آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، یہ دل ہیں، جو سینوں میں اندھے ہو جاتے ہیں۔
تو اگر اپنی حقیقت سے خبر دار رہے
نہ سیاہ روز رہے، پھر نہ سیہ کار رہے
ایسے اذیت دہ واقعات پر طبیعت بھڑک اٹھتی ہے۔ بے قابو کر دینے والا اشتعال اور برہمی۔ ابتدا میں شاید ایسا ہی ہوا۔ پھر ملال کی ایک گہری کیفیت نے آلیا۔ سرما کے سیاہ بادل کی طرح جو ٹلتا ہی نہیں۔
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
لیڈر صاحب نے کیا کیا؟ اور ٹی وی میزبان نے کیا کیا؟ لیڈر تو خیر، میزبان ایسا ہے کہ ہمیشہ حسنِ ظن رہتا ہے۔ ایک فوجی بوٹ میز پہ رکھ دیا اور وہیں پڑا رہا۔ پھر تمام گفتگو اسی پہ ہوتی رہی۔ کیا یہ شریف لوگوں کا شیوہ ہے۔ شرافت کو چھوڑیے کہ اب ہمیں خال ہی اس کی ضرورت ہوتی ہے مگر ذمہ داری کا کچھ احساس؟ ایک سینیٹر، ایک سابق وزیر اور ایک سرکاری نمائندہ۔ بحث کیوں کرتے رہے۔ فوراً ہی اٹھ کر کیوں نہ چلے گئے۔ کتنی تاخیر سے احساس ہوا کہ یہ پوری قوم کی تذلیل کے مترادف ہے۔
کوئی زیادہ تعجب وزیرِ صاحب پہ نہیں۔ ایسے گروہ میں ہیں، لڑکوں بالوں کی سی عادات جس میں پائی جاتی ہیں۔ غالبؔ نے کہا تھا:اے طفل خود معاملہ قد سے عصا بلند۔
گیارہ برس ہوتے ہیں، مشترکہ دوست، اس نجیب آدمی گولڈی نے عمران خان سے کہا: اب آ پ ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر ہیں، 56 برس کے ہو گئے۔ اب آپ کو سنجیدگی اختیار کرنی چاہئیے۔ چمک کر اس نے کہا: میری عمر 36 سال ہے، 56 نہیں۔ یقین نہیں تو خود دیکھ لو۔ ایک مشین ہے جو آدمی کی عمر بتایا کرتی ہے۔ وہ یہ بتاتی ہے کہ تم ایک نوجوان آدمی ہو۔
تھوڑی سی شرارت، تھوڑی سی شوخی اچھی ہوتی ہے، ہم نشینوں میں، ہم نفسوں میں۔ ایک اعتبار سے زندگی کی علامت۔ اندر کا بچہ ابھی زندہ ہے۔ ابھی وہ چہکنا چاہتا ہے۔ خواب دیکھتا ہے۔ کبھی ایک ترنگ سی اٹھتی ہے اور سب منظر ایک منظر میں ڈوب جاتے ہیں۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل /لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ مگر کچھ تواحساسِ ذمہ داری بھی۔ چھ ماہ سے کشمیر میں آتش و آہن ہے۔ اللہ کے 80 لاکھ بندے قید خانے میں۔ دوا نہیں، دارو نہیں۔ گھروں سے باہر نکل نہیں سکتے۔ دروازوں پہ سنگین برداروں کے پہرے ہیں۔ خورونوش کا قحط، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی اجازت نہیں۔ درد کی کوئی لہر نہیں اٹھتی؟ ان کا کبھی خیال نہیں آتا؟ پیلٹ گنیں لوہا اگلتی ہیں۔ پھولوں کے چہرے چھلنی کر دیتی ہیں۔ بینائی سے محروم بچے اور ماتم گسار مائیں۔ سب کچھ بھلا دیا، سبھی کچھ بھلا دیا؟ ایسا بھی کٹھور ہو سکتا ہے، اپنے بہن بھائیوں، اپنے پیاروں کے باب میں ایسا بھی کوئی کٹھورہو سکتاہے؟ بھارتی مسلمانوں پر یلغار ہے۔ ہر کسی کو پناہ مل سکتی ہے۔ ہر ایک کے درد کا درماں ہو سکتاہے مگر اس کا نہیں جو اللہ کو مانتا ہے اور اس کے آخری رسولؐ پہ ایمان رکھتا ہے۔ آسمان سے جو بلا اترتی ہے، خانہء انوری کو تاکتی ہے۔
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
دو عشروں سے کرپشن اور احتساب کا ڈھنڈورا پیٹنے والی حکمران جماعت ہی نہیں، ساری سیاسی پارٹیاں۔ وزیرِ اعظم کے ہاتھ میں کشکول ہے۔ در در وہ بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، گویا کہ بائیس کروڑ انسانوں کے ہاتھ میں۔ سارے اخبار، تمام چینل، وکلا کی انجمنیں، تمام علماء کرام، سارے مبصر، موم بتیوں والے، صاحبانِ جبّہ و دستار۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
بھارت کا مسلمان مجبور ہے۔ کاروبار میں اس کا حصہ ہے اور نہ ملازمت میں۔ شودر سے بدتر زندگی" ملک سے نکل جائو، ہمارے ملک سے نکل جائو یا ہم بت پرستوں کے سامنے سجدہ ریز رہو۔ " کشمیر کے فرزند لاچار ہیں۔ کوئی بھی نہیں، ان کی فریاد سننے والا کوئی بھی نہیں۔۔ ہم ان کے حلیف اور بھائی! کیا ہم ان کے حلیف اور بھائی ہیں؟ زبانِ حال سے کیا ہم ان سے یہ نہیں کہہ رہے؟
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانےبے حسی اور ایسی
بے حسی؟ لا تعلقی اور ایسی لا تعلقی؟ کیا چیخ و پکار بھی نہیں کرسکتے؟ واویلا بھی نہیں؟ ٹی وی چینلوں پر فصاحت کا جادو جگانے والے دنیا بھر میں پھیل کیوں نہ گئے کہ ایک طوفان اٹھا دیتے۔ ایک آدھ نہیں، درجنوں اور سینکڑوں وفود اقوامِ عالم کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے۔ آدمی کے بس میں نتائج نہیں ہو تے، سعی و کاوش تو ہوتی ہے۔
غلامی کا عہد تھا، زنجیریں ہی زنجیریں، شاعر کے دل میں جب طوفان اٹھا اور تڑپ کر اس نے کہا تھا
عاقبت منزل ما وادی ئِ خاموشان است
حالیہ غلغلہ درگنبدِ افلاک انداز
معلوم ہے کہ آخر کو میری منزل وادیء خاموشاں ہے۔ مٹی کے ڈھیروں سے اٹا قبرستان لیکن آج تو زندہ ہوں۔ کم از کم آج تو فریاد کی لے ایسی اور اتنی بلند کر وں کہ آسمان پہ ہلچل برپا ہوجائے۔
ول گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
کس چیز پہ، ادبار او رابتلا کی دلدل میں گھری اقوام کے مستقبل کا انحصار ہوتاہے؟ اپنی تقدیر آدمی خود نہیں لکھتا۔ غالب اور قہرماں وقت لکھتا ہے۔ مگر یہ توآدمی کے بس میں ہے کہ بے قرار اٹھے اور تمنا پالے۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ پھر ایک ایک کر کے فطرت کے تمام عناصر اس کے ہم رکاب ہونے لگتے ہیں۔ زینہ زینہ، رفتہ رفتہ، وہ دلدل سے نکلتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا سنگِ میل۔ ایک کے بعد دوسری منزل حتیٰ کہ مشعل بردار منور تقدیر استقبال کرتی ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ آدم زاد کے لیے اس کے سوا کچھ بھی نہیں، جس کی اس نے جستجو کی۔ خون پسینہ ایک کیا۔ اس کے سوا فقط نامرادی ہے، بے بسی اور لاچارگی۔ مایوسی میں ذلت، افسردگی اور پامالی۔
مگر وہ معاشرہ، ہمہ وقت جو اپنے آپ ہی سے الجھتا رہے۔ وہ گھر کہ جس کے مکین ہمیشہ ایک دوسرے کے درپے رہیں۔ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، یہ دل ہیں، جو سینوں میں اندھے ہو جاتے ہیں۔
تو اگر اپنی حقیقت سے خبر دار رہے
نہ سیاہ روز رہے، پھر نہ سیہ کار رہے