ازل سے نمود کی آرزو میں مبتلا آدم زاد۔ تُوشاخ سے کیوں ٹُوٹا، میں شاخ سے کیوں پُھوٹا/اک قُوّت پیدائی، اک لذت یکتائی۔
"دھرنا نہیں یہ دھندہ ہے"۔ یہ الفاظ میجر صاحب نے کہے۔ غیر معمولی قوتِ متخیلہ کردگار نے انہیں بخشی ہے۔ مولوی صاحب کا لسّی والا قصہ بھی میجر صاحب ہی نے بیان کیا تھا۔ ان کے بقول میدانِ عرفات میں 90 ہزار روپے کی لسّی آنجناب ڈکار گئے۔ ہر چند اس میں مبالغہ ہے اور شعر کا نہیں بلکہ لطیفے کا مبالغہ، مگر سچائی بھی۔ کشمیر کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے بیرونِ ملک مولانا تشریف لے جاتے تو واپسی پر سرکاری افسر ان کے لطیفے سنایا کرتے۔ کہیں ان کا جبّہ برقی سیڑھیوں میں الجھ جاتا، کہیں کرسٹل کی کوئی قیمتی چیز مجروح کر دیتے۔ ایک بار تو یہ ہوا کہ بچوں کی طرح شیشے کی ایک بگھی پر بیٹھ گئے۔ بیچاری ان کا بوجھ برداشت نہ کر سکی۔ واپڈا کی وہ گاڑی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گی، بمشکل جوبازیاب کی گئی تھی۔ ڈیزل کے پرمٹ کا قصہ تو سبھی جانتے ہیں۔ چار عشروں سے لطائف کا عنوان ہیں۔ سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ آج وہ اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ سیاست کار ان پہ نثار، اخبار نویسوں کی فوج کی فوج ان پہ نثار۔ خود بھی مور کی طرح سینہ پھلائے، وہ اپنی بلائیں لے رہے ہیں۔ کیا کہنے، کیا کہنے
آئینہ دیکھنے والے تیرے قرباں جائوں
خودہی سنگھار کیا، خودہی کہا سبحان اللہ
سیاسی تجزیوں میں، ٹی وی کے ٹاک شوز میں ہر چیز پہ بحث ہوتی ہے، ہر پہلو سے۔ بس دو چیزوں کو بھلا دیا جاتاہے۔ ایک وہی الوہی اور ابدی سچائی کہ اس کائنات کا کوئی مالک اور پروردگار ہے اور فیصلے وہی صادر کرتاہے۔ دوسرا یہ کہ سیاست ایک کاروبار بھی ہے، ایک دھندا۔ لگ بھگ پندرہ برس ہوتے ہیں، حجازِ مقدس مولوی صاحب تشریف لے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک جواں سال رہنما سے ملاقات ہوئی۔ حال احوال انہوں نے پوچھا تو فرمایا: اللہ نے غنی کر دیا ورنہ والد صاحب تو خاندان کو مقروض چھوڑ گئے تھے۔ یہ شہد اکے لیے مختص 1200 کنال زمین پر ہاتھ صاف کرنے سے پہلے کی بات ہے۔ غالباً پرمٹ پالینے کے فوراً بعد۔ پرمٹ کا سوال ایک بار پارٹی کی مجلسِ عاملہ میں بھی اٹھاتھا۔ انہوں نے اعتراف کیا اور کہا:جوپیسہ ہاتھ لگا، مجاہدین کو بھیج دیا تھا۔ مجاہدین سے مراد ملّا عمر کے فدائین تھے۔
2001ء میں امریکیوں نے افغانستان پہ آگ برسائی تومولوی صاحب کا کاروبار چمک اٹھا۔ دن دگنی، رات چوگنی ترقی۔ 2002ء کے الیکشن سے پہلے اندرونِ ملک ہی نہیں، بیرونِ ملک بھی خریداروں نے ان کی قدر و قیمت کا ادراک کر لیا تھا۔ جنرل مشرف نے اپنی کابینہ کو بتایا تھاکہ بھارت سے مولوی صاحب نے نقد داد پائی۔ یہ وہی دورہ ہے جس میں بھارتی قیادت سے مضبوط مراسم ان کے استوار ہوئے۔ اتنے مضبوط کہ بعد ازاں اجیت دوول سے بھی ان کی ملاقات رہی۔ وہی اجیت دوول، جس کی ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کو توڑنے اور تباہ کرنے کی کوشش کرے۔ اپنے مشن کا صاف صاف جو اعلان کرتا ہے۔ جس کی نگرانی میں پانچ سو ملین ڈالر سالانہ بلوچستان میں تخریب کاری پر صرف کیے جاتے ہیں۔ یہی وہ دورہ ہے، جس میں آنجناب نے اعلان کیا تھا کہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کو باہم مدغم کر دینا چاہئیے۔ آپ نے تجویز کیا تھا کہ اس مقصد کے لیے تینوں ملکوں کے سیاستدان ایک گول میز کے گرد جمع ہوں اور کنفیڈریشن بنا دیں۔
یہ ہیں مولوی صاحب۔ پنجابی محاورے کے مطابق پروں پہ پانی پڑنے نہیں دیتے۔ قائدِ اعظم کے پسندیدہ اخبار نویسوں میں سے ایک زیڈ اے سلیری نے ایک ممتاز اخبار نویس میر جمیل الرحمٰن کے بارے میں لکھا تھا:ہاتھ کیسے آئیں، جسم پر تیل لگا کرتو اکھاڑے میں اترتے ہیں۔ مولوی صاحب سے واسطہ پڑتا تو ان کے چرن چھوتے۔ ان کے شاگردی اختیار کرتے اور اس پہ ناز کیا کرتے۔ عملی طور پر کون سی کنفڈریشن اور کہا ں کی کنفڈریشن۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کا کوئی سیاستدان کھلے عام اظہار بھی کر دے تو اس کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے، نمونہء عبرت بن جائے۔ جس طرح جھیل سیف الملوک کے فراز کو جاتی ہوئی ایک جیپ سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گرے۔
مولوی صاحب بچ نکلے۔ جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل منور حسن چیختے رہ گئے لیکن قاضی حسین احمد نے ان کے حق میں گواہی دی۔ کہا کہ خبر جھوٹی ہے۔ جھوٹی تھی تو درجنوں بھارتی اخبارات نے کیوں چھاپی۔ ان سب کو کس نے آمادہ کیا۔ دلّی کی اسٹیبلشمنٹ سے تو ان کے مراسم خوشگوار تھے، بھارت میں ان کا حریف کون ہے؟ بچ نکلے، صاف بچ نکلے۔ خراش تک نہ آئی۔
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
حیرت ہوتی ہے۔ کسی قوم کا حافظہ اتنا کمزور بھی ہو سکتا ہے۔ ہیجان تھا اور ہیجان ہے۔ اپنا تعصبات اور جتھہ داری میں الجھا معاشرہ۔ پورے کا پورا ملک افغانستان میں امریکی عزائم اور جنرل پرویز مشرف میں الجھا تھا، جیسا کہ اب دھرنے میں۔ کئی دن سے میاں محمد نواز شریف کی علالت اور بیرون ملک علاج کے معاملے میں۔ تب ایک گروہ کا درد سر یہ تھا کہ جنرل سے نجات کیسے پائی جائے، دوسرے گروہ کا یہ کہ جنرل کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ باقی سب کچھ ثانوی، باقی سب بے معنی۔ اب یہ ہے کہ نواز شریف لندن کیسے پہنچیں دوسروں کو یہ پریشانی لاحق رہی کہ نوازشریف کو لندن جانے سے روکا کیسے جائے۔ تب سوال یہ تھا کہ بھٹو سے چھٹکارا کیسے ہوتب سوال یہ تھا کہ فخر ایشیا، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو بچایا کیسے کیا جائے۔ نقارخانہ ہے یہ نقارخانہ، طوطی کی آواز اس میں کون سنتا ہے۔ مچھلی بازار ہے یہ مچھلی بازار۔
سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، سب کے اپنے اپنے دکھ ہیں
اے دل غمگیں تیری کہانی کون سنے گا کس کو سنائیں
ایک مولوی صاحب ہی کیا، دھندہ کرنے والے اور بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے چودھری صاحبان اور بڑے بیوپاری جناب زرداری اور جاتی عمرہ والے غریب۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات کے چودھری پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کا تمبو ہیں اوربمبو بھی، یعنی خیمہ اور اس کی طناب۔ پرویز الٰہی سے کوئی پوچھے تو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں : تمبو بھی خان صاحب رکھ لیں اور بمبو بھی۔ فقط یہ ہے کہ ہم پہ اعتبار فرمائیں۔ اعتبار کے بغیر چارہ ہی کیا ہے۔ آخر خان صاحب کو بھی دھندہ کرنا ہے، اقتدار کے لئے۔ اس کافر کے لئے کہاں کہاں کس کس در کی خاک چھانی۔ کس کس کو گوارا کرنا پڑا۔ کس کس در پہ جبیں سائی کی۔
متاعِ دین و ایماں لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂِ خوں ریز ہے ساقی
چالیس برس ہوتے ہیں، آنکھیں پونچھتا ہوا ایک ایم پی اے، سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کی سیڑھیاں اترا اور یہ کہا "ایک ذرا سی عزت کے لئے کتنی بے عزتی سہنا پڑتی ہے"۔ گندا ہے پر دھندہ ہے۔ ازل سے نمود کی آرزو میں مبتلا آدم زاد۔ تُوشاخ سے کیوں ٹُوٹا، میں شاخ سے کیوں پُھوٹا/اک قُوّت پیدائی، اک لذت یکتائی۔