پروردگار، اے پروردگار، روشنی، اے روشنی!مسافروہاں سے شادکام لوٹا۔ دور دور تک تناور درختوں سے بھرے نہر کنارے۔ اس تاج محل کو اسی لیے دیکھنے جاتا ہوں کہ مٹھی بھر حرارت نصیب ہو۔ رئوف کلاسرہ نے ایک بار کہا تھا:روشنی چاہئیے، تمہیں روشنی۔ دھوپ اور تپش تمہیں درکار رہتی ہے۔ کس کو درکار نہیں ہوتی؟ تاریکی ولولے کو چاٹ جاتی ہے۔ دل بجھ جاتا ہے اور امید کم ہونے لگتی ہے۔
قصور اور لاہور کی سرحد پر، اخوت یونیورسٹی کالج میں زندگی اور تابناکی ہے۔ وہ خواب، برسوں پہلے جو ڈاکٹر امجد ثاقب کے دل میں پیدا ہوا اور مجسم ہو گیا۔ رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے اور بتدریج۔
کالج کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے سوچا : کاش، اے کاش منظور الٰہی، مختار مسعود یا مشتاق یوسفی جیسا قلم عطا ہوا ہوتا۔ ہزار پہلو، اس منظر کی تصویر بنانے کی کوشش کرتا۔ رگ رگ سے اجالا پھوٹتا اور دیے جلاتا رہتا ہے۔ زندگی با معنی محسوس ہونے لگتی ہے۔۔۔ اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدّ نظر تک چراغاں سا ہو جاتا ہے۔
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ، کس کی جستجو رکھتی ہے آوارہ تجھے
راہ تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
دیکھ آکر کوچہ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
تیس چالیس فٹ چوڑی نہر کنارے تہہ خانے کی بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں، ان میں پانی بھرا تھا۔ پانی کنارے یہی ہوتا ہے۔ دریا کو اپنی موج کی تغیانیوں سے کام۔ تعمیر کی رفتار سے ڈاکٹر صاحب نا خوش تھے۔ حسبِ عادت کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی۔ فکر مندی مگرہویدا تھی۔ 14 اگست تک تکمیل کیسے ہوگی۔ پرانی عارضی عمارت سے بروقت ساز و سامان، طلبہ اور اساتذہ کیسے یہاں منتقل ہوں گے۔
وا حسرتا، وا حسرتا!آدمی کی ساری زندگی آرزو میں کھپ جاتی ہے۔
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر کہ گیرد مختصر گیرد
فلک گیر خواب اور اتنی تھوڑی سی مہلت۔ جنت سے نکالا ہوا آدمی اور فردوسِ بریں کی تمنا۔ وسوسوں اور اندیشوں کے سنپولیے اور سپنوں کی جھلملاتی دھنک۔
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
کون لوگ ہوتے ہیں، جن کے خواب مجسّم ہوتے ہیں۔ کون ہوتے ہیں، جن کے خواب سے کونپل پھوٹتی ہے، پھر شجر بنتا اور چھتنار ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے لوگ، جو اپنے آپ سے گزر جاتے ہیں۔ خود کو الوداع کہتے ہیں۔ اپنی جبلتوں سے لڑتے ہیں اور لڑتے ہی رہتے ہیں۔ ایثار کو شیوہ کرتے ہیں اور کئے رکھتے ہیں۔ تب بیج پھوٹتا ہے، تب شجر لہلہاتا ہے، تب شاخیں پھیلتی ہیں، تب ثمر آتا ہے۔ سب ایثار کیشوں کو اللہ اپنے حفظ وامان میں رکھے، تب آدمی فرشتوں سے افضل ہو جاتا ہے۔
پھر ساری کائنات، سب دیکھی اور ان دیکھی مخلوقات، اس کی مدد کو آتی ہیں۔ کارکنانِ قضا و قدر گویا ان کے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ ہر طرف نور ہی نور۔ عمارت کہاں، روشنی کا ایک سیلاب سا ہے۔ اگر یہ سرما کی سنہری دھوپ سے بھرا ہوا ایک دن ہوتا۔ تاخیر سے پہنچنے کی بے چینی اگر لاحق نہ ہوتی۔ فرصت اگر میسر ہوتی تو عمارت میں داخل ہونے کی بجائے مسافر اس دودھیا پیکر کے سامنے رک جاتا، ٹھہر ہی جاتا۔ صحرا کا وہ شہر یاد آیا، یثرب، مدینہ النبیؐ اور اس کے قلب میں ضوفشاں زمانے۔۔۔ آں خنک شہرے کہ ایں جا دلبر است۔ افتخار عارف نے کہا تھا
ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر
