آخر کو اگر مٹی میں مل کر مٹی ہی ہونا ہے تویہ کیا زندگی ہے؟ بے مصرف و بے معنی، سطحی۔ سطحیت اور جہالت۔ خورشید رضوی پھر یاد آتے ہیں۔
اپنے باطن کے چمن زار کو ہجرت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصہء ایام سے ہجرت کر جا
شعیب بن عزیز خود روتے ہیں اور دوسروں کو رلاتے ہیں۔ چھوٹے بھائی نعمان کی وفات نے ان کے ساتھ وہ کیا، جو عرب شاعر کے ساتھ ہوا تھا۔
دونوں سگے بھائی ہمیشہ ایک ساتھ رہتے۔ عرب میں ان کی رفاقت ضرب المثل ہو کر لوک داستانوں کا حصہ ہوئی۔ ڈاکوؤں نے ایک دن حملہ کیا اور چھوٹے بھائی کوقتل کر ڈالا۔ مرنے والے کے بڑے بھائی نے مرثیے لکھے تو جدہ سے بلاد شام کی سرحدوں تک سنے اور یاد رکھے گئے۔
مدینہ کے اہلِ ذوق نے چشم ہائے تر کے ساتھ یہ کلام سنا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے سماعت کا شرف بخشا۔ ام المومنینؓ کے علم کی دھاک ایسی تھی کہ کبار صحابہ ؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ سخن فہمی بھی درجہ کمال کی۔ رحمتہ اللعالمین ؐ کے وصال کو کچھ دن بیت چکے تھے کہ کسی نے عرض کیا: غم کی ایک خبر ہے۔ فرمایا: رسول اللہ ؐچلے گئے۔ اس کے بعد کوئی دوسرا غم کیا؟ پھر فاروقِ اعظم ؓنے یاد فرمایاکہ زہیر بن ابی سلمیٰ کے حافظ تھے۔ یہ وہ دن تھے کہ دل بجھا ہوا تھا۔ کسی نے حال پوچھا تو کہا: جب سے زید اٹھ گئے، ٹھنڈی ہوا ادھر نہیں آتی۔ زید آپ کے سگے بھائی تھے۔
مرثیہ سن چکے تو ٹھنڈی سانس لی اور کہا: اگر میں شاعر ہوتا تو زید کا ایسا ہی مرثیہ لکھتا۔ بولا:امیر المومنین میرا بھائی جنگِ موتہ میں شہید ہوا ہوتا تومیں کبھی اس کا مرثیہ نہ لکھتا۔ چلا گیا تو فرمایا: کسی پرسہ دینے والے نے مجھے ایسا پرسہ نہیں دیا۔ اترسوں نعمان کی یاد میں قرآن خوانی ہوگی۔ اس کی اطلاع دیتے ہوئے شعیب نے کتبے کی عبارت لکھ بھیجی اور زخم تازہ کر دیا۔
مرا اے کاش کہ مادر نہ زادی۔ دواور اشعار بھی
لے آئے ہیں یہ تیری امانت ترے حضور
لے اس کو اپنے دستِ کرم سے وصول کر
رحمت کا تری اس پہ سدا سائباں رہے
یا رب تو غم زدوں کی دعائیں قبول کر
عرض کیا: مرحوم کی یاد ہے۔ دعا اور صدقہ ہے اور ایک سبق ہے کہ صاحبِ اخلاق ہم سے جدا ہوتاہے مگر نہیں ہوتا۔ پروردگار کے حضور نعمان ہمیشہ ہماری دعاؤں میں رہے گا، انشاء اللہ العزیز۔
جری، سیماب صفت اور پاکباز اخبار نویس مختار حسن کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پہ کھڑے سعود ساحر مرحوم نے کہا: آج کے بعد کسی دوست کو ناراض نہیں کرنا۔ گاہے اپنے ارادوں پہ پوری طرح ہم قائم نہیں رہ سکتے۔ یہ بات مگر سعود صاحب کے دل کی گہرائیوں سے اٹھی تھی۔ انتقال سے چند ماہ قبل تشریف لائے۔ گھنٹی بجی تو دروازے پر کھڑے تھے۔ یہ بالکل غیر متوقع تھا۔ جیسا کہ ان کا مزاج تھا، کسی تمہید کے بغیر کہا: آپ مجھ سے خفا ہیں، بھائی مجھے معاف کر دو۔ شرمندہ، حیرت زدہ اور ہکّا بکّا، عرض کیا: اندرتشریف لائیے۔ بولے: بس اتنی سی بات عرض کرنا تھی۔ یہ کہا اور چلے گئے۔ ان کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ پرسہ دینے بھی نہ جا سکا۔
ہم بندِ شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
