وزیرِ اعظم کا کیا ہوگا؟ ملک اور معاشرے کا کیا ہوگا، ہر شعبدہ بازجہاں معزز ہو گیا اور ہر نجیب خوار و زبوں۔ دہائی دیتا زوال اور کمال بے حسی۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہء گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟
ایک اور مردِ کار وزیرِ اعظم کے تلوّن کی نذر ہو گیا۔ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء۔
شعیب بن عزیز کے برادرِ خورد نعمان کی وفات کا غم ابھی تازہ ہے۔ ایک ہنستا کھیلتا، جواں سال آدمی دیکھتے ہی دیکھتے موت کی کالی وادی میں اتر گیا۔ اس کے بچوں کا کیا ہوگا۔ پھر یہ گمان تشفی دیتاہے کہ خاندان حساس اور با شعور ہے۔ ان سے وہ بیگانگی تو نہیں برتیں گے۔ اسی بھنور سے پھروہی خیال ابھرتا ہے۔۔۔ مگر دھوپ میں سائے کا کوئی بدل تو نہیں ہوتا۔
واجد ضیاء جیتے جاگتے ہیں۔ سرکاری ملازمت میں تبادلہ کوئی عجیب چیز نہیں۔ آزادیء عمل بخشی گئی تو نیشنل پولیس فاؤنڈیشن میں بھی خلوص اور ہنر سے جادو جگا سکتے ہیں۔ یادش بخیر، ڈاکٹر شعیب سڈل معتوب تھے تو اس ناکردہ کار محکمے کو انہوں نے ا یک ادارے میں ڈھال دیا تھا۔ اس تصور سے مگر جی اداس ہونے لگا کہ فیصلہ سازی کم سے کم اور ادنیٰ ہاتھوں میں سمٹتی جا رہی ہے۔۔۔ انجام کیا ہوگا؟
صحت مند معاشرے کی قوت اس کے سول ادارے ہی تو ہوتے ہیں۔ امانت و دیانت کے چراغ پہلے ہی کتنے ہیں کہ بجھا دیے جائیں۔ حکمران اپنی شوکت و وجاہت نہیں، اپنے دبدبے سے نہیں بلکہ ایثار، دانائی، ضبط و تحمل اور قوت فیصلہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ اپنی ذات نہیں، اپنے تشکیل کردہ اداروں کے طفیل۔ خان صاحب پر خودی کا نشہ سوار ہے۔
تین چار ادارے ہی بنیاد ہوتے ہیں۔ پولیس بگڑی ہوئی تھی، اب اور بگڑ گئی۔ پیوندلگانے کی نہیں، یکسر اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کا مگر ڈول ہی ڈالا نہ جا سکا۔ ہوتے ہوتے عالمی سطح پر عدلیہ 120ویں نمبر پر آگئی ہے۔ زوال کے اس سفر کا اختتام کیا ہے۔ ججوں کے بارے میں اس طرح کی افواہیں اڑتی ہیں، جیسی گئے گزرے پولیس افسروں کے باب میں۔
ریاست کی بقا اور فروغ کا انحصار دو چیزوں پہ ہوتاہے۔ دفاع اور ظاہر ہے کہ اس کی خاطر محصولات۔ فوج بھوکے پیٹ لڑتی ہے اور نہ اسلحہ مفت۔ شبّر زیدی کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے بائیس ہزار میں سے بیس ہزار ناکردہ کار یا بدعنوان ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو ہر سنوارنے والے کو دس بگاڑنے والے۔ جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے، ان کا احساس اور ادراک تک نہیں۔
ایک عشرہ ہونے کو آیا، شوکت ترین نے کہا تھا کہ کم از کم پانچ سو ارب روپے ایف بی آر کے افسر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اب شاید کہیں زیادہ۔ ظاہرہے کہ پانچ سات ہزار ارب کی رعایت عطا فرمانے کے عوض۔ حیرت اور رنج کے ساتھ آدمی سوچتا ہے کہ ریاستیں کیا رہزنوں کے لشکر پالا کرتی ہیں؟ خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ میں ابتدا کی تاب بھی کیا نہیں؟
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
