کتنے برس بیت گئے، شہرِ لاہور میں قائدِ اعظم کے سپاہیوں میں سے ایک، نسیم بیگ مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ دانشور بحث کا دھاگا الجھا دیتے تو وہ کہتے: اور تو سب عوامل کی وہ بات کرتے ہیں، بس ایک اللہ کا نام نہیں لیتے۔ جس نے کائنات پیدا کی۔ سارے لشکر، سب آدمی اس نے پیدا کیے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی تقدیر لکھی ہے۔
وزیرِ اعظم کے دوست نے برقی خط میں انہیں لکھا کہ غنیم کو دارالحکومت تک آنے کی اجازت کون دیتا ہے؟ اسی دوست نے، جس کے بارے میں اسی کالم میں عرض کیا تھا کہ اسی سے مشورہ کر لیا ہوتا۔ وزیر اعظم نے جواب دیا:Dont worry، we are prepared۔ اندیشہ مت پالو، ہم تیار کھڑے ہیں۔
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
احسان دانش ایک عظیم شاعر تھے۔ زمانہ ان کے سوز سے فارغ نہیں ہو سکتا۔ باقاعدہ تعلیم کے اعتبار سے نیم خواندہ۔ ادھیڑ عمری تک جسمانی مشقت کے ذریعے پیٹ بھرتے رہے مگر ایسا مطالعہ، ایسا شعور اور اتنا گہرا مشاہدہ کہ کارگہِ فکر میں ستارے ڈھلتے رہے۔ اردو میں قدرتِ کلام کی جسے آرزو ہو، اسے ان کی خودنوشت پڑھنی چاہئیے "جہانِ دانش"۔ ان کے شعر سے استفاد ہ چاہئیے
آجائو گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
ارنسٹ ہیمنگوے نے Old man in sea کے عنوان سے ایک کہانی لکھی تھی۔ دنیا کے عظیم ترین ناولوں میں سے ایک ناول۔ شفاف دریا، Crystal River کے کنارے، ساری دنیا میں ان کا اعتراف کیا گیا، انہیں نوبل پرائز پیش کیا گیا۔ معلوم نہیں ترک افسانہ نگار نے وہ داستاں کہاں لکھی، جس میں ایک قیدی کی اذیت بیان کی۔ تیس سال کے درد و غم سے بھرے دن رات۔ فرار کی اسے اجازت تھی۔ عمر بھر دروازہ وہ دھکیلتا رہا مگر نہ کھل سکا۔ پھر ایک دن محافظ نے کھول دیا اور یا للعجب صرف ایک انگلی سے۔ دروازہ بند تھا ہی نہیں۔ باہر کی سمت دھکیلنے کی بجائے اسے اپنی طرف کھولنا تھا۔ قیدی کو کبھی سوجھا ہی نہیں۔ بدقسمتی مصائب و مشکلات کا نام نہیں، خرابیء تقدیر یہی ہوتی ہے کہ سوجھتا ہی نہیں۔
بارک اللہ خاں نام کا ایک آدمی تھا۔ پہلے ایک طالبِ علم لیڈر، پھر ایک وکیل۔ تربوز کی طرح چھلکا سخت، باطن گداز۔ اس دور میں، جب شلوار قمیض پہن کر بھی کوئی طالبِ علم تعلیمی اداروں میں نہ جایا کرتا، تہمند باندھے وہ سید ابو الاعلیٰ مودودی سے ملنے گیا۔ رخصت کرتے ہوئے ممدوح نے جواں سال آدمی سے یہ کہا:خان صاحب، چادر آپ کی خوب ہے۔ لڑکا مسکرایا اور بولا: ہوسٹل کے کمرے میں ایسی ہی ایک اور بھی رکھی ہے، اجازت مرحمت ہو تو آپ کی خدمت میں پیش کروں۔
برصغیر کے امراض میں سے ایک احساسِ کمتری ہے۔ اپنے آپ ہی سے فرصت نہیں دیتا۔ خلوت ملے تو غور و فکر کی نوبت آئے، فہم و ادراک کا در کھلے۔ بارک اللہ خان پہ اللہ کی رحمت تھی۔ حجاب سے بہت کچھ آزاد تھے۔ ایسی پتے کی بات کبھی کہتے کہ چراغاں سا ہو جاتا۔ ایک دن یہ کہا تھا: کوئی کامیابی اس دنیا میں کامیابی نہیں اور کوئی ناکامی اس دنیا میں ناکامی نہیں۔ ابھی جوان تھے کہ موت نے دستک دی۔ رگوں میں کینسر کی سیاہی دوڑنے لگی مگر دنیا کو تیاگ دینے کا ارادہ اس سے پہلے کر لیا تھا۔ یاد نہیں آتا کہ مرحوم مختار حسن یا جنابِ ذوالقرنین، اپنے دوستوں میں کسی سے خان صاحب نے کہا تھا: موکل سے فیس لینے کو اب جی نہیں چاہتا۔ بے چارے حالات کے مارے، پولیس اور پٹوار کے مارے۔
ایک انگشت پٹوارنے کاٹ لی
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی
اس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
شاعر کہتاہے کہ اس کی پگ زور والے کے پائوں تلے دھجیاں ہو گئی ہے۔ وہ آخری حکمراں، زور والوں سے جس نے مظلوم کو بچانے کی کوشش کی، شاید ٹیپو سلطان تھا۔ افتاد پڑی اور تاوانِ جنگ دینا پڑا تو خزانہ خالی تھا۔ غیر مسلم رعایا کو خبر ہوئی تو گرد و غبار سے اٹے راستوں پر وہ اتری اور اپنی پونجی سلطان کے قدموں میں ڈھیر کی۔ بوڑھی عورتیں اپنی بیٹیوں کا زیور تک لے آئیں۔
آخری معرکے میں اس امید پر سلطان نے انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدر آباد کے لشکر کا انتظار کیا کہ مون سون کی بارش میدان کو دلدل بنا دے گی۔ میسور کے قلعے کی بلندی پر گڑی توپوں سے ان کے چیتھڑے اڑا دیئے۔ برسنے کو بادل نہ آئے۔
ان کے ایفائے عہد تک نہ جئے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
صلاح الدین زیادہ خوش بخت تھا۔ کوڑھی بالڈن یروشلم سے اس کے لیے نکلا تو صحرا کے دوسرے کنارے پر سلطان اس کے انتظار میں پڑا رہا۔ یورپ کے ان گنت شہزادے، جنرل اور ان کا لشکر۔ ریگ زار کے وسط میں جب وہ پہنچے تو سیاہ پرچم اڑاتے شہسوار ان پر ٹوٹ پڑے۔ بیشتر پیاسے مر گئے، پانی مانگتے ہوئے۔ کچھ قتل ہوئے، کچھ گھوڑوں کے سموں تلے روندے گئے۔ جو باقی بچے، ان میں سے بیشتر کو معاف کر دیا گیا۔ اس ایک مکروہ آدمی کے سوا، جس نے کہا تھا: مسلمان خواہ اپنے خدا کو بلا لیں، ذلت آمیز ہار سے بچ نہیں سکتے۔ سلطان نے اس روز کہا تھا: خدا کی قسم، اپنے ہاتھ سے میں اسے قتل کروں گا۔ اپنے ہاتھ سے حالتِ جنگ میں حریف کو گھوڑا پیش کرنے والے سلطان نے اپنے ہاتھ سے کافر کو قتل کیا۔ خود یورپی مورخ، جسے پاگل کتا کہتے ہیں، کرک کا بھیڑیا۔
حضرت مولانا فضل الرحمٰن اللہ کو مانتے ہیں۔ صلیبی نہیں، وہ مسلمان ہیں۔ ان کا لشکر بھی مسلمان۔ خان صاحب اور ان کے رفیق ہی نہیں، بہت سے بے طرف لوگ بھی یقین رکھتے ہیں کہ حکمران پر عائد کردہ الزامات سفید جھوٹ ہیں۔ قادیانیوں اور صیہونیوں سے مل کر اس نے کوئی سازش نہیں کی۔
حلف کے ہنگام قرآنِ کریم کی تلاوت تھی۔ مجمع خاموش مگر سلطان ٹیپو بولتا رہا، اپنے آنسوئوں کے ساتھ۔ ایک لفظ بھی اس نے کہا نہیں، مگر آنسوئوں نے سب کہہ دیا "کتنی بڑی ذمہ داری آپڑی ہے۔ " یہی بات سلطان صلاح الدین نے کہی تھی اور پوری وضاحت کے ساتھ۔ مسلمانوں پر حکومت کرنا سہل نہیں۔ ظہیر الدین بابر کی توبہ پوری تھی یا نہیں، اللہ جانے۔ سلطان کی توبہ مکمل تھی۔ صبح سویرے مسجد میں وہ جھاڑو دیا کرتا۔ محل میں قیام سے انکار کر دیا تھا۔ عبادت کے بعد پھلوں سے ناشتہ کرتا اور پریڈ تیاریوں کے میدان میں چلا جاتا۔ باقی تاریخ ہے۔
کتنے برس بیت گئے، شہرِ لاہور میں قائدِ اعظم کے سپاہیوں میں سے ایک، نسیم بیگ مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ دانشور بحث کا دھاگا الجھا دیتے تو وہ کہتے: اور تو سب عوامل کی وہ بات کرتے ہیں، بس ایک اللہ کا نام نہیں لیتے۔ جس نے کائنات پیدا کی۔ سارے لشکر، سب آدمی اس نے پیدا کیے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی تقدیر لکھی ہے۔