جمعرات کا دن لاہور کے لیے مسافت میں کٹ جاتا ہے اور پیر کا گھر واپسی میں۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو پروگرام کی تھکا دینے والی مصروفیت۔ منگل اور بدھ تکان اتارنے اور مجبوریوں سے نمٹنے میں۔ مرحوم کو یاد کرتا ہوں۔ ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔ شرمندگی مگر کم نہیں ہوتی۔ اپنی بے پایاں رحمت سے غفور الرحیم انہیں ڈھانپ لے۔ دعا ہی نہیں، مرحومین کے لیے صدقہ بھی دینا چاہئیے، جس کا شاذ ہی ہم اہتمام کرتے ہیں۔
عالی مرتبت ؐکے بہترین اصحاب میں سے ایک سفر میں تھے کہ والدہ چلی گئیں۔ سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سوال کیا: کیا اپنی پیاری ماں کے لیے میں صدقہ دے سکتا ہوں۔ ارشاد کیا "نعم" بالکل۔ عرض کیا: یا رسول اللہ ؐ گواہ رہئیے۔ اپنا باغ میں نے ماں کے لیے صدقہ کیا۔
ایک ایک کر کے جوانی کے سب دوست چلے گئے۔ مختار حسن، فاروق گیلانی، خلیل ملک اور سعود ساحر۔ چلے کہاں گئے، دل میں آباد ہیں اور دائم آباد رہیں گے۔ وفات سے بہت دن پہلے خلیل ملک نے ایک کالم لکھا۔
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
وقت گزرنے کے ساتھ مصروفیت کم ہوتی جاتی ہے۔ آدمی اپنا آرام بڑھالیتا ہے۔ عجب ماجرا ہمارے ساتھ ہوا کہ خود سے ملاقات کا وقت بھی اب خال ملتا ہے۔ پیہم فون پہ دستک، شب ساڑھے گیارہ، بارہ بجے گھر پہنچنے کے بعد بھی کچھ مصروفیت اور پھر چند لمحے۔ کبھی کسی نئی کتاب کی نذر، کبھی کسی یاد یا الجھن کی زد میں، حتیٰ کہ اس رفیع الشان مسجد کے میناروں سے اذان کی آواز گونجتی ہے۔
اللہ بڑا ہے /اللہ سب سے بڑا ہے /میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں /میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں /میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں /میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں /آؤ نماز کی طرف /آؤ نماز کی طرف /آؤ نجات کی طرف/آؤ نجات کی طرف/نماز نیند سے بہتر ہے /بے شک نماز نیند سے بہتر ہے۔ اللہ بڑا ہے / اللہ سب سے بڑا ہے /اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
میں سوچتا ہوں، میرے مشفق و مہربان استاد اس وقت تلاوت میں محو ہو ں گے۔ میرے پڑوسی ارشاد عارف ابھی جاگ اٹھیں گے۔ انجم رومانی کبھی یاد آتے ہیں۔
نیند سے گو نماز بہتر ہے
اثر ِ خواب ہے اذاں میں ابھی
کبھی خیال آتا ہے کہ شب سو کر بتانی تھی، جاگنے میں ضائع ہوگئی۔ سحر ریاضت میں بسر ہونی چاہئیے مگر نیند میں رائیگاں ہوگی۔ اللہ کے آخری رسول ؐ نے وقت ِسحر میں اپنی امت کے لیے برکت کی دعا کی تھی۔ دنیا بھر کے کامیاب لوگ سحر خیز ہوتے ہیں۔ سحر خیزی اور یکسوئی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو /خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی۔ اور جوش ؔ نے یہ کہا تھا: ہم اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے / رسول اگر نہ ہوتے تو صبح کافی تھی۔
آخر کو اگر مٹی میں مل کر مٹی ہی ہونا ہے تویہ کیا زندگی ہے؟ بے مصرف و بے معنی، سطحی۔ سطحیت اور جہالت۔ خورشید رضوی پھر یاد آتے ہیں۔
اپنے باطن کے چمن زار کو ہجرت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصہء ایام سے ہجرت کر جا