Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sehra Nawardi

Sehra Nawardi

نمک کی کان میں سب نمک ہو گئے۔ اہلِ خیر بہت مگر کنفیوژن کے مارے اور بے سمت۔ نعرے بہت دلکش اور باطن تاریک تر۔ شرفا جب دبک جائیں تو بازاری ہی بروئے کار آئیں گے، خواہ ان کے ہاتھ میں حبِ وطن کا پرچم ہو یا قال اللہ اور قال الرسول کا۔ افراد کی طرح اقوام کو بھی ایک مقصود درکار ہوتاہے اور ایک منزل۔ اگر یہ نہیں تو بنی اسرائیل کی طرح فقط صحرا نوردی۔

بحران کا اندیشہ افغانستان سے ہے۔ زیرِ بحث یہ کہ کتاب میں ملالہ کی تصویر چاہئیے تھی یا نہیں۔ پرجوش وزیرِ خزانہ پریشان ہیں کہ نیب کے خوف سے افسر کام نہیں کرتے؛قوانین بدلنے چاہئیں۔ اخبار اٹھاتے ہی کوفت سوار ہو جاتی ہے۔ اخبار کے پہلے صفحے پر چار سرخیاں یہ ہیں:

"بھٹو پر انگلیاں اٹھانے والے اپنے گریبان میں جھانکیں:شیری رحمٰن"ووٹ کے بدلے رشوت کی پیشکش کرنے والوں کو تاریخ کا علم ہے اور نہ اخلاقیات کا پاس"شیری رحمٰن

"بلاول کے پاس امیدوار نہیں، مریم سیر پر آئی ہیں۔ اب یہ دونوں گھر بیٹھ کر والدین کی کمائی پر عیش کریں "فواد چوہدری

"عمران خاں مجرم، مقبوضہ کشمیر مودی کو دے دیا"مریم نواز

"بھٹو غدار، بلاول بلو رانی، نواز شریف ڈاکو، مریم ڈاکو رانی۔ ایک ووٹ کی برتری پر ہر حلقے کو ایک کروڑ روپے دیے جائیں گے" گنڈا پور

ایک بیان محترمہ عظمیٰ بخاری نے بھی جاری فرمایا ہے، پیپلزپارٹی سے وابستگی کے زمانے میں جو نواز شریف کو "را" کا ایجنٹ کہا کرتیں۔ سچ پوچھیے تو سبھی سچے ہیں اورغور سے دیکھیے تو سارے جتھے دار اور صداقت سے مفرور۔ آدھا سچ شاید جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

ملالہ کبھی ہیرو تھی اور نہ ہو سکتی ہے۔ ایک مظلوم لڑکی تھی، جسے دہشت گردوں نے قتل کرنے کی کوشش کی۔ جنون کی لہر میں، بہت سے لوگوں نے واقعہ کو ڈرامہ کہا۔

کمال مستعدی سے فوجی ہیلی کاپٹر نے ہسپتال پہنچایا۔ پھرمکمل اندمال کے لیے بیرونِ ملک بھیجی گئی۔ باپ کے زیرِ اثر اس بچی کے خیالات یہ ہیں کہ قوم کے اصل ہیرو باچا خان اور کرم چند موہن داس گاندھی ہیں۔ 1970ء کے عشرے میں بھارت کے بھرے جلسوں میں غفار خاں کو پچانوے لاکھ روپے پیش کیے گئے۔ ڈالر کی شرح جب دس روپے تھی۔ اعلان ہوا کہ اس رقم سے ایک فلاحی فنڈقائم کیا جائے گا۔ وہ فلاحی فنڈ کہاں ہے؟ افغانستان میں بیٹھ کر غفار خاں پختونستان کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ یہ کہ اٹک تک کا علاقہ پاکستان سے چھین کر افغانستان میں شامل کر دیا جائے گا۔ چار عشرے بعد جس کی گونج اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی کے بیانات میں سنائی دی۔

اجمل خٹک کے رفیقِ کار جمعہ خان صوفی نے شواہد سے اپنی کتاب "فریبِ ناتمام" میں بتایا کہ باچا خاندان کس باقاعدگی کے ساتھ کابل اور بھارتی حکومت سے وظائف وصول کرتا رہا۔ رہے گاندھی تو وہ ہندوؤں کے ہیرو تھے، مسلمانوں کے نہیں۔ وزیرستان کی سرحد پہ کھڑے ہو کر انہوں نے کہا تھا: بھارت کی سرحد بامیان تک ہے۔ اے این پی کے نوجوانوں کی تنظیم "پختون زلمے" کے سینکڑوں نوجوانوں کو افغانستان میں، روس اور بھارت کی مدد سے مسلح تربیت دی گئی۔ ملک کی سپریم کورٹ نے اے این پی کو، جو تب نیشنل عوامی پارٹی تھی، غداری کا مرتکب قرار دیا۔ بھٹو سے اکتائی ہوئی قوم نے یہ رائے مسترد کر دی۔ دوسرے عوامل کے علاوہ اس لیے کہ 23مارچ1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہء عام پر بھٹو کے غنڈوں نے گولیاں برسائیں۔ ناچیز اس وقت سٹیج پر موجود تھا۔ پختون خوا سے جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے نو افراد قتل کر دیے گئے۔ ان میں اجمل خٹک کے منہ بولے فرزند بھی شامل تھے۔ قاتلوں کا کبھی سراغ نہ ملا۔ ملتا بھی کیسے؟ ڈیرہ غازی خاں میں جاگیرداروں کو شکستِ فاش سے دوچار کرنے والے درویش ڈاکٹر نذیر احمد، جمعیت علماء ِ اسلام کے مولانا شمس الدین اور خواجہ سعد رفیق کے فقیر منش والد خواجہ رفیق کے قاتلوں کی کیا کبھی سن گن ملی؟

احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خاں کے قاتلوں کا پتہ چلا لیا گیا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی فوج فیڈرل سکیورٹی فورس کے جاں باز تھے۔ نشانہ خود احمد رضا تھے۔ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا اعلان ہوا تو لاہور کے مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں بھٹو نے اعلا ن کیا کہ مشرقی پاکستان جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ وہ جمہوریت اور اخلاقیات ہیں، شیر رحمٰن جس کا درس دیتی ہیں۔

افسر وں کا مسئلہ محض یہ نہیں کہ نیب سے خوف زدہ ہیں۔ معاشرے کا ایک ذہین ترین طبقہ۔ مقابلے کے امتحان میں سرخرو ہو کر جو تربیت کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ کاروبارِ حکومت کو خو ب سمجھ لیتے ہیں۔ اس گھوڑے کی طرح، جو سوار کو پہچانتاہے، گنوار اور ناتراشیدہ سوار کو خود پہ سوارہونے نہیں دیتا۔ بدعنوان سیاستدانوں سے واسطہ پڑتا ہے تو و ہ ان کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں یا بے زار، بد دل اور لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ اگر ایف بی آر، پولیس اور عدلیہ تک اپنا اعتبار کھو چکیں تو سرکاری افسروں سے کیا امید۔ ایک جامع اور طویل المیعا د منصوبہ بندی ہی سے اصلاح ممکن ہے۔

ملالہ مغرب پہنچی تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پاکستان خوش دلی سے خیرات کرنے والوں کا وطن ہے۔ باقی دنیا سے اوسطاً دو گنا۔ سوشل سکیورٹی کا ایک متوازی نظام یہاں برپا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ خاندان خوراک، تعلیم اور علاج کی سہولیات سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ درجنوں اجلی تنظیمیں ایثار کیش مردانِ کار نے قائم کی ہیں، "اخوت" اور ایدھی فاؤنڈیشن ایسی۔ چند برس میں اخوت نے ڈیڑھ سو ارب کے غیر سودی قرضے جاری کیے۔ دنیااس پہ انگشت بدنداں ہے۔ بیس سے چونتیس فیصد سود پر خواتین کو قرض دینے والے بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کو نوبل انعام کا مستحق سمجھا گیا اور ملالہ کو بھی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو کبھی نہیں۔ ملالہ ستم کا شکار ہوئی مگر کارنامہ اس کا کیا تھا؟ فروغِ تعلیم کے لیے رقوم تو اسے مغرب نے مہیا کیں۔ پاکستانی عوام کی ہیرو وہ کیسے ہو سکتی ہے۔ سروے کرالیجیے۔ نوے فیصد سے زیادہ پاکستانی اسے قبول نہیں کریں گے۔ معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مغرب کو مواقع ہمارے مذہبی جنونی مہیا کرتے ہیں۔ خود عمران خاں یہ ارشاد فرمایا کرتے کہ ساٹھ ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرنے والے طالبان کو پشاور میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔

کشمیر کسی کا دردِ سر نہیں۔ سرحد پار آئے دن لاشیں گرتی ہیں۔ بچوں اور عورتو ں کو روندا جاتا ہے۔ کسی کے دل پہ چوٹ نہیں لگتی۔ کسی سیاستدان کے دل میں درد نہیں جاگتا۔ انتخابی مہم کا محور الزام تراشی اورگالم گلوچ ہے۔ ذات برادری، رشوت ستانی اور انسانوں کی خرید و فروخت۔ پارٹی کے ٹکٹ کروڑ پتیوں کو ملتے یا ان جی داروں کوجو قبائلی تعصب کی آگ بھڑکا سکیں۔

نمک کی کان میں سب نمک ہو گئے۔ اہلِ خیر بہت مگر کنفیوژن کے مارے اور بے سمت۔ نعرے بہت دلکش اور باطن تاریک تر۔ شرفا جب دبک جائیں تو بازاری ہی بروئے کار آئیں گے، خواہ ان کے ہاتھ میں حبِ وطن کا پرچم ہو یا قال اللہ اور قال الرسول کا۔ افراد کی طرح اقوام کو بھی ایک مقصود درکار ہوتاہے اور ایک منزل۔ اگر یہ نہیں تو بنی اسرائیل کی طرح فقط صحرا نوردی۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.