کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر سنتا کون ہے، پرواہ کس کو ہے؟ یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔ اس قدر سفاکی، ایسی بے رحمی، خدا کی پناہ، خدا کی پناہ!
گھوٹکی کے حادثے میں کوئی ابہام نہیں۔ سکھر ڈویژن کے متعلقہ افسر ہیڈکوارٹر کو بتا چکے تھے کہ اس علاقے میں ریل کی پٹڑی خستہ حال ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے آج تصدیق کردی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں، بالخصوص پٹڑی اور انجنوں کی حفاظت کے لیے کافی رقوم مہیا نہیں۔ اسی لیے زیادہ تر حادثے انہی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ افسوس کہ اس ہولناک سنگینی کا کسی کو ادراک تک نہیں۔
پٹڑی کی مرمت کا کام مسلسل کیوں ملتوی ہوتا رہا؟ بتایا گیا ہے کہ یہ حکم سابق وزیر شیخ رشید مدظلہ العالی نے صادر کیا تھا۔ بقول کسے ارشاد کیا تھا: کسی نے اگر یہ جسارت کی تو معافی نہیں ملے گی۔ اس پہ مستزاد سعد رفیق کو انہوں نے ذمہ دار ٹھہرایا۔ شبلی فراز نے ہاں میں ہاں ملائی۔ کوے کو کوئی سفید کہے تو اس کا کیا علاج۔
کیا وہ چین کی امداد سے ریل کی تشکیلِ نو کے انتظار میں تھے؟ ایم ایل ون تو مسلسل التوا میں ہے۔ شیخ صاحب کیا یہ سمجھتے تھے کہ انسانی زندگیوں کی بھینٹ کروڑوں روپے ضائع کرنے سے بہتر ہے؟ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: ایک زندگی جس نے بچا لی، تمام آدمیت کو اس نے بچا لیا۔ ایک آدمی کو، جس نے قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا۔ ریاستِ مدینہ کی تقلید کے علم بردار وزیرِ اعظم کو تحقیقات کا حکم دینا چاہئیے۔ شیخ صاحب نے یہ حکم صادر کیا تھا یا نہیں؟ اگر کیا تھا تو وہ نادانستہ ہی سہی، کیا حادثوں کے ذمہ دار وہ نہیں؟ کیا ان کے خلاف کارروائی نہ ہونی چاہئیے؟
ایک سوال وزیرِ اعظم سے یہ بھی ہے کہ ریل کے سابق وزیر کی حیثیت سے شیخ صاحب کے کارناموں سے وہ بے خبر تھے؟ اگر تھے تو یہ ذمہ داری انہیں کیوں سونپی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ نئے وزیر ریلوے اعظم سواتی اور چئیرمین حبیب الرحمٰن گیلانی نے شیخ صاحب کے رخصت ہونے کے بعد بھی ان کے اس مبینہ حکم پر عمل درآمد کیوں جاری رکھا۔ سواتی صاحب کے بارے میں تو یہ کہ بس وہ باتوں کے دھنی ہیں، دعووں اور نعروں کے۔ عشروں سے گلے سڑے پیچیدہ نظام کی اصلاح اس جذباتی آدمی کے بس کی بات نہیں۔ عالی جناب نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا کہ چھ سے نو ماہ میں ریلوے نفع کما رہی ہو گی۔
شیخ صاحب غیر ذہین ہیں او رنہ غیر متحرک۔ ایسا نہیں کہ توجہ عنایت فرمائیں تو مسئلے کا اور چھور سمجھ نہ سکیں۔ آدمی کی مگر ترجیحات ہوتی ہیں۔ ہر شخص کا ایک مزاج ہوتاہے۔ شیخ صاحب کی ترجیح ریلوے یا اب امن و امان ہرگز نہیں، اپنا حلقہء انتخاب ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں پیہم رونمائی۔ عالی جناب کو اپنی ذاتِ گرامی سے کبھی پل بھر بھی فرصت نصیب نہ ہو سکی۔
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
تباہ حال ریلوے کو ایک ایسے نگراں کی ضرورت ہے، ہمہ وقت جو اس کی اصلاح وتعمیر کے جنون میں مبتلا رہے۔ بگڑے ہوئے کام ایک والہانہ وابستگی سے سنوارے جاتے ہیں۔ یہ جناب شیخ، حضرت اعظم سواتی اور قبلہ حبیب الرحمٰن گیلانی کے بس کی بات نہیں۔ عزم و ہمت اور دانش و استقلال درکار ہے۔ ان حضراتِ گرامی کا دامن تدبر سے لبریز ہے اور نہ مستقل مزاجی سے۔
