جو نہیں مانتے، وہ نہ مانیں۔ جب کوئی فیصلہ آسمانوں پر صادر ہو چکے تو زمین پر اسے نافذ ہونا ہوتا ہے۔ کچھ قرائن سے اندازہ لگاتے ہیں اور کچھ واقعات رونما ہونے کے بعد تسلیم کیا کرتے ہیں۔ اللہ کے آخری پیغمبرﷺ کے نام پروردگار کا پیغام یہ تھا: اپنے حریفوں سے کہو: تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
دوقومی نظریہ اور قائدِ اعظمؒ سچے ہو گئے۔ شیرِ کشمیر شیخ عبد اللہ کی اولاد سمیت اچانک بہت سے لوگوں کو احساس ہوا کہ قیامِ پاکستان پر امت کا اجماع بالکل درست تھا۔ انحراف کرنے والے خسارے میں مبتلا ہوئے۔ دکھ جھیلا اور شرمندہ ہوئے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ محمود غزنوی بھی ان لوگوں کی سمجھ میں آنے لگے گا۔
یہ ایک مختصر سی نثری نظم ہے، جو 27دسمبر1979ء کے چند دن بعد لکھی گئی۔
میں محمود ہوں، غزنی کا محمود
میں وہ ترک زادہ ہوں خلق جسے پشتون سمجھتی ہے
یہ وادیاں میری ہیں
اور تابہ ابد ان پر میری حکمرانی رہے گی
میں ہر اس شخص کے دل میں زندہ ہوں
جس نے کابل کے پیالے میں پانی پیا ہے
جس کے قدموں کی چاپ کبھی ہلمند کی وادی نے سنی ہے
روسی حملے کے بعد اس خیال کا مذاق اڑایا جاتا کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین کو افغان ہرا سکتے ہیں۔ افغان امور کے سب سے بڑے ماہر لوئی دپری کی رائے مختلف تھی۔ امریکی کانگریس نے اسے خطاب کی دعوت دی کہ افغانستان پر نئی پالیسی تشکیل دی جا سکے۔ کسی بھی عالم کے لیے یہ ایک منفرد اعزاز تھا۔ یہ لیکن ریاست ہائے متحدہ کی خوش بختی بھی تھی۔ جس سرزمین پر ایسے ایسے نادر اور کھرے اہلِ علم موجود ہوں۔ خوش قسمت نہیں، تو وہ اور کیا ہوگی۔ جب ایسے لوگ چلے جاتے ہیں تو روزویلٹ، نکسن اور ریگن نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ ایسے لوگ زمامِ کار سنبھالتے۔ اپنی قوم اور دنیا کو تباہی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ دُپری نے امریکی قیادت کو بتایا کہ افغان مزاحمت کے قابل ہیں۔ وہ ساڑھے تین سو سال سے وسعت پذیر روسی سلطنت کو گہرا زخم لگاسکتے ہیں۔
ممکن ہے، اس نے ٹائن بی کا حوالہ بھی دیا ہو۔ علمِ تاریخ کے شناور اس پر بحث کیا کرتے ہیں کہ ابنِ خلدون عظیم ترین مورخ ہے یا ٹائن بی۔ ہم جیسے معمولی طالبِ علم یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ہی عظیم ہستیاں تھیں۔ ان کی پیش گوئیاں پوری ہوئیں اور ان کا مطالعہ کرنے والے تاریخی عمل کا بہتر ادراک کر سکتے ہیں۔ ٹائن بی نے کہا تھا: عراق اور مصر کو فتح نہیں کیا جا سکتا۔ آسمان پر بلیک ہول ہیں، جس میں ستارے فنا ہوتے ہیں۔ زمین پر خراسان اور میسو پوٹیمیا، جہاں قوموں کی قسمت کے ستارے گم ہو جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں پھیلے سویت یونین کے نظریاتی حامیوں کا استدلال یہ تھا: کہ صدیوں سے روسی بڑھتے چلے آئے ہیں۔ کمیونزم ایک فروغ پذیر نظریہ ہے اور پسپا نہیں ہو سکتا۔ خودستّر فیصد امریکی یہ سمجھتے تھے کہ کمیو نزم کو ابھی نئی سرزمینیں فتح کرنی ہیں۔ خان عبد الولی خاں نے کہا تھا کہ ٹینکوں میں کیا، روسی جنرل مرسڈیز کاروں میں بیٹھ کر کراچی کے ساحل پہ اتر سکتے ہیں۔ جوابی استدلال یہ تھا کہ افغانوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ امان اللہ خاں کے عہد میں کابل کا سفر کرنے والے علامہ اقبال ؔ کہہ چکے تھے کہ افغانوں کی سخت جانی ہر بحران میں انہیں بچا لے جائے گی۔ ملّا سے اقبالؔ کو کوئی امید کبھی وابستہ نہ تھی۔ 249 اشعار اس کی مذمت میں لکھے مگر حیرت انگیز طور پر ایک شعر افغان ملّا کی حمایت میں ہے۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
ایک امریکی اخبار نویس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر پاکستان سے ملحق صوبوں پکتیا، پکتیکا اور لوگر کا دورہ کیا۔ واپسی پر اپنے طویل رپورتاژ میں لکھا: جنگ ان کے لیے طرزِ زندگی ہے۔ عام حالات میں بھی ان کی زندگی بہت دشوار ہے۔ طویل عرصے تک وہ دشمن کا سامنا کر سکتے ہیں۔ وہ سخت جان، مذہبی، شکّی اور غیر ملکیوں کے باب میں اور بھی زیادہ شکّی ہیں۔ عصرِ رواں کے عارف پروفیسر احمد رفیق اختر کہا کرتے: اپنی چٹان کے سوا ا س کے پاس رکھا ہی کیا ہے۔ باقی تاریخ ہے۔ روسیوں نے افغانستان میں کمیونزم اور پھر امریکیوں نے جمہوریت نافذ کرنے کی کوشش کی۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا اور ایک ہزار بلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکیوں نے ہار مان لی ہے۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان کل ایک معاہدے پر دستخط ہو ں گے۔ اس کے فوراً بعد افغانوں میں باہم بات چیت کا آغاز، جس میں شرکتِ اقتدار کا فارمولا مرتب ہوگا۔ صدارتی نظام، چھوٹی فوج اور شرعی قوانین پر تقریباً مکمل اتفاق رائے پا یا جا تاہے۔ طالبان کے طرزِ فکر میں تبدیلی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں سراج الدین حقانی نے واضح کیا ہے کہ خواتین کے تعلیمی ادارے خوش دلی سے کھولے جائیں گے۔ تمام افغان گروہوں کو اقتدار میں شریک کیا جائے گا۔ یہ اشارہ بھی دیا کہ افغان سرزمین کسی کے خلا ف استعمال نہیں ہوگی۔ فتح کے زعم کی جگہ عملیت پسندی لے رہی ہے۔ وہ نکتہ جو بہت سوں نے نظر انداز کیا تھا، اب واقعات میں منوّر و آشکار ہے۔ چھ برس تک امریکیوں سے مکالمہ کرنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس نکتے کو یوں بیان کیا تھا: تاریخی عمل میں ایک قبائلی سماج ایک جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔
اقبالؔ نے یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان میں اگر انتشار پھیلا تو پورا ایشیا درہم برہم ہو جائے گا۔ ایشیا، کیا پوری دنیا دگر گوں ہوگئی۔ سویت یونین تباہ ہوا۔ امریکہ پسپا ہے۔ اب اس کی باری ہے اور بھارت کی بھی۔ قائدِ اعظمؒ نے کہا تھا: قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کی آئندہ نسلیں ہندوئوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا کریں گی۔ وہ یقین دلاتے رہے، مگرکسی نے سن کر نہ دیا۔ اب وہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہیں۔ بیس کروڑ انسانوں کو۔ کسی طرح بھی یہ ممکن نہیں۔ ایک پوری قوم کو صفحہء ہستی سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ یلغار کا سامنا کریں گے اور بقا کی انسانی جبلت ان کی مددگار ہوگی۔ رفتہ رفتہ خوف ان کی کھال سے نکل جائے گا۔ مسلمانوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے یا سوویت یونین کی طرح، ہندوستان حصوں بخروں میں بٹ جائے گا۔
جو نہیں مانتے، وہ نہ مانیں۔ کوئی فیصلہ آسمانوں پر جب صادر ہو چکے تو زمین پر اسے نافذ ہونا ہوتا ہے۔ کچھ قرائن سے اندازہ لگاتے ہیں اور کچھ واقعات رونما ہونے کے بعد تسلیم کیا کرتے ہیں۔ اللہ کے آخری پیغمبرﷺ کے نام پروردگار کا پیغام یہ تھا: اپنے حریفوں سے کہو: تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