکتا ہے۔ مخالف سیاسی پارٹیوں، نیب او رمیڈیا، حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی۔ ابھی ابھی کپتان کے ایک فدائی کا پیغام موصول ہوا ہے "میڈیا ایک کینسر ہے اور کپتان کینسر کا علاج مفت کرتا ہے"بیسویں صدی کے علمی مجدد اقبالؔ نے کہا تھا:
اے صاحبِ نظراں نشۂِ قوت ہے خطرناک
صوفیا کہتے ہیں: آدمی اپنی ذات کا اسیر ہو جائے تو سیاہ اور سفید کا امتیاز کھو دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جبلت کے غلبے میں آرزو آندھی ہو جائے تو عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ فقط ہیجان باقی رہ جاتا ہے، صحرا کا بگولا۔
ہیولہ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی