خوش قسمت معاشرے وہ ہوتے ہیں جو تجربات سے سیکھیں۔ آدمی اپنی تقدیر خود لکھتا ہے۔ قدرت تو صرف یہ کرتی ہے کہ مواقع ارزاں کرے۔ سبق سکھائے اور نہ سیکھنے والوں کے لئے سیکھنے پہ اصرار کے لئے، اذیت دیتی رہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
حکومت نہیں سدھرے گی تو کیا ہم بھی نہیں سدھریں گے؟ گلبرگ کے جی بلاک سے رائے ونڈ روڈ پہ، اپنے دفتر تک، درجنوں بار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار۔ ون ویلنگ نہ فرمائیں تو یہی غنیمت ہے۔ اکثرکا حال یہ ہے کہ قانون نام کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں۔ رتی برابر بھی پرواہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ گاڑیوں اور بسوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے اندازہ ہے کہ ایک تہائی کم۔ شعوری نہیں تو لاشعوری طور پر، ڈرائیور محتاط رہتا ہے۔ حادثے کا خوف مضطرب کرتا ہے۔ ہیجان کا شکار ہو کر وہ ہارن بجاتا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ ستر اسّی فیصد ہارن ضرورت کے بغیر ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرا دبائو وجود میں آتا ہے۔
خیال اب ٹریفک پولیس کی طرف جاتا ہے۔ ایک سادہ سا حل شاید یہ ہو کہ ایک لین موٹر سائیکل کے لئے خاص کر دی جائے۔ شروع میں زیادہ سختی سے خلاف ورزیوں پر جرمانے کئے جائیں۔ اگر یہ تجربہ کامیاب نہ رہے تو موٹر سائیکل تھانے میں بند کر دیا جائے۔ ہفتہ بھر کی وہ تاب نہیں لا سکتا۔ اگلی بار وہ احتیاط اور شائستگی سے کام لے گا۔ اگر نہیں تو دوسری یا زیادہ سے زیادہ تیسری بار وحشت کا مرتکب نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے کہ نچلی سطح پر اتنا بڑا فیصلہ صادر نہیں ہو سکتا۔ اب جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے، زیادہ پیچیدہ اور زیادہ خطرناک مسائل اسے درپیش ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری، اس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ میڈیا مسئلے پر توجہ دے؟ نیوز بلیٹن کے علاوہ چھوٹی چھوٹی دستاویزی فلمیں بنائی جائیں۔ یاددہانی کرائی جاتی رہے تو بتدریج اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
موضوع پر بحث ہو گی، بڑھتی جائے گی تو حکومت بھی متوجہ ہو گی۔ ذہنی طور پر معاشرہ جب الجھ جاتا ہے، ہیجان اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے تو اصلاح آسان نہیں ہوتی۔ چیخ و پکار سے زیادہ اس وقت صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹھنڈے دل سے سوچ بچار کی۔ معاشرتی امراض مزمّن ہوتے ہیں۔ اجتماعی سطح پر وہ ذہنی پیچیدگیوں کو جنم دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک ناکارہ حکومت سے معرکے کی امید وابستہ کرنا، خوش فہمی نہیں بلکہ شاید پرلے درجے کی حماقت ہو گی۔
زندگی قیمتی ہے، بہت قیمتی۔ اتنی کہ ایک انسان کی ہلاکت کو پوری انسانیت کی ہلاکت کے مترادف قرار دیا گیا۔ فرمان یہ ہے کہ ایک جان جس نے بچا لی، گویا پورے بنی نوع انسان کو بچا لیا۔ اولاد سے ماں باپ کو محبت ہوتی ہے۔ یہ مستقل طور پہ برقرار رہنے والی انسانی جبلتوں میں سے ایک ہے۔ ماں باپ کے لئے اولاد کی اذیت، اپنے دکھ سے بڑی ہوتی ہے۔ ایک ماں خود بیمار ہو جائے تو شاید شدید پریشانی اسے لاحق نہ ہو۔ ممکن ہے وہ اس کا اظہار بھی نہ کرے۔ لیکن بچے کی ذرا سی بیماری اور ذرا سا زخم بھی اس کی نیند اڑا دیتا ہے۔ ماں باپ اپنے موٹر سائیکل سوار بچوں کو تلقین کیوں نہیں کرتے۔ کیوں یہ نکتہ ذہن نشیں کرانے کی کوشش نہیں کرتے کہ اپنا ہی نہیں، دوسروں کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔
اجتماعی حیات کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ دوسروں کی پرواہ کرنے والے خود اپنے تحفظ اور ذہنی سکون کا سامان بھی کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس طرح منزل پہ پہنچتا ہے کہ مسافت کا ایک آدھ گھنٹہ ہیجان اور ذہنی اذیت میں بسر کیا ہو؟ توکس ذہنی کیفیت میں اپنے دفتر میں داخل ہو گا۔ ظاہر ہے کہ آدمی کی مزاجی کیفیت کام کاج پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ کارکردگی کو بڑھاتی یا کم کر ڈالتی ہے۔ چڑچڑے پن اور غصے میں مبتلا کارکن مطلوبہ رفتاراور سلیقہ مندی سے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ حکومت تو جب بروئے کار آئے گی، تب آئے گی۔ عثمان بزداروں سے چھٹکارہ جب ملے گا، تب ملے گا۔ جو کچھ ہمارے اپنے بس میں ہے، وہ تو کر گزرنا چاہیے۔
انسانی معاشروں میں اصلاح کا کوئی لازمی اور واحد نقطہ آغاز نہیں ہوتا۔ زندگی ایک اکائی ہے۔ جہاں کہیں بھی بہتری کا آغازہو، دوسرے دائروں پر، آس پاس پہ وہ اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ برائی کی طرح نیکی بھی متعدی ہوتی ہے۔ آدمی کو اللہ نے عقل سلیم عطا کی ہے۔ انسانی سماج مایوسی کا شکار ہو جائے تو ہوش و خرد تحلیل ہونے لگتے ہیں۔ اشرافیہ بگڑ جائے تو عام آدمی کی اصلاح کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہوتی ہے، آج جس سے ہم دوچار ہیں۔ پھر کیا کیجیے؟ کیا اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیا جائے۔ مان لیا جائے کہ بحالی ہماری تقدیر میں نہیں؟ جی نہیں اس طرح تو خرابی فزوں تر ہو گی۔
اشرافیہ موقع پرست ہے اور آج سے نہیں، ہمیشہ سے۔ تحریک انصاف سے انقلاب کی جو امید وابستہ تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جاتی ہے۔ وہی ہے، صورت حال وہی ہے جو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں تھی۔ قاف لیگ کی حکومت میں تھی۔ اپنی ذہانت اور کامیابیوں پر ناز کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے عہد میں تھی۔ وہی لوگ ہیں، زیادہ تر وہی لوگ جو چودھری پرویز الٰہی اور حد سے زیادہ پراعتماد پرویز الٰہی کے دور میں تھے۔ بلند بانگ دعووں اور دلفریب وعدوں کے ساتھ کچھ نئے لوگ سیاست میں آئے۔ نئے لوگ ان سے بھی کم تر ثابت ہوئے۔ اوربھی ناکردہ کار۔
اس لئے کہ خواب تو انہوں نے بہت دیکھے اور دکھائے۔ خیالات کی دنیا میں ایک جنت آباد کر دی۔ ارضی حقائق کا ادراک مگر برائے نام۔ کوئی جامع منصوبہ ان کے پاس نہیں۔ سوچا ہی نہیں کبھی بنایا ہی نہیں۔ کاروباری طبقات، سول سروس، پولیس اور نچلی عدالتیں اور بھی بگڑ گئیں۔ قلم جیبوں میں ڈال لئے۔ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ مرض کی نوعیت سمجھنے اور کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے، ہمارے عالی قدر حکمران خود ترسی کا شکار ہو گئے۔ رونا پیٹنا شروع کیا تو افسر شاہی کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اور زیادہ ڈھٹائی اختیار کر لی۔ پندرہ ماہ گزر جانے کے بعد وزیر اعظم نے ہتھیار ڈال دئیے۔
ناتجربہ کاری ہے اور غیر عملی رویّے۔ نتیجے میں ناکامی، ہیجان اور وحشت۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا وعدہ پولیس اصلاحات کا تھا۔ ہو جاتیں تو امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی۔ پٹوار اور نچلی عدالتوں پہ توجہ دی جاتی تو آدھے سے زیادہ مسئلے حل ہو جاتے۔
رونا معیشت کا ہے۔ اقتصادی حالت بہتر ہو جائے تو رفتہ رفتہ سب کچھ سنورنے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ معیشت کیا ہے، صنعت کاری۔ صنعت کاری کیا ہے؟ محض جدید طرز کے کارخانے نہیں یعنی سرمایہ کاری۔ سرمایہ کاری کا انحصار امن پہ ہوتا ہے۔ سرمایہ حساس ہوتا ہے، بہت حساس۔ ایوب خان کے بعد کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں آئی، جو اس نکتے کا ادراک رکھتی ہو۔ سرمایہ کار خوف کا شکار ہے۔ ہفتے بھر سے وزیر اعظم کے لہجے میں کچھ نرمی آئی ہے۔ ہمہ وقت ورنہ وہ للکارتے اور خوف زدہ کرنے میں لگے رہتے۔ سرمایہ سمٹ کر گھریلو تجوریوں میں بند ہو گیا یا سرحدوں کے باہر فرار ہونے لگا۔ اچھے اور برے وقت قوموں پہ آتے ہیں۔ وقت کا جمال یہ ہے کہ بہرحال وہ گزر جاتا ہے۔
بدقسمتی مشکل اور مصیبت میں نہیں ہوتی۔ زوال میں نہیں ہوتی بلکہ ناقص انداز فکر میں۔ زوال اور ناکامی فکرو خیال کی پستی اورمایوسی سے پھوٹتی ہے۔ خوش قسمت معاشرے وہ ہوتے ہیں جو تجربات سے سیکھیں۔ آدمی اپنی تقدیر خود لکھتا ہے۔ قدرت تو صرف یہ کرتی ہے کہ مواقع ارزاں کرے۔ سبق سکھائے اور نہ سیکھنے والوں کے لئے سیکھنے پہ اصرار کے لئے، اذیت دیتی رہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند