آسماں دور ہے اور اللہ بے نیاز۔ مگر آسماں اتنا بھی دور نہیں اور اللہ ایسا بھی بے نیاز نہیں۔ پنجاب کے وزیرجنگلات سبطین خان کی گرفتاری اور رہائی کے باب میں سوالات ہیں اور کوئی ان سوالوں کا جواب نہیں دیتا۔ اوّل بے گناہی واضح ہونے کے باوجود انہیں پکڑا ہی کیوں گیا۔ صوبے کی وزارت معدنیات اور ایک نجی کمپنی میں معاہدے پر دستخط 2008ء میں ہوئے۔ سبطین اس وقت وزیر تھے ہی نہیں۔ حکومت سے الگ ہوئے کئی ماہ بیت چکے تھے اس کے باوجود ستمگروں کا ہدف وہ کیوں ہوئے؟
ثانیاً معاہدے کی منظوری دینے والے نگران وزیر اعلیٰ، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری قانون اور محکمے کے متعلقہ افسروں کے خلاف کیوں کارروائی نہ کی گئی، دراصل جو ذمہ دار ہیں۔ ان سب لوگوں کو یکسر نظر انداز کیوں کر دیا گیا؟ کسی کو ان کا خیال تک نہ آیا؟
ثالثاً تحقیقات کے پہلے ہی مرحلے میں پوری طرح جب یہ واضح ہو گیا کہ ایک دھیلے کا نقصان بھی حکومت کو پہنچا نہیں تو فوراً ہی مقدمہ واپس کیوں نہ لیا؟ مہینوں تک انہیں گھسیٹتے کیوں رہے۔ یہ ایک افسوسناک نالائقی اور ناکامی تھی یا دانستہ فیصلہ؟ اس فیصلے کا مقصد کیا تھا؟
رابعاً لاہور ہائی کورٹ میں نیب کے وکیل نے یہ کیوں کہا "حکم اوپر سے آیا ہے"۔ عدالت کی طرف سے بار بار استفسار کے باوجود اس سوال کا جواب کیوں نہ دیا گیا کہ "اوپر" سے مراد کیا ہے۔ عالمِ بالا میں وہ کون لوگ تھے جو بے قصور آدمی کی ناک رگڑنے پر تلے تھے۔
خامساً، اس کے باوجود کہ وہ گوشہ نشین ہو گیا تھا۔ اپنے گھر جا کر بیٹھ رہا تھا۔ صبر کرنے کا اس نے فیصلہ کر لیا تھا، واپس بلا کر، شدید اصرار کے ساتھ اسے وزارت کیوں بخشی گئی۔ پھر سے وہی وزارت۔ اس کے باوجود کہ وہ متامل تھا، اس نے التجا نہ کی تھی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ہائیکورٹ کے فیصلے میں نیب اگر کوئی سقم پاتی ہے تو کیوں سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرتی کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ سبطین خان زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں۔ کھل کر وہ بات نہیں کرتے۔ نازک پہلوؤں پر کرتے ہی نہیں۔ جہاندیدہ سیاسی کارکن پنڈورا باکس کھولنے سے گریزاں ہے۔ کیا پارٹی او ر وزیرِ اعظم کا مفاد اسے ملحوظ ہے؟ میانوالی میں اس کے لیڈر نے یہ کہا تھا: سبطین خان صبرکیجیے، براہِ کرم صبر کا مظاہرہ کیجیے۔ ممکن ہے کہ صبر کا دامن وہ تھامے رکھّے، شاید سالہا سال تک۔ مگر وقت اپنے سینے میں کوئی راز تادیر چھپا نہیں رکھتا۔ کون جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا؟ ابھی سے وزیرِ اعظم اس کی بے گناہی کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟ ان کی مجبوری کیا ہے؟
بیس صفحات پر پھیلے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں معاہدے کا حوالہ تفصیل کے ساتھ ہے۔ اس معاہدے کے مطابق، چنیوٹ میں خام لوہا تلاش کرنے کی خواہشمند کمپنی سے 2006ء میں بات چیت شروع ہوئی۔ سبطین خان کو تو مارچ2007ء میں اطلاع دی گئی، جب سمجھوتے سے متعلق سمری انہیں بھیجی گئی۔ مقدمے کی روداد کے مطابق ان کاغذات پر صوبائی وزیر نے لکھا "please report in seven days"۔ براہِ کرم سات دن میں رپورٹ مرتب کر کے بھجوا دیجیے۔ جن لوگوں نے یہ سمری مرتب کی اور بعد ازاں جنہوں نے فیصلہ صادر کیا، وہ سب کے سب معصوم کیسے قرار پائے؟ اس ایک جملے سے، جو حکم ہے نہ سفارش، قانون کی سنگین خلاف ورزی کیسے برآمد کر لی گئی؟ ایک ہولناک خیانت کا سراغ کیسے لگا لیا گیا۔ ان داناؤں کے بارے میں نیب حکّام کو معمولی سا شبہ تک کیوں نہ گزرا؟ اگر یہ جرم تھا تو ان میں سے کسی ایک کو بھی کیوں طلب نہ کیا گیا؟ بار بار عدالت پوچھتی رہی مگر وہ خاموش رہے۔ کیا وہ مجرم کی تلاش میں تھے یا محض قربانی کا ایک بکرا انہیں درکار تھا۔
معاہدہ چند ماہ بعد ہی منتخب وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے منسوخ کر دیا۔ اس پر تو عمل ہی نہ ہوا۔ اس کے باوجود سبطین خان زیرِ عتاب کیوں آئے۔ ان کی رسوائی کا سلسلہ کیوں جاری رہا۔ اس آدمی کی رسوائی کا، تیس برس کی سیاسی زندگی میں، جس پر کبھی کوئی الزام نہ تھا۔ انہیں کبھی عدالت میں طلب نہ کیا گیا۔ اپنی نیک نامی کے بل پر تین بار آزاد حیثیت میں جو الیکشن جیتا۔ 1990ء کے طوفان، میں اپنی پوری قوت کے ساتھ، اسٹیبلشمنٹ اسلامی جمہوری اتحاد کی پشت پر کھڑی تھی۔ اس کے باوجود سرگودھا ڈویژن میں ظفر مند ہونے والا وہ واحد آزاد اور مخالف امیدوار تھا۔ کیا اس لیے وہ گرفتار کیا گیا کہ دس بارہ ان مقدمات سے توجہ ہٹائی جائے، ان دنوں جو زیرِ غور تھے۔ بعض تفتیش کے دوسرے مرحلے میں۔ ان سب مقدمات کا تعلق تحریکِ انصاف کے لیڈروں سے تھا۔ ان میں سے چند میانوالی اور کچھ پی ٹی آئی پختون خوا کے رہنما تھے۔ ان کی فائلیں سرد خانے میں کیوں ڈال دی گئیں؟ وزیرِ اعظم اور نیب کے چئیرمین یقینی طور پر ان لوگوں سے واقف ہوں گے۔ مقدمے کے اورچھور سے آشنا اخبار نویس تو ہیں۔
وہ یہ بھی پوچھتے ہیں: کیا یہ کارروائی اس لیے عمل میں آئی کہ ان دنوں پنجاب کے لیے ایک نئے وزیرِ اعلیٰ کی تلاش کا تصور کارفرما تھا۔ موزوں اراکینِ اسمبلی کے بارے میں معلومات جمع کی جا رہی تھیں۔ سبطین خان ان میں سے ایک تھے۔ الیکشن 2018ء کے فوراً بعد بھی ان کا نام زیرِ غور آیا تھا۔ کیا وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار بھی منصوبے میں شریک تھے؟ باور کیا جاتا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ ان پر اعتراضات ہیں اور دہرائے جاتے ہیں مگر کوئی انہیں سازشی قرار نہیں دیتا۔
وہ کون لوگ تھے؟ سراغ کے متلاشی اخبار نویس گوجرانوالہ کے ایک با اثر خاندان اور وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ میں متعین ایک صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ خاندان پاکپتن والے قضیے میں ملوث تھا۔ اس معاملے میں زیادہ رسوائی کا سبب وہی بنا۔ نیب اور وزیرِ اعظم کو تحقیقات کرنا چاہئے تھی۔ بات واضح ہو جاتی۔ قصوروار پکڑے جاتے اور سزا پاتے۔ صرفِ نظر کا کوئی سبب سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک بے گناہ آدمی کی بلّی چڑھانے پر وہ کیوں تلے تھے؟ قرائن یہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ چند ہفتے قبل ایک ایسے منصب دار کا انہوں نے تبادلہ کرایاہے، جس پر کوئی الزام نہ تھا۔ جس کی نیک نامی ضرب المثل تھی۔ اس کی جگہ ملک ریاض کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحبزادے کا تقرّر ہوا، نیک نام آدمی گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل ایک کالونی کی تعمیر میں جتا تھا۔ اب یہ رفت گزشت ہوئی۔ حکومت کو اس سے کیا حاصل ہوا؟
کہانی کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ ایسے حیران کن کہ کوئی چاہے تو ایک کتاب لکھ دے، کوئی چاہے تو دستاویزی فلم بنا ڈالے۔ مثال کے طور پر معاہدہ منسوخ کرنے کے فوراً بعد وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے اعلان کیا کہ چنیوٹ کے اس خاکداں میں کھربوں ڈالر لوہے کے خزانے دفن ہیں۔ علاقے میں ایک سٹیل مل قائم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ رفتہ رفتہ یہ سب طاقِ نسیاں ہو گیا۔ اب کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ کون یہ افسانے تراش رہا تھا؟ کون یہ کہانیاں گھڑ رہا تھا؟
درباری سازشیں، برباد سول ادارے اور بدعنوان سیاسی لیڈر جو حکومتوں کو چکمہ دیتے ہیں اور حکومتیں بھی کیسی کہ چپ سادھ لیتی ہیں اور سادھے رکھتی ہیں۔ بڑے سے بڑا جرم بھول جاتی ہیں۔ کیوں بھول جاتی ہیں؟ ایک اخبار نویس نے کہا تھا: ایک نسل کو ذوالفقار علی بھٹو نے چکمہ دیا، ایک کو میاں محمد نواز شریف اور ایک کو جنابِ عمران خاں نے? تاریخ مرتب ہو رہی ہے اور ایک دن لکھی جائے گی۔
آسماں دور ہے اور اللہ بے نیاز۔ مگر آسماں اتنا بھی دور نہیں اور اللہ ایسا بھی بے نیاز نہیں۔