پورا ملک حیران ہے، خود پی ٹی آئی کے لیڈر اور کارکن پریشان ہیں کہ سب سے بڑا صوبہ ایک دیہاتی نابغے کو سونپ دیا گیا۔ کارِ سرکار کی جو الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اس آدمی کی خاطر آئی جی اور چیف سیکرٹری بے معنی بنا دیے گئے۔ ایک غلطی کو ڈھانپنے کے لیے کتنی بہت سی حماقتیں کرنا پڑتی ہیں۔ پنجاب میں سرکاری افسروں کے تقرر و تبادلوں کا قرینہ کیا ہے؟ طرح طرح کی کہانیاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں۔ اس قدر ہولناک، اس قدر ہولناک۔ کہاجاتا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کی ناکردہ کاری سے پیداہونے والے خلا کو ان کے ایک ماتحت نے پر کیا ہے۔ عملاً وہ چیف سیکرٹری کا کردار ادا کر رہے ہیں اور آئی جی کا بھی۔ جہاں جہاں بس چلتاہے، جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں۔ آئی جی صاحب کے بارے میں تو یوں بھی بہت سے سوالات ہیں۔ گنتی کے چند لائق افسروں میں سے ایک نے کہا: اکیسویں گریڈ سے بائیسویں گریڈ میں ترقی دینے والے بورڈ کا اجلاس ان صاحب کے لیے ملتوی کیا جا رہا ہے کہ آنجناب کے منصب کی بلوغت میں چند ہفتے باقی ہیں۔ یقین ہی نہ آیا۔ کبھی ایسا بھی کہیں ہوا ہوگا؟
افسر شاہی اجلی کب تھی؟ اب زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ دھکیل دھکیل کر ڈھنگ کے افسر دیوار کے ساتھ لگائے جا رہے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کی بن آئی ہے۔ نام لے لے کر افسر اور اخبار نویس بتاتے ہیں کہ فلاں اور فلاں منصب اس قدر درہم و دینار کے عوض بیچا گیا۔
ایک نیک نام افسر نے ابھی ابھی کہا: خرابی پہلے بھی تھی۔ اب تو عالم یہ ہے کہ قسطوں پر بھی خریدو فروخت ہونے لگی، جی ہاں مناصب کی۔ کہا جاتاہے کہ وزیرِ اعظم جانتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے مدعی کو یہ گوارا ہے؟ شہنشاہ جہانگیر نے کہا تھا: ایک جام اور دو کباب کے بدلے ہم نے اپنی سلطنت نور جہاں کو سونپ دی۔ کپتان نے اپنی سلطنت معمولی لوگوں کو مفت عنایت کردی۔ خلق فریادی ہے، پیہم فریادی۔ کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگاکتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلنار کریں مردِ شریف واجد ضیاء سے صرف ایک بار آمنا سامنا ہوا۔ کسی اور کی تلاش میں تھا کہ ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ فوراً ہی وہ نمودار ہوئے، جیسا کہ ان کے بارے میں سنا تھا، شرماتے ہوئے۔ الفاظ کے نہیں، وہ عمل کے آدمی ہیں۔ داستان بیان نہیں کرتے، یہ معلوم تھا۔ یہ بھی کہ کسی زمانے میں سرگرداں سے آدمی تھے۔ پھر ایک عارف سے اتفاقاًملے اور زندگی بدل گئی۔ اخلاقی استواری کا استعارہ ہو گئے۔
شیخ عبد القادر جیلانی ایران میں ایک پادری کے ہاں پہنچے اور کہا: کیا ابھی وقت نہیں آیا؟ کلمہ پڑھا تو خطے میں اپنا نائب مقرر فرمایا۔ مقربین نے حیرت کا اظہار کیا تو ارشاد کیا: وہ تو پہلے ہی ایک سوکھی لکڑی ہے۔ اسے فقط کلمہ ہی پڑھنا تھا۔
واجد ضیاء کوئی عظیم درویش نہیں۔ بس یہ کہ سیدھے راستے کا سراغ ملا تو اس پر چلتے چلے گئے۔ فرائض اپنے دیانت سے نبھاتے ہیں۔ دربار داری سے نا آشنا۔ یہی ان کا جرم ہے۔ زندگی آج بھی وہی ہے، بت پرستی نہ سہی، شخصیت پرستی بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات ومناتواجد ضیاء کا تقرر ہوا تو عرض کیا تھا: خوش فہمی نہ ہو، دلیل کے بغیر وہ مانتے نہیں۔ بیرسٹر علی ظفر کی طرح کیا وہ بھی جہانگیر ترین کو ہدف کرنے کے حق میں نہ تھے؟
کوئی دنوں میں بھید کھل جائے گا۔ ادارے کو وہ سنوار رہے تھے۔ جدید کاری، ہوائی اڈوں اور سرحدوں پر۔ ہر دوسرے شعبے میں بھی میرٹ پر مزید بھرتی اور تربیت۔ سب سے بڑھ کرخود اپنی مثال سے۔ امید کی یہ کرن بجھا دی گئی۔ واجد ضیا کا کیا نقصان؟ نیک نام ہیں، انشاء اللہ نیک نام ہی رہیں گے۔
وزیرِ اعظم کا کیا ہوگا؟ ملک اور معاشرے کا کیا ہوگا، ہر شعبدہ بازجہاں معزز ہو گیا اور ہر نجیب خوار و زبوں۔ دہائی دیتا زوال اور کمال بے حسی۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہء گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