"مسافر" کے عنوان سے سعود عثمانی کا سفر نامہ پڑھا تو احساسات کا ایک نیا عالم طلوع ہوا۔ شاعر تو وہ تھے ہی، بہت دن کے بعد پاکستانی ادب کے افق پر ایک نثر نگار بھی نمودار ہوا۔
فصاحت ان اوصاف میں سے ایک ہے، اہلِ عظمت کو بھی جو عزیز ہوتے ہیں۔ تاریخِ انسانی کی سب سے فصیح، سب سے عظیم ہستی، اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: مرد کا زیور یہی ہے۔
سب ستارے ڈوب سکتے ہیں مگر بیسویں صدی میں آپ کے عظیم ترین امتیوں میں سے ایک اقبالؔ کا ستارہ دائم دمکتا رہے گا۔ اس نے یہ کہا تھا: جب کوئی اچھا شعر سنو تو جان لوکہ کہیں کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔
اب اچانک والٹئیر یاد آئے، جنہوں نے کہا تھا:Every word of a writer is an act of generosity۔ لکھنے والے کا ہر لفظ سخاوت کا عمل ہے۔ ہاں، جب وہ جی جان سے لکھے۔ زندگی اور کائنات کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکے۔ خیال اور لفظ کے باطن میں اترے۔ جب اور جیسے چاہے انہیں قندیل بنا سکے۔ اس قندیل میں لکھنے والے کا لہو جلتا ہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا
مصرع کبھو کوئی کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
ڈاکٹر خورشید رضوی کی شاعری میں ایک حسرت ہے کہ گونجتی ہی رہتی ہے۔
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
یہی فرق ہوتاہے، بس یہی فرق۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں اتھلے آدمی کو حجاب ہو جاتی ہیں۔ عظیم ترین فتوحات بھی اگر انکسار نہ چھین سکیں تو نشانی اس کی یہ ہے کہ عمر بھر آدمی کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ استاد نہیں بنتا۔ طالبِ علم ہی رہتاہے۔ کون سی تحریر ہے، جو دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتاہے کہ کھوئی ہوئی یادیں اور بھولی ہوئی حسرتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ رائیگاں مہ و سال کا دکھ ایک الم کے ساتھ بیدار ہوتااور روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت جاگ اٹھتی ہے۔ سعود عثمانی کی کتاب پڑھتے ہوئے کیسے کیسے بھولے بسرے لوگ یاد آئے۔ مجید امجد یاد آئے۔
تیس برس کی کاوشِ پیہم
عمر اسی الجھن میں گزری
کیا شے ہے حرف وبیاں کا عقدہء مشک
لصورتِ معنی؟ معنیء صورت؟
اکثر گردِ سخن سے نہ ابھرے
وادیء فکر کی لیلاؤں کے جھومتے محمل
طے نہ ہوا ویرانہء حیرت
کتنی چھنا چھن ناچتی صدیاں
کتنے گھنا گھن گھومتے عالم
اور ان کا مآل
اظہار کی حسرت
خودنوشت کی طرح سفر نامہ بھی ایک مشکل، بہت ہی مشکل صنفِ سخن ہے۔ خود نوشت میں خودپسندی سے آدمی خال ہی بچتا ہے۔ سفر نامے کی عبارت رقم فرماتے ہوئے داستاں طرازی سے، جعل سازی سے۔ سعود عثمانی صاف بچ نکلے۔ بچ ہی نہیں نکلے، کچھ نئے گلزار کھلائے ہیں کہیں کہیں کوئی ایسا چمن بھی کہ میر ؔ صاحب یاد آئے
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے، صاحب پرے پرے
سفر خیال کو مہمیز کرتاہے۔ کبھی کبھی تو مطالعے اور مکالمے سے زیادہ بھی۔ کبھی کبھی تو شاید مراقبے کی طرح۔ سعود عثمانی کی تحریر میں اس کے ماضی کی بازگشت ہے۔ صرف ذاتی زندگی ہی نہیں بلکہ تاریخ کے لعل و گہر۔ استنبول کے کوچہ ئو بازار میں مسلم تاریخ کی جلیل القدر ہستیوں سے اس کی ملاقات رہی۔
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
