جمہوریت اور میرٹ کا رونا بہت ہے، نعرے اور چرچا بہت۔ ہمہ وقت سیاستدان اور دانشور سلطانی ء جمہور کا گیت گاتے ہیں۔ فیصلوں کا وقت آتاہے تو یہ جمہوریت کہاں چلی جاتی ہے؟ قاعدے، ضابطے اور روایات سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ شاہی فرمان کی طرح حکم صادر ہوتے ہیں اور برطرفی ناگہانی موت کی طرح۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب جنابِ عثمان بزدار نے چار ترقیاتی اداروں کے سربراہ برطرف کر ڈالے، جو Development Authorities کہلاتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے عامر رحمٰن، ملتان کے رانا عبد الجبار، فیصل آباد کے ڈاکٹر اسد معظم اور راولپنڈی کے عارف عباسی۔ کوئی وجہ بتائی نہیں گئی۔
ان چار آدمیوں میں سے، گوجرانوالہ کے عامر رحمٰن کو یہ ناچیز ذاتی طور پر جانتا ہے۔ چھ برس ہوتے ہیں پہلی بار اس جواں سال آدمی کو میں نے دیکھا تو اس کے تیکھے تیوروں پر تعجب ہوا۔ ہمہ وقت توجہ مرکوز رکھنے والا ایک آدمی۔ گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی کے لیڈروں سے میں نے پوچھا کہ اس آدمی کو آپ انتخاب کے میدان میں کیوں نہیں اتارتے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا : تمام دانائی کا نصف لوگوں سے گھلنا ملنا ہے۔ کاروبارِ سیاست پر یہ قول شاید سب سے زیادہ صادق ہے۔
انتخابی معرکے میں تو شریک نہ ہوا لیکن برسوں بعد ایک دن اسے گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چئیرمین بنادیا گیا۔ بھاگ دوڑ کرنے والا ایک آدمی، جو امید تھی کہ اپنے شہر کے لیے خیر کا باعث ہوگا۔ ایک مایوس معاشرے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، جس کی امید مرتی جا رہی ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ فوری طور پر اس نے نہر کنارے ایک ہزار ایکڑ کی ایک رہائشی کالونی بنانے کا فیصلہ کیا۔
بہت مستعدی کے ساتھ نئی بستی تعمیر کرنے کی عامر رحمٰن نے منصوبہ بندی کی۔ ایک دن بھاگتا ہوا وہ میرے پا س آیا اور کہا کہ ٹائو ن پلاننگ سے متعلق اچھے افسروں کا فقدان ہے۔ کیا کچھ لوگوں سے میں اسے ملوا سکتا ہوں۔ اتفاق سے ممتاز ترین ماہرین میں سے ایک کے ساتھ شناسائی تھی۔ فوری طور پر دونوں کی ملاقات کا بندوبست کیا کہ بات آگے بڑھے۔
یہ ایک شاندار منصوبہ تھا۔ ایک روپیہ خرچ کیے بغیر ایک ہزار ایکڑ زمین ادارے کو حاصل کرنا تھی۔ زمین کے مالکان کو ایک ایکڑ کے عوض اڑتالیس مرلے کا تیار شدہ پلاٹ دیا جاتا۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت دو کروڑ روپے سے کم نہ ہوتی۔ علاقے میں زمین کی قیمت پچیس سے چالیس پینتالیس لاکھ روپے ایکڑ ہے۔ اندازہ یہ تھا کہ گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کم از کم دو تین ارب روپے ملیں گے۔ مدتوں سے سویا پڑا ادارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔
رکاوٹیں کھڑی کی جانے لگیں۔ ڈائریکٹر جنرل کے لیے، بیشتر ذمہ داری جسے اٹھانا تھی، ڈھنگ کا کوئی آدمی میسر نہ تھا۔ آخر کار اس نے ڈھونڈ نکالا۔ راولپنڈی سے راجہ شوکت محمود کو، جو اچھی شہرت کے حامل تھے۔ اب اس کھیل میں احسن جمیل گجر داخل ہوئے۔ وہی جو وزیرِ اعلیٰ کے یارِ غار سمجھے جاتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر " جی منگولیا "کے نام سے وہ ایک رہائشی کالونی کے کرتا دھرتا ہیں۔ ان کی ایک درخواست موصول ہوئی کہ وہ اپنی رہائشی بستی میں توسیع کے آرزومند ہیں۔ شوکت محمود نے علاقے کا جائزہ لیا اور معذرت کر لی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بہت سی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔ پارک، ہسپتال، حتیٰ کہ عبادت گاہ تک کے پلاٹ بنا کر بیچ دیے گئے۔ ایک عملی آدمی کی طرح البتہ ایک درمیانی راستہ انہوں نے ڈھونڈ نکالا۔ توسیع کی بجائے ایک نئی کالونی کی درخواست کی جائے۔
