Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Siasat Ya Hamaqat

Siasat Ya Hamaqat

ہوس اقتدار کی ماری نکمی، نالائق اور سطحی سیاسی جماعتیں اور ان پہ سوار اسٹیبلشمنٹ۔ اس کا نام سیاست ہے یا حماقت۔

الیکشن کا بگل بج چکا۔ بڑی پارٹیاں میدان میں ہیں۔ نون لیگ نے لاہور، سیالکوٹ اور راولپنڈی میں کنونشن کیے۔ لاہور میں شہباز شریف شریک نہ ہوئے۔ بڑے بھائی سے التجا کرتے رہے کہ جاوید لطیف سے بازپرس کی جائے۔ دونوں جانتے تھے کہ جاوید لطیف کے منہ میں اپنی نہیں، لندن کی زبان ہے۔ اس نے کہا تھا: کچھ لوگ ہماری پارٹی میں فوج کی طرف سے مامور ہیں۔ نوٹس ملا تو بشاش رہے اور کہا: میں جانتا ہوں کہ کس دل سے نواز شریف نے مجھے نوٹس بھیجا۔

ایک ساتھ پیدا نہیں ہوئے مگر دونوں بھائیوں کی پشتیں باہم جڑی ہیں۔ ذاتی وفاداروں کی فہرستیں الگ الگ۔ ہدف ایک، موقف دو۔ لاہورمیں شہباز شریف غائب تھے، سیالکوٹ اور راولپنڈی میں مریم۔ مری چلی گئیں۔ اقتدار کے کھیل یونہی کھیلے جاتے ہیں۔ چچا بھتیجی بہرحال ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ ایک محل، دو بادشاہ۔ داراشکوہ جیتے گی یا اورنگزیب عالمگیر۔ کون جانتا ہے۔ شاہ جہاں داراشکوہ پہ سایہ فگن تھا۔ غیر مسلم اکثریت کے علاوہ کچھ مسلمان بھی اس کے ساتھ۔ دارالحکومت میں براجمان۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: جسے چاہتا ہے، ملک عطا کرتا ہے۔ اس باب میں گاہے صاحب کشف اولیا کے اندازے بھی نادرست ثابت ہوتے ہیں۔ غیب صرف اللہ جانتا ہے۔

باپ کو اورنگزیب خط پہ خط لکھتا رہا، ایک بار میری سن تو لیجیے۔ اندیشہ اسے یہ تھا کہ داراشکوہ اس کے ساتھ وہ کرے گا، جو بعدازاں جو خود اس نے بھائی کے ساتھ کیا۔ اس لیے کہ ہدف تخت و تاج ہو تو خون سفید ہو جاتا ہے۔ ترکوں میں یہ روایت خاص طور پر محکم تھی۔

ترکانِ تاتاری سے کچھ کم نہ تھے ترکانِ تیموری

بین السطور اورنگزیب کا اعتراض یہ بھی تھا کہ داراشکوہ اہلِ ایمان سے پیمانِ وفا نہیں رکھتا۔ جدّامجد اکبر کی طرح اپنا ہی دین ایجاد کررکھا ہے۔ جھوٹا پرلے درجے کا اور اپنے اطالوی توپچی کے بقول پرلے درجے کا غصیل اور بدتمیز بھی۔ ایک بار دعویٰ کیا کہ گھوڑا اس سے باتیں کرتا ہے۔ ایک دوسرے موقعے پر یہ کہا:میاں میر نے ایک نگاہِ لطف ڈالی اور مقامات بلند کر دیے۔ گھوڑے انسانوں سے بات نہیں کرتے اور نگاہِ لطف سے مقامات بلند نہیں ہوتے بلکہ راسخ علم اور حسنِ عمل سے۔ زندگی دینی پڑتی ہے، ساری زندگی۔

زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک

اس سے کم پر تو یہ عزت نہیں ملنے والی

خاک چادر ہو جاتی ہے، قبر میں دیے جلنے لگتے ہیں۔

زمیں کے اندر بھی روشنی ہو

چراغ مٹی میں رکھ دیا ہے

قرآنِ کریم کے مطابق بعض کی رسی دراز کر دی جاتی ہے بلکہ عالمِ خواب میں شوکتِ پرواز بھی جس مقام پہ چاہیں خود کو فائز کریں۔ بزعمِ خود شہباز شریف شیر شاہ سوری ہیں۔ مریم رضیہ سلطانہ ہیں۔ لندن کے تاج محل میں مقید شاہجہاں کی نورِ نظر۔ مقبول وہ چچا سے زیادہ ہیں۔ سیاست آدھی بھی نہیں جانتیں۔ بارگاہ میں ملک سے عناد رکھنے والے مشیر۔ ایک لفظ مودی کے خلاف نہیں کہتیں۔ کشمیری ہیں مگر مقبوضہ کشمیر کے ہزاروں زندہ شہیدوں سے واسطہ کوئی نہیں۔ والدِ گرامی کا حال بھی یہی ہے۔ مودی نے بلایا توکہا: مشورہ کر کے جاؤں گا؛حالانکہ پہلے ہی پیمان کر چکے تھے۔ وہاں پاکستان دشمنوں سے ملے۔ صاحبزادے حسین کو ساتھ لے کر فولاد کے بادشاہ جندال کے گھر گئے۔ اپنی مصروفیات سے سفارت خانے کو بے خبر رکھا، قانون کی جو صریح خلاف ورزی ہے۔ فوجی قیادت سے کہا کہ کابل سے آگے لوہے کے ذخائر تک ریلوے لائن کی تعمیر میں مدد کرے۔ گراں قیمت، بے مصرف، طور خم سے کابل تک سواری کہاں دستیاب؟ اسّی سوالات جنرلوں نے اٹھائے۔ اس پر قوتِ متخیلہ سے مالا مال جنرل عامر ریاض سے انہوں نے کہا: جنرل صاحب آپ چاہتے ہی نہیں۔ دوٹوک انہوں نے کہا: جنابِ پرائم منسٹر آپ ٹھیک سمجھے۔

اس لیے کہ لوہے کے ان ذخائر پر جندال کی نظر تھی۔ برکھا دت کے مطابق جس نے کھٹمنڈو میں شریف مودی خفیہ ملاقات کا اہتما م کیا تھا۔ قاتل، بہروپیا اور متعصب مودی، پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف سے زیادہ انہیں محبوب رہا۔ جب کہ ملک کو متحد رکھنے میں فوج کا کردار آئین سے کم نہیں۔ وہ کہ جس نے الہٰ باد کے زندہ جلائے گئے مسلمانوں کو کتّے کے پلّوں سے تشبیہ دی تھی۔

ایک واقعہ سن لیجیے۔ عینی شاہد نہ ہوتا تو کبھی بیان نہ کرتا۔ میرے ڈرائیور منظور کی جان کرکٹ میں اٹکی رہتی۔ انضمام الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم بھارت گئی تو پہلے دو میچ ہار گئی۔ عصرِ رواں کے عارف سے منظور نے پوچھا: کیا باقی چار میچ بھی ہارے گی۔ تسبیح رولتے ہوئے آدمی نے مخصوص دھیرے لہجے میں کہا: بلکہ چاروں جیتے گی۔ عباس اطہر مرحوم ہر میچ پہ پانچ ہزار کی شرط لگایا کرتے۔ ہر بار میں نے ان سے کہا: پچاس ہزار لگا دیجیے۔ نہ مانے، اصرار پر دس ہزار تک چھلانگ لگائی۔ راز انہیں بتایا نہیں کہ ان چیزوں پر انہیں یقین نہ تھا۔ آخر تک انہیں شبہ رہا کہ ممبئی مافیا سے ناچیز کے تعلقات ہیں۔ ممبئی مافیا سے؟ کچھ دن بیت گئے تو عرض کیا: آپ کو کیسے خبر ہوئی، یہ آپ کا موضوع تو نہیں۔

انسانی جبلتوں کی شناخت اور تطہیر ہے۔ اس سے پہلے تو کسی کرکٹ میچ کے بارے میں آپ نے کبھی پیش گوئی نہ کی۔ بولے: آپ غلط سمجھے۔ کشف نہیں ہے یہ، کشف نہیں۔ ہوا یہ کہ اس شب نماز کے لیے اٹھا۔ اس خیال سے دل اداس کہ میچ آج الہٰ باد میں ہے، خاک جس کی اہلِ ایمان کے لہو سے سرخ ہوئی تھی۔ اللہ کی بارگاہ میں التجا کی کہ رحمتہ اللعالمینؐ کی امت کو قلق سے بچا لے۔ کبھی ایسا ہر مسلمان کے ساتھ ہوتاہے۔ اس دن میرے ساتھ ہوا کہ دعا نے دل پہ مرہم رکھ دی۔ منظور نے پوچھا تو بات میری زبان سے پھسل گئی۔ یہ ایک بے ساختہ عمل تھا۔ زمین پر نہیں، فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ یہ اس کا فیصلہ تھا کہ اس عاجز کی دعا قبول فرمائے اور یہ بھی اسی کا فیصلہ تھا کہ بات زبان سے نکل جائے۔ یہ ایک سوچا سمجھا عمل ہرگز نہ تھا۔

پی ٹی آئی بھی برسرِ میدان ہے۔ پہلا کنونشن لاہور میں کیا۔ اعجاز چوہدری کے اہتمام سے، جن کی کوئی ساکھ نہیں۔ مزید بھی کریں گے۔ نو سال میں مگر ٹکٹوں کی تقسیم کا کوئی نظام وضع نہیں کر سکے۔ 2013ء میں تقریباًہر ضمنی الیکشن میں ہارے اور 2018ء کے بعد بھی۔ کل چھاؤنیوں کے بلدیاتی الیکشن بھی اسی ٹھاٹھ سے۔ زرداروں کی اولاد جیسے ترکہ لٹاتی ہے۔

لوٹ مار کو عقیدے کا درجہ دینے والی پیپلزپارٹی دیہی سندھ تک محدود۔ نئی مردم شماری ہو گئی تو کراچی کی سیٹیں ساٹھ ستر فیصد بڑھ جائیں گی۔ خاک چاٹے گی، خاک۔ بلدیاتی الیکشن یا قبل از وقت عام انتخابات، مقابلہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ میں ہوگا۔ ہوس اقتدار کی ماری نکمی، نالائق اور سطحی سیاسی جماعتیں اور ان پہ سوار اسٹیبلشمنٹ۔ اس کا نام سیاست ہے یا حماقت۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.