Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Waqt e Qiyam

Waqt e Qiyam

دو نتیجے آزمائش کے نکلتے ہیں۔ کسی کو وہ صیقل کر تی ہے اور کسی کو نڈھال۔ آزمائش سبھی پہ آتی ہے۔ فرمان یہ ہے کہ آدمی کو ہم نے پیدا ہی اس لیے کیا۔ جو کھڑا رہا وہ سرخرو، جو ڈر گیا وہ برباد۔ خوف دیمک کی طرح کھا جا تاہے۔ کمزور پہلو کس کے نہیں ہوتے مگر جیسا علم اور مسلم برصغیر کا جیسا ادراک حکیم الامت کو تھا، کم کسی کو نصیب ہوتا ہے۔

یہ مصرعہ لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

امریکہ پاکستان کو بلیک میل کرنے پہ تلا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت، سیاسی پارٹیاں، دانشور، قانون دان اور میڈیا، کم ہیں جنہیں ادراک ہے۔ مرعوبیت ہڈیوں کے گودے تک۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کو بلایا نہیں۔ اسلام آباد میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ پاکستان امریکہ کے ریڈار پر ہی نہیں۔ جو بائیڈن نے سبھی سے بات کی مگر پاکستان سے نہیں۔ امریکہ نے دو عرب ممالک کو ہمارے پیچھے لگا رکھاہے، اصلاً جو ایک ہیں کہ بھارت کی تھانیداری مان لو۔ بجا ارشاد کہ امن اچھا مگر کس قیمت پر؟ رعایت دی جاتی ہے مگر ایسے دشمن کو کیونکر جو قتل کے درپے ہو۔ افغانستان اور بھارت سے پیہم تخریب کاری ہے۔ کبھی ردّعمل ہم دیا کرتے۔ اب صرف سفید پرچم ہے۔ احتیاط اچھی مگر خوف سے کیا حاصل؟

منٹرکی منطق عجیب ہے۔ پاکستان کی اہمیت نہیں تو یہ اصرار کیوں کہ افغان طالبان کو قائل کیا جائے۔ ہم بھارت کی بالاتری مان لیں۔ بالفرضِ محال ہمارے کہنے پر طالبان امریکی کارندے اشرف غنی کو قبول کرلیں تو اعترافِ شکست کے سوا اس کا مطلب کیا۔ گناہ اور وہ بھی گناہِ بے لذت۔ پندرہ ملین ووٹوں میں سے افغان صدر کو صرف آٹھ لاکھ ملے۔ عبد اللہ عبد اللہ کو شریکِ اقتدار کرنا پڑا۔ بھارتی "را" اور افغانستان کی "خاد" ہمارے گھر میں آگ سلگائے رکھتی ہیں۔ نظر انداز نہیں، انکل سام ان کی پشت پناہی فرماتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے تیرہ برس بھی ہیں، صلح حدیبیہ بھی۔ صبر لیکن پتوارڈال دینے کا نام نہیں۔

سعودی عرب نے تین بلین ڈالر واپس مانگ لیے۔ ابھی پرسوں کی بات ہے کہ پاکستان نے یمن کی جنگ میں شریک ہونے سے انکار کیا تو امارات کے ایک وزیر نے دھمکی دی۔ بجا کہ پاکستان کی وہ مدد کرتے رہے۔ مشکل زمانوں میں، خطرناک بحرانوں میں کبھی ہم نے بھی بخل سے کام نہ لیا۔ مشکل وقت آن پڑا ہے تو وہ بھارت کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ اب وعظ و نصیحت فرما رہے ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں killing with kindness

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا

چارہ سازی اور غم گساری نہ سہی۔ زخم پہ نمک چھڑکنے سے تو کم از کم گریز فرمائیں۔ خطا ہماری ہے۔ ہم بچھتے ہیں تو بچھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مہمان کو سر آنکھوں پہ بٹھایا جا سکتاہے۔ گھر کی چابیاں اس کے حوالے نہیں کی جا سکتیں۔ ایران اور عرب بارہ سو برس سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ پاکستان کی فرقہ ورانہ جنگ میں اپنی پسند کے فریق انہوں نے چن لیے۔ ان کی مالی مدد اور سیاسی پشت پناہی سے اس سرزمین کو سرخ کرتے رہے۔ ایک آدھ ٹانکا ٹوٹ جائے تو فوراً ہی لگا دینا چاہئیے۔ علالت کے آغاز میں علاج آسان ہوتاہے۔ زخم لگے تو فوراً ہی معالج سے رجوع کرنا چاہئیے۔ امریکہ بہادر اور برطانیہ عظمیٰ تو کیا، رفتہ رفتہ ہم پہ وہ حکم چلانے لگے، ڈونلڈ ٹرمپ نے جن کے بارے میں کہا تھا کہ واشنگٹن کی تائید کے بغیر ہفتہ بھر ان کا اقتدار قائم نہیں رہ سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ چین کے ساتھ چار سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا سمجھوتہ کرتے ہوئے ایرانی حاکم نے پاکستان پہ طنز کرنا ضروری سمجھا۔ چین سے ایک جملہ منسوب کیا گیا مگر وہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا: ہم وہ نہیں، ایک ٹیلی فون پر جو ڈھیر ہو جائیں۔ کس رسان سے وہ بھول گئے اور کب سے بھولے ہوئے ہیں کہ ایران عراق جنگ کے ہنگام اسلحے سے لدی ہوئی ریل گاڑیاں پاکستان نے بھیجی تھیں۔ عین حالتِ جنگ میں ان کے جنگی طیارے اڑانے والوں کو تربیت دی تھی۔ اپنے مفادات خطرے میں ڈال کر تہران کے خلاف فریق بننے سے انکار کیا۔