جمعہ کی شام شیخ صاحب اکثر لاہور تشریف لے جاتے اور ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے۔ کچھ اپنی ستائش، کچھ مخالفین کی توہین اور تحقیر۔ عمر بھر یہی ان کا مشغلہ رہا اور اب فطرتِ ثانیہ بن چکا۔ کبھی نواز شریف کے مخالفین کی کردار کشی کیا کرتے۔ اب کپتان کے حریفوں کی۔ غالبؔ نے کہا تھا
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
افسوس کہ شیخ صاحب سے یہ بھی کہا نہیں جا سکتا۔ کس کی یہ مجال ہے کہ انہیں مخاطب کرے۔ چئیرمین حبیب الرحمٰن گیلانی شیخ صاحب کے سچے پیروکار سمجھے جاتے ہیں۔ لاہور میں آپ کی قیام گاہ ہے چنانچہ وہ بھی جمعہ بلکہ گاہے جمعرا ت کو لاہور تشریف لے جاتے ہیں اور پیر کی صبح اسلام آباد میں نمودار ہوتے ہیں۔ حادثے کے دن بھی یہی ہوا۔ ڈی ایم جی گروپ سے تعلق ہے اور ریل کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ افسروں کا کہنا ہے کہ جمعہ او رہفتہ کے دن ان کے لیے آزمائش کے ہوتے ہیں، طویل اجلاس۔ کمیٹی روم میں سو ڈیڑھ سو افراد کا مجمع۔ اجلاس تبادلہء خیال کے لیے ہوتے ہیں، غور و فکر کے لیے۔ ایک لامحدود، بے ہنگم مجمع سوچ بچار اور مسائل کے ادراک میں کتنا مددگار ہوگا۔
کیا کبھی کوئی اختلاف کی جسارت بھی کرتاہے۔ جواب ملا: جی ہاں تبادلے کا خطرہ مول لینے پرجو آمادہ ہو۔ سارااہتمام اپنی انا کو گنے کا رس پلانے کے لیے۔
ان کی محنت بھی مری حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے قوت بازو بھی مری
گیلانی صاحب کی آرزو ہے کہ سب مسافر اور مال گاڑیاں ٹھیکے پر دے دی جائیں۔ کہا جاتاہے کہ کچھ ٹھیکیدار ان کے پسندیدہ ہیں اورکچھ ناپسندیدہ۔ ایسی دو کمپنیوں کا نام لیا جاتاہے، جو ریلوے کے واجبات ہڑپ کر گئیں۔ چئیرمین کو پھربھی عزیزہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز آپ کا وہ فارمولہ ہے، جس پر یقین ہی نہیں آتا۔ ایک افسر نے بتایا:معاوضے کا گوشوارہ مرتب کرنے کا وقت آیا تو حکم دیا کہ ملازمین کی تنخواہیں، تیل اور دوسرے اخراجات منہا کر دیے جائیں۔ اس کے بعد ٹھیکے کا تعین کیا جائے۔
کہا جاتاہے کہ سعد رفیق کے دور میں، جب ان کی ریاضت سے ریل کی حالت کچھ بہتر ہوئی، جنرل الیکٹرانکس سے جدید انجن خریدنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جیسا کہ ہونا چاہیے، نئے انجنوں کا بیشتر نظام الیکٹرانک ہے۔ کمپنی نے عملے کو تربیت دینے کی پیشکش کی۔ بتایا جاتاہے کہ گیلانی صاحب کے دفتر میں ابھی تک یہ تجویز زیرِغور ہے۔ سنا ہے کہ ریلوے میں حیرت انگیز کارناے انجام دینے کے بعد اب وہ پٹرولیم کی وزارت میں براجمان ہونے کے متمنی ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ ایسے عبقری کے لیے اس سے اچھا محکمہ اور کون سا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سعد رفیق ہی کے زمانے میں چین کی ایک کمپنی سے ریل کے ڈبے خریدنے کا فیصلہ ہواتھا۔ شیخ صاحب براجے تو از سرِ نو ٹینڈر جاری کرنے کا حکم دیا۔ روپے کی قیمت گر رہی تھی، نرخ بڑھ گئے۔ ایک بار پھر انہی یا ان کے جانشین گیلانی نے یہی فیصلہ صادر کیا۔ نرخ کچھ اور بڑھ گئے۔
تحقیقات کا وزیرِ اعظم حکم دیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ کم ہوتے ہوتے کہیں کہیں گاڑیوں کی رفتار 90کلومیٹر سے 30کلومیٹر تک آچکی۔ سب جانتے ہیں کہ مسافر نہیں، منافع مال گاڑیوں سے ممکن ہے۔ ملک میں سیمنٹ کی پیداوار دوگنی ہو چکی؛چنانچہ کوئلے کی ضرورت بھی۔ معاہدے کے مطابق دساور سے افغانستان لے جایا جانے والا کل سامان ریل سے جانا چاہئیے۔ کراچی میں کوئی افسر مگر بات سننے کا روادار نہیں۔
کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر سنتا کون ہے، پرواہ کس کو ہے؟ یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔ اس قدر سفاکی، ایسی بے رحمی، خدا کی پناہ، خدا کی پناہ!