ایک ہی شہر میں ایک ہی در پہ رکھا
اس شہر کا جو ہو گیا، ساری دنیا اس کی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا : اس عمارت کی تعمیر میں مسجدِ نبویؐ کے ڈیزائن سے اکتسابِ کیا گیا۔ جھروکے، جالیاں، محراب اورایک چھوٹا سا گنبد۔ درو دیوار ایسے بھی ہوتے ہیں، زبانِ حال سے جو کلام کرتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ درو دیوار نہیں ہیں، ہم ایک سنہری خواب ہیں۔ اس خاکداں میں سہی مگر ہم کسی اور سیارے میں ہیں۔ ہمارے بام و در پہ فرشتوں کا سایہ ہے اور اس سائے میں قدوسی پناہ لیتے ہیں۔ سادہ، بالکل سادہ سے الفاظ میں ڈاکٹر صاحب یہ کہتے ہیں : یہ تصور چودہ سو برس پہلے کی ایک بستی سے مستعار ہے۔ مواخات ہے، بھائی چارے کی خواہش ہے۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کا اور ایک خاندان دوسرے خاندان کا ہاتھ تھام لے۔ پھر افلاس کے زخم باقی رہتے ہیں اور نہ جہالت کی تاریکی۔
خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ الزہرہؓ اپنے باباؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ چکّی چلاتے ہاتھوں پہ نشان پڑ گئے تھے۔ عرض کیا : اگر ایک خادم عطا ہو۔ فرمایا: جانِ پدر اس وقت تو میرے پاس اصحابِ صفہ کے لیے بھی کچھ نہیں۔ کس دل سے کہا ہوگا، کس دل سے؟ اللہ کا پیمبرؐ یہی ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ رحمتہ اللعامینؐ تھے۔ اسی لیے آنے والی تمام نسلوں کے رہبر۔
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ، ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرہ پیغمبراں گلاب کے پھول
خاتونِ جنت سید ہ فاطمہ الزہرہؓ سے زیادہ عزیز کون ہو سکتا۔ ایثار تھا، اصحابِ صفہ ؓ پہ عنایت اس لیے زیادہ تھی کہ انہوں نے خود کو علم کے لیے وقف کر دیا تھا۔
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردماذان کی آواز گونجی تو امام مالکؒ کے شاگرد نے تیزی سے کتابیں سمیٹ لیں "تعجیل نہ کرو " ارشاد ہوا ہم اسی کام میں مصروف ہیں، جس کی طرف ہمیں بلایا جا رہا ہے۔ کتابوں کے اوراق سے حقیقتِ اولیٰ کی تلاش۔ اس پروردگار کی تمنا جو کہکشائیں اور آلوچے کے شگوفے کھلاتا ہے۔ اسی کو ہم نے کھودیا، علم کی آرزو کو کھو دیا۔ تو لے لو، اس کا صلہ لے لو۔ تمہارے لیے یہ رکھے ہیں۔ خود ستائی کے مارے لیڈر، باتیں بنانے والے ریا کار علما، نمائش پسند دانشور اور پتھر دل حکمران۔
پرنسپل صاحب سے پوچھا کہ طلبہ کی تعداد کیا ہے؟ کہا: فی الحال صرف تین سو۔ تعلیمی بلاک مکمل ہو جائے تو تین سو مزید۔ پنجاب اور سندھ ہی نہیں، وزیرستان، اورکزئی ایجنسی، میرپور، گلگت بلتستان، کوھلو اور چمن کے پہاڑوں سے بھی۔ دلوں میں امنگ، ماتھوں پہ دمک۔ مایوسی کے صحرا میں امید کے نخلستان۔"ایک کالج فیصل آباد میں بھی ہے۔" اور خواتین کے لیے پچاس ایکڑ کا ایک کیمپس چکوال میں، پہاڑوں کے دامن میں۔ سب سامعین جانتے تھے کہ تین سو سکول ان کے سوا بھی ہیں۔
وہ جو بیت گئے، جن میں سے ایک خود کو قائدِ اعظم ثانی سمجھتا اور ایک شیر شاہ سوری۔ وہ جو موجود ہے، اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی ہی تصویر کو سجدہ کرے۔ انہی کے طفیل اتنا دھوان اور اتنی دھند ہے کہ کروڑوں برس سے دھوپ میں نہائی یہ سرزمین روشنی کو ترسنے لگی۔
انہی کو ہم پوجتے رہے تو ایک ایک کرن کھو دیں گے۔ زندہ لیڈر زندہ معاشرو ں کو نصیب ہوتے ہیں اور زندہ سماج علم سے پیدا۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
پروردگار، اے پروردگار، روشنی، اے روشنی!