فرمایا: بحر و بر ظلم سے بھر گئے اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مالک کی منشا اس کے سوا کیا ہے کہ آدمیت اپنی اصلاح کرے۔ روئیدگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کہیں کوئی پھول نہ کھلا، کوئی افق منور ہوا، نہ کوئی ستارہ چمکا۔ بہت دن یہ خیال قلب و دماغ میں جاگزیں رہا کہ مالک اس افتاد سے ابنِ آدم کو کیا حاصل ہوگا۔ علماءِ کرام تو کچھ خاص مدد نہ کر سکے، درویش ہی نے راہ دکھائی۔ بنیادی طور پر تین دعائیں ہیں۔ ایک تو وہی "بسمِ اللَّہِ الَّذِی لَا یَضْرّْ مَعَ اسمِہِ شَیء فِی الاَرضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَہْوَ السَّمِیعْ العَلِیمْ"۔
دوسری مبتلا ہو جانے والے کے لیے۔ بسم اللہ، چالیس دفعہ آیتِ کریمہ اور درود۔ تیسری مریض کے لواحقین کو پڑھنا ہوتی ہے۔ یاحلیم ْ یا کریم ْاشفِ فلاں بن فلاں یا فلاں بنتِ فلاں۔ ظاہرہے کہ اس میں بھی اوّل بسم اللہ اور آخر میں درود پڑھا جاتا ہے۔ تیسری دعا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے۔ بھاگتے آدمی کو آپ نے آواز دی تو اس نے کہا: میرا بھائی بیمار ہے۔ فرمایا: ٹھیک ہو جائے گا۔ بولا: میرا بھائی علیل ہے اور آپ کو مذاق سوجھتا ہے۔ فرمایا: بالکل نہیں۔ وہ واقعی ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ دعا تعلیم کی۔ بتایا کہ یہ سرکار ﷺ کا فرمان ہے۔
حادثات سکھاتے ہیں۔ اگر ہم نہیں سیکھتے تو قدرت مبتلا کرتی رہتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: اللہ کو کیا ہے کہ تمہیں عذاب دے اگر تم ایمان لاؤاور شکر کرو۔ ایمان، قوانینِ قدرت اور خالق کے بتائے ہوئے اصولوں پر۔ جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں جانتا ہے۔ جو ان کے دلوں میں پلنے والے رازوں اور ان کی روحوں میں پیدا ہونے والی ٹیڑھ سے واقف ہے۔ جسے نیند اور اونگھ نہیں آتی اور جو سب جانتا ہے۔ فرمان یہ ہے: اللہ کے علم میں سے اتنا ہی تم حاصل کر تے ہو، جتنا وہ چاہے۔ کبھی علم کے راستے میں ایک دیوار کھڑی ہوتی ہے اور کبھی حصولِ علم کے بعد بھی خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ کی فصیل۔ علما کے گرد گاہے اپنے مکاتبِ فکر اور اساتذہ کے اقوال کی دیواریں ہو تی ہیں۔
دعائیں بس دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو قرآنِ کریم میں رقم ہیں۔ دوسری وہ، جن کی سرکارﷺ نے تلقین کی۔ انسانوں پر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے زیادہ کوئی مہربان نہیں اور نہ کوئی راہ دکھانے والا۔ فطرت سلیم ہو تو آسانی سے یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے، ورنہ تاریکی۔ بادل اور شب کی گہری تاریکی، برق چمکتی ہے تو پل بھر کو راہ نظر آتی ہے اور پھر وہی اٹوٹ اندھیرا۔ ارشاد کیا: اگر کسی کے پاس دو دینار ہوں اور ایک صدقہ کر دے تو وہ ہزاروں دینار پہ بھاری ہوگا۔ فرمایا: کسی مریض کا صدقے سے بہتر علاج نہیں کیا گیا۔
صدقہ رحمت کا دروازہ کھولتا اور حسّیات کو روشن کر دیتا ہے۔ استثنا پیدا کرتا اور نجات کی راہ دکھاتا ہے۔ پھر پرہیز اور علاج ہے۔ دنیا بھر کے معالج اب اس پہ متفق ہیں کہ مسلسل تنہائی، ہاتھ دھوئے رکھنے، جراثیم کش لوشن senitizer لگانے اور فاصلہ رکھنے سے حفاظت ممکن ہے۔ سو فیصد تحفظ ممکن نہیں۔ موت کا وقت آپہنچا ہے تو مفر نہیں لیکن وبا کی موت شہادت کی موت ہے۔ آیتِ کریمہ کے بارے میں ارشاد یہ ہے: جلد شفا ہوگی ورنہ اسی کو پڑھتا ہوا وہ جنت میں چلا جائے گا۔ اللہ کے طے کردہ حلال اور حرام ہیں۔ اصرار کے ساتھ فرمایاگیا: کلوامما فی الارض حلالاً طیباً: ان چیزوں میں سے کھائو جو زمین میں حلال، پاکیزہ ہیں۔
زیادہ امکان یہ ہے کہ آغاز چمگادڑ سے ہوا۔ مدافعاتی نظام اس کا اتنا مضبوط ہے کہ وائرس اس کے اندر پرورش پاتا اور طاقتور ہوتا چلا جاتاہے۔ ایک آدھ نہیں چار وائرس اس سے پھیلے ہیں۔ آدمی کو سبق سیکھ لینا چاہئے تھا مگر نہ سیکھا۔
کیوں یہ مصیبت نازل ہوئی؟ ایک تو یہی حرام۔ ثانیاً یہ کہ زمین ظلم سے بھر گئی تھی۔ 57اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک بھی ایغور مسلمانوں کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ دن رات یمن کے بے گناہوں پہ بمباری ہوتی ہے اور کوئی بولتا ہی نہیں۔ روہنگیا، چیچنیا، کشمیر اور شام کے مظلوم مسلمان کس عذاب سے گزرے اور گزر رہے ہیں۔ پھر سرمایہ دار طبقات ہیں، جو انسانوں کا لہو پیتے رہتے ہیں۔ طاقتور ممالک کمزورقوموں کو اجاڑنے کے درپے رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو عرب خاموش کہ کاروباری مفادات عزیز ہیں۔ بھارت نے کشمیر اور امریکہ نے ایران اور وینزویلا کا محاصرہ کیاتو عالمی ضمیرسویا رہا۔ غنودہ ہی رہتاہے۔ آدمی جب جانور ہوگیا اور محض جبلتوں کی تسکین میں مبتلا تو آزمائش اتری۔
جسمانی طہارت کا مسلمان خیال رکھتے ہیں مگر کوچہ و بازار کی صفائی سے بے نیاز۔ ایران اور بوسنیا کے سواشاید ہی کوئی مسلمان ملک ہو، جس میں صفائی کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہو، حالانکہ یہ شرطِ ایمان ہے اور یہ بات بنی نوعِ انسان کے سب سے بڑے محسن نے بتائی تھی۔ بھولنے والی نہ تھی مگر ہم نے بھلا دی۔ سب کچھ ہی بھلا دیا۔
الا بلا ہم کھاتے رہتے ہیں۔ بوتل بند مشروبات، ڈبوں میں بند خوراکیں اور کھانے پینے کی وہ اشیا جو ہفتوں اور مہینوں الماریوں میں پڑی رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے تازہ کھانا تھا۔ سادہ، صحت مند اور قوت بخش۔ دودھ، پھل اور سبزیاں۔ زیتون، جو اور شہد۔ اپنا ذائقہ مگر اس نے بگاڑ لیا اور اب قیمت چکا رہا ہے۔ ساری دنیا بین الاقوامی کمپنیوں کی اسیر ہے، حکومتیں ان کی سرپرست اور میڈیا ان کا غلام۔ لندن میں ایک شہری نے چند دن ایک مشہور مشروب اور اس کمپنی کی خوراک پہ اکتفا کیا، پرسوں جس نے دنیا بھر میں پھیلے اپنے 35 ہزارریستوران بند کیے ہیں۔ پھول کر کپّا ہوگیا۔ اسی پر بسر کرتا تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
آدمی اگر صفائی کو شعار کر لے۔ حرام اور حلال میں تمیز کرنے لگے اور ظلم کی ایسی فراوانی نہ ہو تو کیا عجب ہے کہ جلد ہی علاج دریافت ہو جائے۔ چند ماہ تو بہرحال اسی حال میں بتانا ہیں۔
آدمی سفاک ہوگیا تھا۔ معیشت کی تباہی اور موت کے خوف سے دل اب نرم پڑتے جا رہے ہیں۔ جرائم کم ہو رہے ہیں اور عادات تبدیل کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ بار بار اب ہاتھ دھونے ہیں۔ چہرے کو چھونے سے گریز کرنا ہے۔ تنہائی مسلط ہے اور اس لیے کہ آدمی غور و فکر کرے۔ یہی تو پروردگار چاہتا تھا۔ یہی تو اس نے فرمایا تھا: گونگے، بہرے اور اندھے سوچتے نہیں۔ گہرے غور و فکر، خوراک کی تبدیلی، عادات اور اندازِ فکر کی تبدیلی ہی میں بقا ہے۔ فرمایا: بحر و بر ظلم سے بھر گئے اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مالک کی منشا اس کے سوا کیا ہے کہ آدمیت اپنی اصلاح کرے۔