شہباز شریف اور ان کے فرزند کالا دھن سفید کرنے کے کیس میں بری ہو گئے تو تعجب کیا؟ ایک صدی ہونے کو آئی اقبال نے کہا تھا:
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش
اوّل تو یہ حضرت شہباز شریف اور صاحبزادے کا معاملہ ہی نہیں۔ اوّل تو یہ معاملے کی نوعیت ہی نہیں۔ چونکہ یہ مؤقف مخالفین کا ہے؛چنانچہ اس پر نہ جائیے، دوسرے نکات تاہم غور طلب ہیں۔ لندن میں مقیم را کے معروف ایجنٹ سے دن دہاڑے لندن پولیس نے بھاری رقم بر آمد کی تھی۔ اسے خود سزا کا یقین تھا۔ اتنا کہ روتے ہوئے حامیوں کو مطلع کر دیا تھا۔ پھر کیا ہوا۔ پہلے دوسرا ایک واقعہ سن لیجیے۔
مشرف سے کپتان کا ہنی مون ختم ہوئے، اتنا عرصہ بیت چکا تھا کہ ترک تعلق کی نفرت بھی مدھم ہو گئی تھی۔ وہ دن بیت چکے تھے جب ایک باوردی جنرل نے یہ کہا تھا: ذاتی حیثیت سے عرض ہے۔ جنرل مشرف کا ذکر کبھی آپ گالی کے ساتھ کرتے ہو۔ حکمراں نیم دیوانے ہوتے ہیں، طاقت کے نشے میں چور۔ نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
رفتہ رفتہ نمک کی کان میں کپتان نمک ہوا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ دھمکی سن کر خاموش رہتا۔ تاتاریوں کی طرح منہ پہ ہاتھ نہ پھیرتا۔ بر سبیل تذکرہ، اہل پنجاب نے منگول باشندوں ہی سے یہ ڈھنگ سیکھے ہیں۔ ہندوستان کو وہ فتح نہ کر سکے کہ علائو الدین خلجی ایسا دلاور مزاحم تھا۔ اگلے کسی زمانے میں سے کچھ پنجاب اور مدتوں بعد کچھ کوئٹہ میں آن بسے۔ اقبال نے جن کے بارے میں کہا تھا:
ہے عیاں یورش تاتارکے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
ایک قصہ اور بھی سن لیجیے۔ صاحبقراں امیر تیمور محض ایک مقامی سردار تھے۔ کبھی وہ مسجد میں جا بیٹھتے۔ حافظ قرآن درویشوں کی داستانیں سنا کرتا۔ موقع پا کر مولوی صاحب نے کہا: تم ایک اچھے آدمی ہو برلاس شہزادے۔ مگر قتل و غارت؟ جلال چمکا۔ بولا: تاتاری ٹھیک کہتے ہیں " دو مولوی ایک مرد کے برابر ہوتے ہیں۔ بعد میں کبھی پھر وہ جملہ کہا جو ضرب المثل کی شان رکھتا ہے" مرد کے سامنے ایک ہی راستہ ہوا کرتا ہے "وہ ایک اور عمران تھا۔
شوکت خانم کو بم سے اڑا دیا گیا تو گمان اس کا یہ تھا کہ یہ حضرت آصف علی زرداری کی کار ستانی ہے۔ جنرل حمید گل کا خیال تھا کہ را کی کارستانی ہے۔ کپتان کو زرداری پر شبہ تھا کہ افتتاح کی بے نظیر پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ ناچیز نے صاد کی جسارت کی تو حیرت سے میری طرف دیکھا۔ کچھ وہی انداز: You too brotus۔ پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا۔ تو اس جنرل کے پیام کو وہ قتل کی دھمکی سمجھا۔ شعار بدل رہا تھا۔ چمک کر کہا: تو پھر جلدی کرو، بچ گیا تو تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ را کا ایجنٹ ان دنوں بہت طاقتور تھا۔ ایک اشارے پہ کراچی بند ہو جاتا۔ لاشیں گرنے لگتیں۔ حتیٰ کہ ایک بار تو نصیر اللہ بابر ایسے شجاع کو بوری بند کرنے کی دھمکی دی۔
قسمت خراب، برسوں بعد کپتان نے ایک ذراسی تنقید کی تو پاگل ہو گیا۔ نواز شریف اور زرداری تو میرے دروازے پر آئیں۔ میڈیا میرا قیدی۔ مشرف میرا سرپرست اور کرکٹ کے کھلاڑی کی یہ جرات؟ دیواریں غلاظت سے بھر گئیں۔
مجید نظامی مرحوم کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے، اسے مدعو کیا۔ ایسے لتے کپتان نے لیے کہ قاتل گنگ ہو گیا۔ گھبرایا اور دیواریں صاف کرنے کا غلاموں کو حکم دیا۔ سچ یہی ہے کہ چور کے پاوں نہیں ہوتے اور ظالم سے زیادہ بزدل بھی کوئی نہیں ہوتا۔ پچھلے مہینے عبد الرشید دوستم کو بھاگتے دیکھا؟ اس کی سپاہ کو " گلم جم" کہا جاتا۔۔۔ دریاں لپیٹ دینے والے۔ خان نے کہا تھا" ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ ایک پاگل چیخ رہا ہے۔ تبھی وہ ایم کیو ایم سے ٹکر لیتا۔ 2013ء سے پہلے، مگر کراچی میں اس کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم سے جنگ بندی کر لی۔ جنگ بندی میں پہل کرنے والوں کو کون بہادر مانتا ہے۔ صدر عارف علوی کو سنا؟ " ساری دنیا کے لیڈروں کو عمران خاں کی شاگردی اختیار کر لینی چاہیے۔ عدم تحفظ کے مارے لوگ۔
ایم کیو ایم پر مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دو چیزوں پر مکمل اعتماد اسے تھا۔ ایک برطانوی نظام انصاف اور دوسرے برطانوی پریس اور حکومت میں اپنے مراسم پر۔ کرکٹ کا لیجنڈ، ایک سروے کے مطابق دنیا کی چار سب سے زیادہ سحر انگیز شخصیات میں سے ایک۔ گولڈ سمتھ کا چہیتا داماد، ہنری کسنجر سمیت، دنیا بھر کی منتخب شخصیات جس کی شادی میں شریک ہوئی تھیں۔۔۔۔ اگرچہ شیروانی اس نے مانگے کی پہنی تھی۔
آئی ایس آئی نے تعاون کی پیشکش کی۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ایک اور ورلڈ کپ جیتنے کا خواب، لندن کا قصد۔ خاکسار کے تحفظات تھے۔ کپتان تب ایسی ہنسی ہنسا، ایسے میں جو طاقتورلوگ ہنسا کرتے ہیں۔ لگا کہ مخاطب کو وہ کنویں کا مینڈک سمجھتا ہے۔ برا لگا مگر خاموش رہا۔ برگزیدگی کے خمار میں مبتلا کسی بھی شخص سے بحث بیکار۔ دل دل ہی میں البتہ: اچھا جی! ایم آئی فائیو سے مگر آپ واقف نہیں۔ اپنے کارندوں کا جو دفاع کرتی ہے۔ بھارت اور امریکہ اور انگریز کے اس گماشتے کا کیوں نہ کرے گی۔
برطانوی پولیس نے کپتان کو کیا دیا؟ پنجابی محاورے کے مطابق " چھنکنا" (جھنجھنا) لے اس سے تو دل بہلا۔ ہم تو وہ ہیں کہ تین صدیاں پہلے جنہوں نے جاگیرداروں کی مدد سے، پورے بھارت میں ایم آئی فائیو کا جال بچھا دیا تھا، اب تک برقرار ہے۔ وہ کہ کشمیر جنت نظیر کو نہرو کی گود میں ڈالنے کے لیے، مسلم اکثریت کی گورداسپور تحصیل، جنہوں نے بھارت کے حوالے کر دی تھی۔ ہم تو ہیں کہ بھارتی منصوبے پر پاکستان اگر ٹوٹے تو گوادر سے کراچی تک کا ٹکڑا الگ کرنے کی کوشش کریں گے۔ بھارتی منڈی پہ ہماری رال ٹپکتی ہے۔ اے کرکٹ کے سادہ لوح کھلاڑی شاد رہ کہ انگریز حسینہ تجھ پہ مر مٹی۔ ہم جا نتے ہیں: طالب علم لیڈر ہمیشہ طالب علم لیڈر ہی رہتا ہے اور کھلاڑی ہمیشہ کھلاڑی، کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو۔ سربراہ مملکت ہی کیوں نہ ہو جائے۔ تیرے دفتر کے کلرک تک تجھے دھوکہ دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں کہ تجارتی کمپنی بنا کر پورے ہندوستان پہ قبضہ جما لیا تھا۔۔۔۔۔ دنیا کی پچیس فیصد معیشت پر۔ صنعتی انقلاب کے ہنگام، دنیا کی معیشت تھی ہی کیا۔ زراعت، بحری جہاز، پارچہ بافی، ریوڑ، دودھ، گرم مصالحے اوردستکاری۔ ہندوستان ان سب میں سب سے آگے تھا۔ ایرانی ورنہ اس پہ کیوں لپکتے۔ سکندر اعظم وگرنہ وہاں کا قصد کیوں کرتا۔ ہن سردار ورنہ برف پوش پہاڑوں کو پھلانگتے وہاں کیوں پہنچتے۔ آرین اور ترک، پشتون اور مغل۔
شہباز شریف اور ان کے فرزند کالا دھن سفید کرنے کے کیس میں بری ہو گئے تو تعجب کیا؟ ایک صدی ہونے کو آئی اقبال نے کہا تھا:
مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری
اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش