منصور آفاق نے کہ حمد، نعت اور تصوف کے شاعر بھی ہیں، عمران خان اور فردوس عاشق اعوان سے پسماندگان کے لیے مدد کی اپیل کی تو صدمہ ہوا، بہت صدمہ۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ کیا یہ ہم دوستوں کی ذمہ داری نہیں؟
انوار حسین حقی کے انتقال کا زخم ابھی تازہ تھا کہ دوسراسانحہ ہوا۔ حقی ان نادرونایاب لوگوں میں سے ایک تھے، جن کی امانت و دیانت کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح وہ عمران خان کا شکار ہوئے۔ صدیوں سے بگڑی ہوئی اشرافیہ سے نجات کی وہی آرزو۔ وہی کپتان کی کرشماتی شخصیت، عالمی کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج کے کارنامے۔ حال کھلا اور امید ٹوٹی تو پژمردہ ہوئے مگر خود کو سنبھالے رکھا۔ وضع داری نبھاتے رہے۔ قدیم دور کی کوئی روح جو ہمارے عہد میں آن اتری تھی۔
ملتان کے ارب پتی امید وار احمد حسین ڈیہڑکی آس ٹوٹی تو لاہور تشریف لائے۔ منصور آفاق کے ساتھ ناچیز کے پاس پہنچے۔ ہم سے تو کیا بن پڑتا، حقی صاحب سے بات کی۔ انہیں بتایا کہ احمد حسین جیت سکتے ہیں۔ اطمینان کر لیا تو عمران خان کو پیغام بھیجا۔ خان صاحب کو معلوم تھاکہ غلط بیانی تو کجا، حقی مبالغہ بھی نہیں کرتا، چنانچہ ٹکٹ انہیں مل گئی۔ یوسف رضا گیلانی کو شہ مات انہوں نے دی۔ خلق سے گریز نہ کرنے والے آدمی ہیں۔ سید نا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: آدھی دانائی گھلنے ملنے میں ہوتی ہے۔ سیاست سمیت یہ کلیہ سبھی میدانوں پہ صادق آتا ہے۔
ایک عشرہ ہوتا ہے، جنابِ حمزہ ایسے قدآور سیاست دان کو ہرانے والے ایک سیاسی کارکن نے کہا تھا: خلقِ خدا کے لیے کھلا دروازہ، عاجز بندوں کی سفارش، ہمہ وقت ٹیلی فون پر دستیابی۔ ہر ماہ پچاس ہزار روپے مہمان نوازی پہ خرچ کرنے کی ضمانت ہو تو ہنستے ہوئے ماتھے والا کوئی بھی آدمی منتخب ہو سکتاہے۔ عام لوگوں کو انس و الفت درکار ہوتی ہے۔ فلسفہ آرائی اور خطابت نہیں۔ ڈیہڑ جیت گیا تو دوستوں کو اس نے تحائف بھیجے۔ انوار حسین حقی کو کپڑوں کا ایک جوڑا بھیجا گیا۔ اس پہ شاد تو قطعاً نہ ہوا مگر رکھ لیا کہ تحفہ مسترد نہیں کیا جاتا۔ کھولا تو اس میں ایک بڑی رقم بھی تھی۔ یہ رقم مرحوم نے منصورآفاق کے حوالے کی کہ انہیں پہنچا دیں۔
محکمہ جنگلات میں کلرک تھے۔ کپتان سے قریبی تعلق کے با وصف سیاستدان ان کے چھوٹے سے کوارٹر میں جمع ہوتے۔ کچھ ان کی نجابت اور وضع داری کے طفیل اور کچھ مراسم استوار کرنے کے لیے۔ کتنی ہی کہانیاں، کتنی ہی سنسنی خیز کہانیاں ان کے سینے میں دفن تھیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر ہے:
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے، اس کو
افسانہ سنا ڈالا، تصویر بنا ڈالی
انوار حسین حقی کا معاملہ دوسرا تھا۔ راز ان کے سینے میں دفن رہتا، البتہ قریبی دوستوں کو کبھی اعتماد میں لیتے۔ عمران خان کے باطن کو پہنچ چکے تھے۔ کبھی صدمہ زیادہ ہوتا تو ایک آدھ واقعہ سنا دیتے۔ اس امید کے ساتھ کہ اخبا رمیں لکھا نہیں جائے گا، ٹی وی پر بیان نہیں ہوگا۔ دل کے مریض تھے، اجل نے اچانک دستک دی۔ محتاط تھے مگر دل ٹوٹ چکا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف منصور آفاق تھے۔ شاید ان کے سب سے زیادہ قریبی اور قابلِ اعتماددوست۔ بولے "انوار حسین حقی۔۔ "دوسرے فون پہ بات کر رہا تھا۔ تامل کی درخواست کی۔ بات نمٹا کر پوچھا"تو کیا کہا حقی صاحب نے؟" کبھی کبھار راز کی کوئی بات وہ بیان کرتے اور چاہتے کہ ازراہِ کرم مجھ ناچیز کو بھی اطلاع دے دی جائے۔ تجزیہ کرنے میں وہ صداقت شعار اور حقیقت پسند تھے۔ ان کی ہر بات چنانچہ نہایت شوق سے سنی جاتی۔ پسِ منظر کی وہ معلومات جو عام نہیں کی جاتیں لیکن گرہ کھول دیتی ہیں، معاملے کو مکمل طور پر روشن کر دیتی ہیں۔