حیرت و حسرت کے ساتھ انہیں پلٹ کر وہ دیکھتا ہے۔ خیر یہ تو کوئی بھی کر ے گا۔ سعود کا کمال یہ ہے کہ خود کو وہ تھام لیتاہے اور اس ساعت کو تصویر بنا دیتاہے۔ سہل نہیں ہوتا، یہ سہل نہیں ہوتا۔ خود پہ بتانا پڑتا ہے، جھیلنا پڑتا ہے۔ اقبالؔ نے اس لمحے کا تقاضا نقل کیا ہے:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ نغمہ ہے ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
شاعر کی پذیرائی بہت ہوتی ہے۔ اچھی نثر کم دشوار نہیں۔ بڑے بڑے لکھنے والوں کو دیکھا ہے کہ واقعات تراش لیتے ہیں۔ سفر نامے افسانے ہو جاتے ہیں۔ مقبولیت تو گاہے مل جاتی ہے، صداقت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ صداقت شعاری کا یہ ہے کہ ایک بار اس سے رشتہ ٹوٹ جائے تو کم ہی جڑتا ہے۔ پھر زندگی اور اس کے حقائق سے، اس کے ازلی اور ابدی اصولوں سے تعلق کمزور پڑنے لگتاہے۔ سعود عثمانی صاف بچ نکلا۔ شاعروں اور ادیبوں کے قبیلے میں یہ امکان اور یہ امید کم ہوتی ہے۔ صحافیوں میں اس سے کمتر۔ وکیلوں اور سیاستدانوں میں اس سے بھی کم۔
کل شب عجب ماجرا ہوا۔ سعود کی کتاب کا دیباچہ لکھنا تھا۔ بہت دنوں سے ٹال رہا تھا۔ کتاب پر لکھنا مشکل، پوری کتاب پڑھنا اور بھی مشکل۔ ریاکاری کے ساتھ ستائش کے خیال سے کراہت۔ آخر کو فیصلہ کیا، تین باب پڑھ ڈالوں۔
پہلا ورق شروع کیا تو چونک اٹھا۔ اخبار میں کچھ ٹکڑے پڑھے تھے۔ غور کرنے کی فرصت مگر کبھی نہ پائی۔ صحافت میں چلن اور شعار یہی ہے۔ کاتا اور لے دوڑی۔ اب آدھی رات کی یکسوئی تھی۔ سبزہ زاروں، عمارتوں، دریاؤں اور شاہراہوں کو بیان کرتے ہوئے، تاریخ کے قافلے جن پہ گزرے ہیں، کیسے کیسے گل سعود عثمانی کے قلم نے کھلائے۔ ایک منظر یہ ہے۔
"سمندر چیز ہی ایسی ہے۔ گہرے خواب کی طرح نیلا، زمّردیں اور فیروزی۔ جھاگ اڑاتا، موج میں آتا اور گہرا، بہت گہرا۔ ہمہ وقت رنگ بدلتا۔ اپنے اندر ایک دنیا سمیٹے ہوئے۔ جمال، قوت اور دہشت کی ایک مجسم علامت۔ دور رہو تو اپنی طرف بلاتا ہوا۔ پاس جاؤ تو اپنا خوف اور ڈر جگاتا ہوا۔"
ہاں یہی کراچی کا سمندر ہے۔ کتاب کے ایک دوسرے باب نے بھی اتنا ہی چونکایا:یہ ایک جنگل ہے "گلابی خنکی، وہ خنکی جس میں ذہن فیصلہ کرنے کی کوشش کرتاہے کہ عام لباس کے اوپر کچھ پہنا جائے یا نہیں اور یہ فیصلہ ہمیشہ غلط محسوس ہوتاہے۔ شاہ بلوط، اوک، سلور اوک، سلکی اوک، دیودار، چیڑ، کئی اقسام کے طویل قامت پہاڑی درختوں کی ملی جلی خوشبو ہوا میں رچی تھی۔"
ایک دوسرا پیرا گراف یہ ہے "سبزہ ہو، کھیت کھلیان ہوں یا پیڑ پتے۔ ان کی بو باس ان کی پہچان ہے۔ دھان کا کھیت اپنی خوشبو بکھیرتا ہو یا آم کے باغ میں پکتا ہوا بور۔ ہر مہک دوسری سے جدا ہوتی ہے۔ اس تنوع کا ایک حصہ، جو خالق نے کائنات کے رگ و ریشے میں پیوست کر رکھا ہے۔ جنگل کی اپنی خوشبو ہوتی ہے اور پہاڑی جنگل کی مرطوب مہکا رمیدانی جنگل کی وحشی ہمکار سے بہت الگ ہوا کرتی ہے۔ جیسے پہاڑی پرندوں اور پکھیرووں کی آوازیں اوررنگ و روپ میدانی پنچھیوں سے بالکل جدا ہو تے ہیں۔ میں ذرا سا آگے بڑھا۔ دائیں طرف کی گھاٹی میں گھاس اور جنگلی پودے شبنم یا شاید بارش میں بھیگے ہوئے۔ ہنگی، کائیں، زیتون، کنڈ، گلِ بنفشہ، گلِ سرجان، گلِ ترانی اور ڈیزی کے جنگلی پھول ڈھلوانوں پہ رنگ بکھیر رہے تھے۔ سڑک کی بائیں طرف ایک رہائشی عمارت تھی اور اس کے پیچھے پھر ترائی اور جنگل، کلڈنہ کا جنگل۔"
"مسافر" کے عنوان سے سعود عثمانی کا سفر نامہ پڑھا تو احساسات کا ایک نیا عالم طلوع ہوا۔ شاعر تو وہ تھے ہی، بہت دن کے بعد پاکستانی ادب کے افق پر ایک نثر نگار بھی نمودار ہوا۔