یہ سالِ رواں کا وسط تھا، 9 سے 23 جولائی تک وزیرِ اعلیٰ کے دفتر سے مبشر میکن نام کے ایک صاحب سفارشی ٹیلی فون کرتے رہے۔ پیہم انکار پر 29 جولائی کو ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈائریکٹر جنرل کی اضافی ذمے داریاں خاتون ڈپٹی کمشنر کو سونپ دی گئیں۔ شہرت ان کی اچھی ہے لیکن فوراً ہی گجر صاحب کی درخواست منظور کر لی۔ خبر ملی تو ان سے رابطہ کیا۔ لہجہ ان کا معذرت خواہانہ تھا۔ کہاکہ میں نے تو محض تکنیکی اجازت دی ہے۔ یہ آئندہ کے مراحل میں دیکھ لیا جائے گا کہ کہیں کوئی بے قاعدگی تو نہیں۔
اسی دوران جاننے والوں میں سے ایک واقعہ کسی نے مجھے بتایا، آج بھی جس پر حیرت ہوتی ہے اور رشک آتا ہے۔ برسوں پہلے عامر رحمٰن کی شادی ہوئی تھی۔ ایک ایسی محترم خاتون سے، جنہیں اولاد نہ رکھنے والے ایک معزز خاندان نے پالا تھا۔ اس خاندان کی پوری جائیداد وراثت میں انہیں ملی تھی۔ ایک دن عامر رحمٰن کو پتہ چلا کہ جائیداد پہ شرعی حق رشتے داروں کا ہوتاہے، لے پالک اولاد کا نہیں۔ یہ سنتے ہی وہ گھر پہنچے اور خاتون سے مشورہ کیا۔ اتفاق رائے سے دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ جائیداد حق داروں کے سپرد کر دیں گے، جن میں سے کبھی کسی نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا؛چنانچہ پچاس کروڑ روپے کے اثاثے ان رشتے داروں کے سپرد کر دیے گئے، جنہوں نے کبھی اس کا تصور تک نہ کیا تھا۔
سرکاری بستی وہیں کی وہیں پڑی رہی۔ احسن جمیل گجرپھل پھول رہے ہیں۔ گوجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے اب ان کا مطالبہ یہ ہے کہ سرکاری فیس پانچ کروڑ نوّے لاکھ روپے کی بجائے صرف ایک کروڑ پچھتر لاکھ وصول کی جائے۔ نرخ کا تعین ایک قریبی گائوں کے مطابق کیا جائے۔ عامر رحمٰن اس پر ڈٹ گئے ؛چنانچہ برطرفی کا پروانہ ملا اور انہی کو نہیں، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی میں تین اور کو بھی۔
بتایاجاتاہے کہ وزیرِ اعظم کے مشیر نعیم الحق، گور نر سرور اور شاہ محمود نے وزیرِ اعظم سے بات کی۔ اب تک مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وزیرِ اعظم زیادہ ضروری امور میں الجھے ہیں۔
فیصل آباد کے ڈاکٹر اسد معظم سب سے زیادہ برہم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ دو بدعنوان افسروں کا تبادلہ کرنے کے سوا کسی جرم کے وہ مرتکب نہیں۔ یہ بھی کہا کہ کرپشن تو دور کی بات ہے، ایک ذرا سی رعایت بھی کسی کو دی ہو تو انہیں پھانسی پہ لٹکا دیا جائے۔ چوہدری سرور، نعیم الحق اور شاہ محمود سے انہوں نے رابطہ کیا مگر کچھ نہ ہو سکا۔ راولپنڈی کے عارف عباسی کہتے ہیں : میں نے تو صرف یہ کیا کہ رہائشی بستیوں کے نقشے ویب سائٹ پر چھاپ دیے۔ اصلی، نقلی اور زیرِ غور، سب کے۔ معلوم نہیں یہ جسارت ناگوار کیوں ہوئی۔ ملتان کے رانا عبد الجبار کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے واسا کی آمدن اڑھائی سے پانچ کروڑ روپے ماہوار تک پہنچا دی اور دو سے چودہ غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں پر قانون کا شکنجہ کسا۔ ایک گمنام درخواست پر وزیرِ اعلیٰ نے ان کی برطرفی کا حکم جاری کیا ؛دراں حالیکہ تحقیقات ابھی جاری تھیں۔
اگر یہ لوگ خطاکار تھے تو ان کا جرم واضح کیا جاتا، انہیں سزا دی جاتی اور اس سزا کا چرچا کیا جاتا۔ اگر عام تاثر کے مطابق احساسِ ذمہ داری اور دیانت کے ساتھ اپنے فرائض وہ انجام دے رہے تھے تو اس ننگی چٹی من مانی کا جواز کیا ہے؟پیر کے دن یہی بات شاہ محمود قریشی نے وزیرِ اعلیٰ سے کہی۔ گھنٹہ بھر بحث کی مگر وہی آئیں بائیں شائیں۔
جمہوریت اور میرٹ کا رونا بہت ہے، نعرے اور چرچا بہت۔ ہمہ وقت سیاستدان اور دانشور سلطانی ء جمہور کا گیت گاتے ہیں۔ فیصلوں کا وقت آتاہے تو یہ جمہوریت کہاں چلی جاتی ہے؟ قاعدے، ضابطے اور روایات سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ شاہی فرمان کی طرح حکم صادر ہوتے ہیں اور برطرفی ناگہانی موت کی طرح۔