اعلان کی حد تک عمران خان کی ترجیح نیا پاکستان ہے لیکن شاہراہ نہیں، وہ پگڈنڈیوں پہ بھٹکنے والے مسافر ہیں۔ ملک کرونا سے برباد ہوا جاتاہے۔ زندگیاں بچانے اور افتادگانِ خاک کے آنسو پونچھنے سے زیادہ وہ اپنے مخالفین کی پامالی و بربادی کے متمنی۔ ترقیاتی پروگراموں کے نام پر سیر و سیاحت میں مگن۔
ابھی کل کی بات ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹی۔ ایک دوسرے کے گریبانوں کے درپے۔ بس چلتا تو ایک دوسرے کو زمین میں گاڑ دیتے۔ کپتان کی راہ کے سب کانٹے چنے جا چکے تھے۔ ناچیزنے تب یہ عرض کیاتھا: وزیرِ اعظم کوصرف ایک آدمی سے خطرہ ہے اور اس کا نام ہے: عمران خان نیازی۔ زیاں بہت ہے، اس کائنات میں زیاں بہت۔ بیشتر زندگیاں کنفیوژن کی نذر ہو جاتی ہیں۔ لیڈر اور دانشور خبطِ عظمت کا شکار ہو کر رائیگاں۔ ازل سے دستور یہ ہے: ترجیحات متعین کرنے میں جو کامیاب رہا، وہی کامیاب۔ جو ناکام رہا، وہی نامراد۔
فرمان یہ ہے کہ انسان کسی کو دھوکا نہیں دیتا مگر اپنے آپ کو۔ چالاکی اور منافقت کا مرض جب آدمی پالتا ہے اور پالتا ہی چلا جاتاہے تو اپنی افتادِ طبع اور تقدیر کے حوالے کر دیا جاتاہے۔ لائل پور کے ایک گاؤں سے گورے چٹے رنگ اور نکلتے ہوئے قد کا نوجوان گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخل ہوا۔ امتحان کی تیاری میں جتا تو رہتا مگر انہماک پیدا نہ ہوتا۔ حیرت زدہ وہ سوچتا: میری تقدیر میں آخر کیا لکھاہے۔ مزاج شفقت اور کرم میں ڈھلا تھا۔
تازہ ہوا کے لیے رات گئے ہوسٹل کی چھت پہ کھڑا تھا کہ یکایک بازار ہجوم سے بھر گئے۔ چونک کر دیکھا تو یاد آیا کہ یہ سینما بین ہیں۔ یکایک ایک عجیب خیال اس کے دل میں اترا اوراترتا چلا گیا۔ بے معنی فلموں کے لیے اگر ہزاروں لوگ آدھی رات تک جاگتے ہیں تو کیا میں اتنا بھی نہیں کر سکتا کہ روزانہ چند گھنٹے حصولِ علم اور عبادت کے لیے مختص کر دوں۔ اْس کی خوشنودی کے لیے، ان گنت نعمتوں سے جس نے نوازا، اپنے اطمینانِ قلب کے لیے۔ اسی شب فیصلہ صادر کیا اور عمر بھر اس پہ قائم رہا۔ دوپہر اور شام کے وقت اسے زرعی یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر دیکھا جاتا، جہاں اپنے ہاتھ سے پکائے گئے پراٹھے لقمہ لقمہ وہ ایک کوڑھی کو کھلا رہا ہوتا۔ پچاس برس پر پھیلی ہوئی یہ ایک خیرہ کن داستان ہے، جو شاید کبھی سنائی جا سکے، آج مستجاب الدعوات اس درویش کا ایک جملہ یاد آیا۔ کسی نے پوچھا: کیا وہ درودِ تاج پڑھا کرے۔ کچھ اور دعاؤں کے بارے میں بھی جو عہدِ اوّل کے بعد تراشی گئیں۔ بے ساختہ جواب یہ تھا: بھائی ہم درودِ ابراہیمی پڑھا کرتے ہیں، ہم پکی سڑک کے مسافر ہیں۔
عرب شاعر السّری الرفّع ایک پیچیدہ مرض سے شفایاب ہوئے تو اپنے معالج ابراہیم بن ثابت کی مدح میں کہا تھا
"چھپا ہوا روگ
اس پہ یوں منکشف ہو جاتاہے
جیسے شفاف تالاب کی تہہ میں پڑے باریک سنگریزے
نگاہ کی زد میں آجاتے ہیں "
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ، جو مسائل پہ کڑھتے اور پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایک وہ جو گرہیں کھولتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔ ابھی ابھی ایک دوست کا ٹیلی فون موصول ہوا: کرونا کے زخموں پہ ناشاد تھے۔ کہاکہ کچھ روپے پڑے ہیں، کیا ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھجوا دوں۔ عرض کیا: جی ہاں۔ اس لیے کہ جتنی فلاحی تنظیموں سے واقف ہوں، ان میں سب سے کم انتظامی اخراجات انہی کے ہیں۔ پھر یہ کہ حساب کتاب میں شفاف۔ یوں تو الخدمت بھی ہے اور کچھ دوسرے اہلِ کرم بھی۔"ایک کروڑ روپے کا چیک میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کو پہنچا دیجیے گا" ظاہر ہے کہ خوشگوار حیرت ہوئی اگرچہ تعجب کا کوئی جواز نہ تھا۔ اس لیے نہیں کہ آسودہ آدمی ہیں بلکہ اس لیے کہ ہمیشہ ایثار کرتے ہیں۔ وبا کی ابتدا ہوئی تو ساڑھے سات کروڑ روپے نذر کیے تھے۔ بہت کچھ اس کے بعد بھی۔ اب انہیں خیال آیا کہ اپنے شہر اور گرد ونواح میں تو ہاتھ وہ بٹا سکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ کسی ملک گیر تنظیم کے ہم نفس ہو جائیں۔ اپنے نام کی تشہیر وہ نہیں چاہتے۔
ایسے ہی یکسو مردانِ کار ہیں، جن کی وجہ سے یہ معاشرہ بکھرنے سے بچ گیا ہے ورنہ اسٹیبلشمنٹ، دانشوروں اور لیڈروں نے کب کا اسے ڈبو دیا ہوتا۔ اس لیے نہیں کہ بعض ان میں سے جرائم پیشہ ہیں۔ اس لیے نہیں کہ بعض ان میں سے بھیک کا ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔ اتوار کی شام تک کمیونسٹ تھے، پیر کی صبح امریکہ نواز ہو گئے۔ کل سرمایہ دارانہ نظام قاتل تھا۔ آ ج ہر درد کی دوا۔ ملّا کا حال بھی یہی ہے۔ اسلام کا علم بلند کر رکھا ہے لیکن اسلام کے ادراک کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہی عالم ٹی وی کے واعظوں کا۔ اہلِ ثروت کے دسترخوان پہ آسودہ ہوتے، غیر ملکی دوروں پہ شاد، اتنے شاد کہ اظہارِ فخر۔ اہلِ ایمان کو اللہ نے مسلمان کہا تھا۔ وہ اسے وہابی، شیعہ، دیوبندی اور بریلوی بنانے پہ ڈٹے رہتے ہیں۔ اقبالؔنے کہا تھا:
زمن بر صوفی و ملّا سلامی
کہ پیغا مِ خدا گفتند مارا
ولی تاویل ِ شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را
صوفی و ملّا کو میرا سلام پہنچے کہ اللہ کا پیغام مجھ تک پہنچایا مگر تاویل ایسی فرمائی کہ اللہ حیران ہے، جبرئیل حیران ہیں اور خود جنابِ مصطفیﷺ بھی۔ بجا طور پر کہا جاتاہے کہ اقبالؔ کی مٹی درد سے گندھی تھی۔ 1928ء میں کوئٹہ شہر زلزلے نے کھدیڑ ڈالا۔ اخبار میں دو بچوں کاذکر تھا، جن کے ماں باپ ناگہاں آفت کی نذر ہوئے۔ بچوں کو کھانا کھلانے کی کوشش ناکام رہی۔ وہ چھری کانٹے کے عادی تھے۔ اس ہولناک تباہی میں ان نزاکتوں کا کسے خیال ہوتا۔ وہ بھوکے سو رہے۔ اقبالؔ نے سنا تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ با ایں ہمہ غدارانِ ملت ملّا اور اشتراکی ملحد کے باب میں ان کا قلم تلوار ہو جاتا۔ ان کا ایک فارسی شعر ایسا ہے کہ پڑھتے ہوئے قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں: یارب، میری فکر کا سرچشمہ اگر قرآن نہیں تو روزِ جزا مجھے مصطفیٰﷺ کے بوسہء پا سے محروم کر دینا۔
اقبالؔ نے پاکستان کا خواب دیکھا اور عمر بھر اس پہ قائم رہے۔ ڈاکٹر چغتائی نے لکھا ہے: صحت گرتی چلی گئی، درد بڑھتا گیا لیکن حصولِ پاکستان کے لیے یکسوئی بھی۔ آخری ایام میں پیہم اصرار اس پہ تھا کہ سب لوگ محمد علی جناح کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں۔ قرار دادِ پاکستان منظور ہو چکی تو ایک لمحے کو قائدِ اعظم کبھی کنفیوژن کا شکار نہ ہوئے۔ گھن کی طرح بیماری کھائے جا رہی تھی مگر دم نہ لیا، جب تک پاکستان وجود میں نہ آگیا۔
بشیر میمن کی گواہی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ بہت قریب سے میں نے انہیں دیکھا ہے۔ زرداری، نواز شریف یا عمران خان، درباری وہ کبھی کسی کے نہ تھے۔ چودہ سو برس سے موئے مبارک ان کے خاندان میں چلا آتا ہے۔ یہی ان کا نفسیاتی سہارا ہے۔ اسی کے بل پر زرداری اورکپتان کو بھگتا دیا۔
اعلان کی حد تک عمران خان کی ترجیح نیا پاکستان ہے لیکن شاہراہ نہیں، وہ پگڈنڈیوں پہ بھٹکنے والے مسافر ہیں۔ ملک کرونا سے برباد ہوا جاتاہے۔ زندگیاں بچانے اور افتادگانِ خاک کے آنسو پونچھنے سے زیادہ وہ اپنے مخالفین کی پامالی و بربادی کے متمنی۔ ترقیاتی پروگراموں کے نام پر سیر و سیاحت میں مگن۔