ایرانی پریس پاکستان کی تحقیر پہ تلا رہتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ بہار میں مشہد میں ایران کے سب سے بڑے اخبار "خراسان" کے مدیر سے عرض کیا: پاکستانی پریس ایران کے باب میں ہر ایک نکتہ نظر چھاپتاہے، آپ کیوں نہیں؟ بولے: کچھ وجوہات ہیں۔ گزارش کی: کوئی ایک بتا دیجیے۔ ارشاد فرمایا: مثلاً عبدالمالک ریگی۔ مسافر دنگ رہ گیا "حضور عبد المالک ریگی کے ہاتھ باندھ کر آپ کے حوالے کیا" امریکی ایما پر جو بروئے کار تھا۔ بغلیں جھانکنے لگے۔ ایرانی اخبارات کے مدیرانِ گرامی کا تقرر ولایتِ فقیہہ فرماتے ہیں۔ اردو زبان کے لیے ایران میں صرف بھارتی بلائے جاتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو حافظ شیرازی کی سرزمین ہی سے وارد ہوا تھا۔ حافظ شیرازی، جس نے یہ کہا تھا:

صبا بہ لطف بگو آں غزالِ رعنا را

کہ سر بہ کو ہ و بیاباں تو دادہ ای مارا

چوں باحبیب نشینی و بادہ پیمائی

بہ یاد دار محبان باد پیماں را

اے بادِ صبا نہایت ادب کے ساتھ اس غزالِ رعنا سے یہ کہنا: تو نے ہمیں کوہ و بیاباں کے حوالے کر دیا۔ جب اپنے حبیب کے ساتھ بیٹھو اور بادہ نوشی کرو تو انہیں یاد کرنا جو ہوا کے ساتھ چلے گئے۔

چین سے چار سو ارب ڈالر کی خوشخبری ایران کو ملی تو اہلِ پاکستان شاد ہوئے۔ ان کا تمسخر اڑانا کیوں ضروری تھا۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسلامی انقلاب کا خیر مقدم اہلِ پاکستان نے کیا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے آیت اللہ خمینی کے لیے طیارہ بھیجنے کی پیشکش کی تھی، جو پیرس سے انہیں تہران پہنچائے۔ انہیں وہ حضرت آیت اللہ امام خمینی کہا کرتے۔ افغانستان میں روسی افواج نے قتلِ عام کیا۔ پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑی تو بسورتا ہوا ایرانی پریس پاکستان کا تمسخر اڑانے لگا۔ غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبد الرحمٰن کو ان کی خدمت میں بھیجا گیا مگر افسوس، مگر افسوس۔

افغانستان کو امن درکار ہے اور پاکستان پوری قوت سے اس کارِ خیر میں جتا ہے۔ روسی جانتے ہیں کہ پاکستان کے ہاتھ خالی نہیں۔ امریکہ سے تو خیر کیا شکوہ، عربوں اور ایرانیوں کو کیا ہوا؟ مدد کو چین آتا ہے۔ رعایت ہم واشنگٹن کو دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ واشنگٹن میں گھمنڈ کی آبیاری ہوتی ہے۔ کپتان کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن اس باب میں کچھ نہ کچھ احساس وہ رکھتاہے۔ باقی سب لاچار۔ امریکہ گویا پروردگار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور سیاست کار، کسی کو یاد نہیں کہ محمد علی جناح نام کا ایک آدمی ہوا کرتا تھا۔ کسی کو یاد نہیں کہ اس کے توکل ہی نے معجزہ کر دکھایا تھا۔ تجزیوں میں اور سبھی کچھ ہے۔ اگر نہیں تو وہ نہیں، جس نے سب انسانوں کو پیدا کیا اور جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی ہلتا نہیں۔

دو نتیجے آزمائش کے نکلتے ہیں۔ کسی کو وہ صیقل کر تی ہے اور کسی کو نڈھال۔ آزمائش سبھی پہ آتی ہے۔ فرمان یہ ہے کہ آدمی کو ہم نے پیدا ہی اس لیے کیا۔ جو کھڑا رہا وہ سرخرو، جو ڈر گیا وہ برباد۔ خوف دیمک کی طرح کھا جا تاہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.