ایسا لگتاہے کہ سبھی خسارے میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنا ورق الٹنے والی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ اگلے ڈرامے کے سب کردار نئے ہوں گے۔
کوئی نہیں جانتا کہ لانگ مارچ کا انجام کیا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ، عمران خان، نواز شریف اور آصف علی زرداری، سبھی نے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں ؛حتیٰ کہ مولوی صاحب نے بھی۔ اسلام آباد پہنچ کر معلوم نہیں وہ اپنی جلسہ گاہ تک محدود رہیں یا شاہراہِ دستور پہ یلغار۔ لوٹ جائیں گے یا جمے رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ انحصار حالات پر ہے۔ اس غیب پر، جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
طوفان اٹھانے کا فیصلہ چند ماہ قبل شاید اس وقت ہوا تھا، جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو آزادی عطا کی تھی۔ تبھی مولوی صاحب ان سے ملے تھے، دو زخم خوردہ آدمی۔ اللہ جانے خفیہ ایجنسیوں کو علم ہوا یا نہیں اور ہوا تو تجزیہ کر سکے یا نہیں۔
لاہور میں قافلہ پہنچا تو تعداد کم ہونے لگی۔ ملتان میں، جہاں سندھ، پنجاب اور بلوچستان، تین صوبوں سے تقریباتیس ہزار مظاہرین جمع ہوئے۔ لاہور پہنچنے تک آدھی کیوں رہ گئی؟ ملتان میں سرکاری افسر ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ جلسہ گاہ کے لیے پانی کا بندوبست سرکار نے کیا اور غسل خانوں کا بھی۔ سرکاری افسر خدمت میں پیش ہوئے۔ کہنے کو عمران خاں نے یہ کہا کہ جو مرضی کر لو، این آر او نہیں دوں گا۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ نواز شریف کی علالت پر ہاتھ پائوں پھول گئے تھے اور سبھی کے۔ ایسا لگتا تھا کہ آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ عدالت نے آخر کار ایک راستہ ڈھو نڈ نکالا۔ اس ادراک پر کہ مظلومیت کا پتہ فیصلہ کن ہو سکتاہے۔ نون لیگی لیڈر وں کا تکبر لوٹ آیا ؛حتیٰ کہ احسن اقبال میں، جن کے اپنے خوفناک تضادات ہیں۔ تضادات تو مولوی صاحب کے بھی بہت لیکن حکومت اب اس قابل ہی کہاں کہ کسی کا کچھ بگاڑ سکے۔ تاجر تک بلیک میل کرنے پر تلے ہوئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہت دن وہ اپنا کاروبار بند نہیں رکھ سکتے، سرکار کے لہجے میں لجاجت۔
کاروبارِ حکومت ان ہاتھوں میں ہے جو تجربہ رکھتے ہیں، فہم نہ سلیقہ۔ خوش فہمیوں کی جنتیں آباد کرنے والے۔ فیصلے ہوتے ہیں تو منسوخ کرنے کے لیے۔ یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ مولانا حمد اللہ کی شہریت منسوخ کر دی جائے۔ کس دانا نے سجھایا کہ ٹی وی میزبانوں کو دوسرے چینلوں میں جانے سے روکا جا سکتاہے۔ خود وزرا نے اس کا تمسخر اڑایا۔ مشیرِ اطلاعات نے احتجاج کیا تو الٹا انہیں ڈانٹ پڑی۔
بھا گ دوڑ وزیرِ اعظم نے بہت کی مگر محنت تب نتیجہ خیز ہوتی ہے، جب ایک منصوبے کے تحت ہو۔ قرآنِ کریم ایک بڑھیا کی مثال دیتاہے، جس نے سوت کاتا اور برباد کر دیا۔ وزیرِ اعظم کے خوفناک ذہنی مغالطے، اپنی عظمت کا خمار، یہ اصرار کہ لیڈر اگر مخلص ہو تو معجزے رونما ہوتے ہیں۔ اللہ کے بندے، اچھا لیڈر وہ ہوتاہے، جو اپنی ذات پہ اصرار کرتا ہی نہیں، جو بہترین مشیروں کا انتخاب کرتا ہے۔ آئینی سیاست کی تین سو سالہ تاریخ کے عظیم ترین مدبرین میں سے ایک نے کہا تھا: ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ اس آدمی کا نام محمد علی جناح تھا۔
تحریکِ انصاف میں تنظیم کہاں ہے۔ خود حکومت میں کہاں۔ وزیرِ اعظم کی میڈیا ٹیم میں آہنگ کیوں نہیں۔ باہم وہ دست و گریباں کیوں رہتے ہیں؟
زمانہ ہوا، حکومتوں کا رعب ختم ہو چکا۔ اب تو اور بھی برا حال۔ تحریکِ انصاف منظم کبھی نہ تھی۔ اب تو ایک جماعت ہی نہیں۔ طرح طرح کے ٹولے، تھوڑے سے پرانے پی ٹی آئی والے، کچھ پیپلزپارٹی کے، کچھ قاف لیگ کے پسماندگان، بلوچستان کے فری لانسرز، جنوبی پنجاب کے مرغانِ بادنما اور وغیرہ وغیرہ۔ اس پہ مستزاد دو عدد وزرائے اعلیٰ، جن کے اوپر والے ان کی سنتے ہیں اور نہ ماتحت۔ جو اخبار نویسوں سے بات کرنے کے قابل بھی نہیں۔ جو سیاسی خاندانوں کو نہیں جانتے۔ افسر شاہی کے اور چھور سے آشنا نہیں۔ میڈیا اور عدلیہ کے کردار کا ادراک نہیں رکھتے۔
اس پہ مستزا د یہ زعم کہ ہم وہ چنیدہ لوگ ہیں، جنہیں قدرت نے ایک تاریخی انقلاب کے لیے چنا ہے۔ کون سا انقلاب اور کیسا انقلاب؟ سرکاری افسر آپ کی سنتے نہیں۔ عدالت اور میڈیا کو آپ سمجھتے نہیں۔ الیکشن کمیشن کے ممبر تک نامزد کرنے کا سلیقہ نہیں۔ ڈھنگ کی کابینہ بنا نہیں سکتے۔ کون سے چنیدہ لوگ اور کس بات کا زعم؟
اس خاک داں میں آدمی کی بساط ہی کیا ہے؟ چالیس برس تک تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر حکومت کرنے والا اورنگزیب عالمگیر بسترِ مرگ پہ بے قرارتھا۔ کاروبارِ حکومت صاحبزادے کے ہاتھ میں تھا اور چن چن کر ڈھنگ کے آدمیوں کو وہ برطرف کیے جاتا تھا۔ جوانی سے بڑھاپے تک لگ بھگ ساٹھ برس تک کیسے کیسے طوفانوں میں جم کر کھڑا رہا تھا۔ باپ نے پہلی بار بدخشاں بھیجا۔ نواحِ شہر میں جنگ زوروں پر تھی کہ حریف امیر عبد العزیز کی نظر شہزادے پر پڑی۔ ظہر کی اذان کے ساتھ ہی نماز کی نیت اس نے با ندھ لی تھی۔ محی الدین کے چہرے پر جوانی میں بھی جلال برستا تھا۔ امیر عبد العزیز نے اپنے سرداروں سے کہا: اس آدمی سے کون لڑ سکتا ہے۔ لیکن اب لاچار اپنے فرزند کی طرف وہ دیکھا کیا اور بڑبڑایا کہ اس سلطنت کو تباہی سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ کبھی اس کا جدّ ِ امجد بابر بھی اسی طرح لاچار ہوا تھا۔ اپنے لاڈلے فرزند ہمایوں کی مسہری کے گرد چکر کاٹتے اور دعا کرتے ہوئے: بارِ الٰہا میرے بچے کو بچا لے، اپنی جاں نذر کرتا ہوں۔
فاتحوں کا فاتح، صاحبقراں امیر تیمور گورگانی ایک چھوٹے سے قصبے سے اٹھا اور آدھی دنیا فتح کرلی لیکن اب وہ فرشِ خاک پہ پڑا تھا۔ چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا۔ وصیت کی کہ چین کی فتح سے پہلے اس کی موت کا اعلان نہ کیا جائے اور فلاں پوتے کو سلطنت سونپ دی جائے۔ چین فتح ہوا، نہ اس کا پسندیدہ پوتا تخت پہ بیٹھ سکا۔ سلطنت بکھری اور بکھرتی چلی گئی۔ رہے نام اللہ کا!
مہلت مقرر ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں رقم ہے: جہاں جہاں تمہیں رکنا اورٹھہرنا ہے اور جہاں تمہیں پہنچنا ہے، ہم جانتے ہیں۔ مولوی صاحب حکومت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ پارٹی کارکنوں، مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے سوا کوئی بھی پورے دل سے ان کے ساتھ نہیں، عام نہ خاص۔ عمران خاں کا دشمن خود عمران خان ہے۔ جو جانتے نہیں کہ بقا کا انحصار قوانینِ قدرت سے ہم آہنگی میں ہوتا ہے۔ سب سے بڑا تدبیر کار وہ ہے، جو سب سے بڑا تقدیر پرست ہو۔ اس کائنات میں کسی کے لیے کوئی استثنا نہیں ؛الّا یہ کہ کوئی اللہ کی بارگاہ میں جھک جائے، اپنی خطا مان لے۔
صرف ایک بار ایسا ہوا، جب کوئی ہستی اس کرّہء خاک سے اٹھی اور عرشِ الٰہی تک پہنچی۔ اللہ کے آخری رسولؐ جن پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ انہیں اس شب رحمت للعالمین اور سراجا ًمنیراً نہیں، صرف بندہ کہا گیا " راتوں رات لے گیا وہ اپنے بندے کومسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ " چودہ سو برس کے بعد اس دل گداز امتی، اقبال ؔ نے کہا "عبد دیگر، عبدہ چیزے دگر۔ " بندہ اور ہوتاہے، اللہ کا بندہ اور۔
ایسا لگتاہے کہ سبھی خسارے میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنا ورق الٹنے والی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ اگلے ڈرامے کے سب کردار نئے ہوں گے۔