منصور آفاق روہانسے ہو گئے۔ گلوگیر لہجے میں کہا "چل بسے حقی صاحب"۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ موت سے مفر نہیں مگر تمام زندگی حقی ہماری یادوں اور دعاؤں میں دمکتے رہیں گے۔ مرنے والے کی کوئی دیت ہے اور نہ قصاص۔ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا، البتہ مرحوم کے چہرے پر طمانیت ایسی تھی جو فقط امانت داروں اور وفاشعاروں میں ہوتی ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ کا فرمان یہ ہے: مجھ سے جو محبت کرتا ہے، وہ جھوٹ نہ بولے اور خیانت نہ کرے۔ انوار حسین حقی ایسے ہی تھے۔ کوئی معلم، مفکر اور نہ محقق۔ شاعر، ادیب اورنہ خطیب۔ تیرگی میں مشعل جلانے اور اپنے عہد کی منافقت کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے والے بلھے شاہ نے کہا تھا:
علموں بس کریں او یار
اکّو الف ترے درکار
زیادہ علم مت بگھارو، آدمی کو بس ایک الف درکار ہوتاہے، اللہ کا الف۔ سیدھے راستے کی تمنا، پھر اس کا ارادہ، پھر اس کا عزم۔ منزلِ مراد کی یہی نشانیاں ہیں۔ صوفی سے ایک سالک نے سوال کیا: کیا میں درودِ تاج پڑھا کروں؟ بے ساختہ درویش نے کہا: بھائی ہم درودِ ابراہیمی پڑھتے ہیں اور پکّی سڑک پہ چلتے ہیں۔ اقبالؒ نے یہ کہا تھا:
قلندر جز حرفِ لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
اور یہ کہا تھا:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
مبالغے کی بات ہوگی، اگر یہ کہا جائے کہ انوار حسین قلندر تھے یا براہیمی نظر کے حامل۔ ہاں مگر وہ رحمتہ اللعالمینﷺ کے ایک سادہ سے امّتی تھے۔ رزقِ طیب پہ بسر کی۔ سچ بولتے اور ٹیڑھے میڑھے راستوں سے بچتے رہے۔ کیا عجب ہے کہ خوش بختوں میں شمار کیے جائیں۔ وہ کہ جن کے بارے میں سرکارﷺ نے کہا تھا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں، جو کسی محفل میں جائیں تو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور اٹھ کر چلے جائیں تو ان کا ذکر نہ ہو۔
ذکر تو حقی کا رہے گا لیکن امید اور تمنّا یہ ہے کہ روزِ جزا عرشِ بریں کے ٹھنڈے سائے میں ہوں۔ پروردگارِ عالم کی رحمت سے امید بھی ایسی ہے کہ یہی توخالق کا سب سے بڑا وصف ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ کا بھی۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا:
اللہ تو کریمی و رسولِ تو کریم
صد شکر کہ ہستم میانِ دو کریم
اللہ تو مہربان ہے اور تیرا سچا پیمبرﷺ بھی۔ صد شکر کہ میری زندگی دو کریم ہستیوں کے بیچ میں بیتی۔ قرآنِ کریم شکر کو ایمان کا مترادف قرار دیتا ہے: اچھے اور برے رجحانات ہم نے تم پر الہام کر دیے۔ اب چاہو تو شکر کرو اور چاہو تو میرا انکار ہی کر دو۔ عمران خان حقی کے جنازے میں شریک نہ ہوئے۔ یہ قابلِ فہم ہے کہ بار بہت مگر فون پر بھی تعزیت نہ کی۔ منصور آفاق نے کہ حمد، نعت اور تصوف کے شاعر بھی ہیں، عمران خاں اور فردوس عاشق اعوان سے پسماندگان کے لیے مدد کی اپیل کی تو صدمہ ہوا، بہت صدمہ۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ کیا یہ ہم دوستوں کی ذمہ داری نہیں؟