اصول یہ ہے کہ آدمی کو آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا اور یہ بھی کہ غلطی سے نہیں، غلطی پر اصرار کرنے سے تباہی آتی ہے۔ چودھری سرور سے ایک بار پھر معذرت۔
چودھری محمد سرور سے پہلے پہلی ملاقات کب ہوئی، کچھ یاد نہیں۔ یہ بھی نہیں یاد کہ یہ راولپنڈی شہر تھا یا اسلام آباد۔ بھاگتا ہوا میں گیا۔ تجسس یہ تھا کہ بظاہر ایک عام سا پاکستانی برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر کیسے ہوگیا۔ چودھری صاحب اس دن فارم میں تھے۔ کسی نے کہا کہ قاضی حسین احمد ایسے جیّد آدمی پجیرو پہ کیوں اڑے پھرتے ہیں۔ بے ساختہ چودھری نے کہا: ان کی اپنی پارٹی کا پیسہ ہے، ان کے کارکنوں کا دیا۔ بے پناہ مصروفیات ہیں۔ اس پر اعتراض کا کیا سوال؟
اس انکشاف نے مبہوت کر دیا کہ جس حلقہ انتخاب سے وہ جیتے ہیں، 90 فیصد سے زیادہ، غالباً 96 فیصد ووٹرگورے ہیں۔ ان سے تعلق تب اور بھی گہرا ہوگیا، جب ڈاکٹر شعیب سڈل نے بتایا کہ وہ ان کے ذاتی دوست ہیں۔ ڈاکٹر سڈل کئی اعتبار سے ایک مثالی آدمی ہیں۔ فرض شناس، مرتب، متجسس اور جی جان سے اپنے فرائض ادا کرنے والے۔ پولیس افسر تو ایسے ہیں کہ دنیا بھر میں ان کی مثال دی جا تی ہے۔
جاپان پولیس کے مستقل مشیر ہیں۔ ترک پولیس کے ارتقا میں بھی ان کا ایک کردار ہے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں جرم و سزا اور نظام انصاف پر کوئی عالمی کانفرنس ہو، مدعو کئے جاتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ 1995ء کے کراچی میں امن کا قیام ہے۔ قتل و غارت کسی طرح تھمنے میں نہیں آتی تھی۔ حکومت مایوس تھی بلکہ پورا ملک۔ صدر فاروق لغاری، وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سپہ سالار جنرل عبدالوحید کاکڑ نے انہیں مدعو کیا۔ صدر نے کہا:امید اور امکان برائے نام ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ شاید کچھ کر دکھائیں۔
ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایاکہ وہ اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل منتخب ہو چکے۔ بڑی تنخواہ، بڑا منصب اور ایسا شاندار مستقبل، ایک پولیس افسر زیادہ سے زیادہ جس کا خواب دیکھ سکتا ہے "لیکن یہ تو ملک کے مستقبل کا سوال ہے"کسی نے کہا۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب یہ تھا:جی ہاں لیکن یہ ضمانت چاہیے کہ میرے کام میں مداخلت کوئی نہیں کرے گا، بالخصوص زرداری خاندان۔ باقی تاریخ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے تعلق نے چودھری کی طرف اور بھی متوجہ کیا۔ البتہ ؛نون لیگ نے گورنر بنایا تو مایوسی ہوئی۔ خوش بخت تھے کہ بالآخر جان چھوٹی اور آزاد ہو گئے۔ یاد ہے کہ تحریک انصاف سے وابستہ ہوتے ہی، فوراً اس ناچیز سے رابطہ کیا۔ کہا کہ تمہاری تنقید بجا مگر تبادلہ خیال ہونا چاہیے۔ رفتہ رفتہ بے تکلفی ہوتی گئی اور اب تک برقرار ہے۔
پچھلے برس کی بات ہے، گورنر ہائوس میں ان سے ملنے گیا۔ رخصت ہوتے ایک ملاقاتی نے کہا:آپ کے کالر پہ خون لگا ہے۔ مذاق میں اس کی بات ٹال دی "اگر خون ہے تو میرا اپنا ہی ہوگا"۔ چودھری ہنسے اور کہا: خون نہیں لپ اسٹک ہے۔ معاً خیال آیا کہ ابھی ابھی ان کی سیکرٹری کا سامنا ہوا تھا۔ میرے لئے وہ بچوں کی مانند ہے، میری بیٹی کی ہم عمر۔ ان کے والد اور خاندان سے شناسائی تھی۔ لپک کر آئی اور کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ کئی برس بیت چکے تھے، چند سیکنڈ لگے تو اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ اسی بے خیالی اور غیر حاضر دماغی میں کالر پہ رنگ لگا۔
چودھری صاحب نے گرم پانی منگوایا اور لیموں کی مدد سے صاف کرنے کی کوشش کی۔ وقت گزرتا گیا اور بے تکلفی بڑھتی گئی۔ قلم کے مزدور کو مصروف آدمی سے واسطہ کم پڑتا ہے مگر انہی کی طرح یہ ناچیز بھی بے ساختگی پہ اعتبار رکھتا ہے۔ اعتماد میں تکلف کیسا۔
کبھی کہیں بھی ان سے بات ہو، تمہید بیچ میں نہیں آتی۔ پچھلے برس قریبی گائوں کے کچھ لااُبالی اور شرارتی لوگ اڈیالہ روڈ راولپنڈی پر خاندان کی مختصر سی مزروعہ زمین میں داخل ہوئے۔ چوکیدار کو دھمکایا اور قتل کرنے کی دھمکی دی۔ امجد جاوید سلیمی انسپکٹر جنرل پولیس تھے، پرانے شناسا۔ پورا ایک ہفتہ انہیں فون کرتا رہا۔ موصوف نے سن کر نہ دیا۔ مجبور ہو کر گورنر صاحب کو زحمت دی کہ راولپنڈی میں کسی پولیس افسر کو فون کر دیں۔ ایک کانسٹیبل بھی چلا جائے تو رفوچکر ہو جائیں گے کہ کوئی تنازعہ ہے نہ مسئلہ۔
بے چارے ڈرے ہوئے دیہاتی، چوکیدار کی جان پر بنی تھی۔ تاکیداً چودھری صاحب سے عرض کیا کہ تاخیر نہ کیجیے گا۔ گھنٹے بھر کے بعد یاد دہانی کرائی تو بولے: فکرنہ کرو ابھی دیکھتا ہوں۔ جیسا کہ میرے سننے والے سب جانتے ہیں ایسے میں غصہ کبھی بے قابو ہو جاتا ہے۔ بری عادت ہے، میں اس کا دفاع نہیں کرتا۔ کرنا چاہیے ہی نہیں کہ غصہ حرام ہے۔ اس وقت البتہ میں نے یہ کہا:کیا یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔ سیکرٹری سے کہا ہوتا تو اب تک نمٹ جاتا۔ آپ عجیب آدمی ہیں۔ چودھری کو حیرت تو ہوئی مگر تحمل قائم رکھا۔ کہا: پریشان کیوں ہوتے ہو، ابھی کچھ ہو رہے گا۔
سلیمی صاحب کا ستایا ہوا، ضروری کام میں مصروف، الجھا ہوا ذہن، دلّی والوں کے بقول میرا ناریل چٹخ گیا۔ ایک بزرگ دوست سے رابطہ کیا۔ جیسا کہ توقع تھی پل بھر میں گھٹا چھٹ گئی، راوی چین لکھنے لگا۔
اتنے میں آئی جی صاحب نے ٹیلیفون کرنے کی زحمت کی کہ گورنر صاحب کے علاوہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور ان بزرگ سے میں احتجاج کر چکا تھا۔ سلیمی صاحب سے خاکسار نے کہا: ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے، جب مریض کو دوا دینی ہو۔ اگر وہ صحت یاب ہو جائے یا اس کام تمام ہو جائے تو معالج کی کیا حاجت۔ پھر غسّال چاہیے ہوتا ہے۔ سلیمی ششدر رہ گیا۔ بولا آپ ہر ایک سے اسی طرح بات کرتے ہیں۔ عرض کیا: جی ہاں کبھی کبھی، جب طنابیں ٹوٹ جائیں۔ اب آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس کے حواس ٹھکانے آ گئے۔ پھر کبھی ان سے رابطہ نہ کیا؛ حتیٰ کہ رخصت ہو گئے۔
کوئی دن میں کسی سیاسی موضوع پر گورنر صاحب کا موقف معلوم کرنے کے لئے فون کیا۔ بہت دیر کوشش کرتا رہا نہ ملے۔ شبہ ہوا کہ ممکن کوئی دوسرا فون استعمال میں ہو۔ جتلانے کے لئے انگریزی میں ایک جملہ لکھا It's Your Notorious Haroon-ur-Rasheed۔
عجیب بات ہے کہ ایسے دانا اور جہاندیدہ آدمی نے ایک مزاحیہ جملے سے بالکل ہی غلط نتیجہ اخذ کیا۔ وہ سمجھے میں انہیں دھمکی دے رہا ہوں۔ خطا کار ہوں بے شک بعض اوقات برہمی آ لیتی ہے۔ مالک کا ہمیشہ کرم رہا، دھمکی آج تک کبھی نہیں دی۔ یہ احمقوں اور کمزوروں کا شیوہ ہے۔ پروردگار نے ہمیشہ اس سے محفوظ رکھا۔ پھر چودھری سرور ایسے معزز اور بے تکلف دوست کے باب میں، ایسی حرکت کا سوال ہی کیا۔
کل صبح 92 نیوز کی پانچویں سالگرہ میں وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور گورنر صاحب تشریف لائے۔ ان سے کہا گیا کہ اخبار نویس ہمیشہ آپ سے سوال کرتے ہیں۔ آپ چاہیں تو آج ان سے بازپرس کر سکتے ہیں۔ کچھ حیرت ہوئی جب چودھری نے، اس Notorious والے واقعے کا ذکر کیا۔ عرض کیا: میرا خیال تھا کہ آپ ایک عمدہ حسِّ مزاح کے حامل ہیں۔ اب بھی رائے یہی ہے۔ آپ کو مغالطہ ہوا، میری مراد یہ ہرگز نہ تھی اور نہ اپنی یہ افتادہ طبع ہے۔
خیر باشد، میرا خیال ہے غلط فہمی ان کی دور ہوگئی۔ اگر کچھ باقی ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ دھل جائے گی۔ زندگی یہی ہے، طرح طرح کے تماشے دکھاتی ہے۔ طرح طرح کے مبالغوں میں مبتلا کرتی ہے۔
قدیم عرب کہا کرتے:انسان کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے۔ کتنا ہی کوئی محتاط ہو، کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں تو غلطی کا مرتکب ہوگا۔ علاج اور اندمال یہ ہے کہ مان لی جائے۔ صورت حال کا تقاضا اگر ہو تو وضاحت کی جائے۔ حماقت کا ارتکاب ہوا ہو تو معافی مانگ لی جائے۔
یہی زندگی ہے۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ آدمی کو آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا اور یہ بھی کہ غلطی سے نہیں، غلطی پر اصرار کرنے سے تباہی آتی ہے۔ چودھری سرور سے ایک بار پھر معذرت۔