Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Americi Bill Ka Kaise Jawab Dena Hoga?

Americi Bill Ka Kaise Jawab Dena Hoga?

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے نرم الفاظ استعمال کرتے ہوئے بِل کو "بے جواز اور غیر موزوں " قرار دیا ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے بِل کو افغانستان کے ضمن میں 2001ء سے جاری امریکا پاکستان تعاون بشمول افغان امن عمل کے لیے سہولیات فراہم کرنا اور حال ہی میں افغانستان سے امریکا اور دوسرے ملکوں کے افراد کے انخلا کے لیے کیے جانے والے تعاون کی روح سے غیر ہم آہنگ قرار دیا۔ افسوس یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں بھرپور جواب دینا چاہیے۔ اب تشویشوں کو دبانے کا وقت نہیں۔ طلاق ہونا اٹل ہے۔ ہم "غیر جانب دار" ہونے اور دوسروں کے مقابلے میں طالبان کو مدد نہ دینے کی باتیں بہت کر چکے۔ ہم افغانستان میں امن کے لیے تعاون کرنے میں اپنے مطلوبہ کردار سے بڑھ کر تعاون کر چکے ہیں۔ ہم امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یقین دلاتے آئے ہیں کہ ہم ایک پْر امن اور مستحکم افغانستان کے حامی ہیں لیکن ان سب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ در حقیقت ہمیں جھوٹا کہا جا رہا ہے اور کوئی بھی ہمارے بیانات سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ اس سے بھی ناگوار امر یہ ہے کہ ہم کم زور رہے اور نا معلوم کے خوف کے شکار رہے تو نا خوش گوار نتائج سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے سامنے جوابی لافیئر کے کون کون سے راستے ہیں؟ اس سے قطعِ نظر کہ بِل قانون بنتا ہے یا نہیں (خاصا امکان ہے کہ یہ قانون نہیں بنے گا)، پاکستان کے دفترِ خارجہ اور این ایس اے کو اس بِل کا، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی پاکستان کی تذلیل جو، شِق وار ٹھوس جواب لازماً بھیجنا چاہیے۔ یہ نرم لہجے میں بات کرنے کا وقت نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم امریکا کے پالیسی سازوں کا ڈنک نکال ڈالیں، جو اپنی تذلیل کی وجہ سے ہماری ہتک کر رہے ہیں۔ ہماری جانب سے بھرپور جواب ہمارے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کا عزم واضح کرے گا۔ یہ بِل ماضی کے ایک سوچے سمجھے اقدام جیسا ہے۔ 1989ء میں سابق سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کو امریکا کی عائد کردہ پابندیاں جھیلنا پڑی تھیں، جنھیں "پریسلر ترمیم" کہا جاتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز ڈرتے ہیں کہ پاکستان کو ویسے ہی مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا۔

ایسا ہوتا تو ہوتا رہے۔ در حقیقت ہمیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے خارج ہونے کو فراموش کر دینا چاہیے۔ ہمارے بارے میں تو پہلے ہی یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ ہم "چین کے کیمپ" میں ہیں اور یہ توقع کرنا حماقت ہو گی کہ معاملات اس سے بہتر ہوں گے۔ ہمارے لیے یہ حقیقت قبول کرنا اور چین، ترکی، سعودی عرب اور دیگر سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ قریبی تعلقات استوار کرنا سب سے اچھا عمل ہے۔ اب ہمیں اپنی معیشت جنگی بنیادوں پر استوار کرنا اور اتحادیوں کی طرف سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول بنانا ضروری ہے جو ہمیں مالی اعتبار سے قائم و دائم رکھے گی۔

یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ مذکورہ بِل بھارتی لابی کی بھرپور تائید و حمایت کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ بھارت نہ صرف افغانستان میں سرمایہ کاری کھو چکا ہے بلکہ وہ وہاں اپنی "عزت اور ساکھ" بھی گنوا چکا ہے۔ اب وہ پاکستان اور طالبان کا گٹھ جوڑ دکھانے کے لیے کچھ بھی کر گزرے گا خواہ وہ کتنا ہی لا یعنی و عبث ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے حکمتِ عملی بنانے والوں کو یہ امر اپنے ذہن میں لازماً رکھنا ہو گا لیکن ہمیں نئی دہلی سے جنم لینے والی ہر لایعنیت پر تنقید کرنے کی بجائے دفترِ خارجہ اور این ایس اے کو اس سے نمٹنے دینا چاہیے۔ بہت سارے باورچی کھانے کو خراب کر دیتے ہیں جب کہ ہمارا کھانا تو پہلے ہی باسی ہو چکا ہے۔ پاکستان کو ایک اور تزویری پہلو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ وہ یہ کہ یہ امریکا کا "بازو مروڑنے" کا حربہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ وہ جان سکے کہ پاکستان کتنے پانی میں ہے اور یہ کہ وہ امریکا کے نرم پڑ جانے پر کیا کیا رعایتیں دینے پر راضی ہو گا۔ پاکستان کو اس وقت تک "قطعاً نہیں " دہرانا فراموش نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ امریکا کی اقتدار و اختیار کی راہ داریاں اس سے گونجنے نہیں لگتیں۔ عزت پانے کے لیے کاوش کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی بِکنے والی چیز نہیں جسے بازار سے خریدا جا سکتا ہو۔

یہ پاکستان کے لیے اس امر کا بھی موقع ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے تعاون سے یہ بِل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے جائے۔ ہم ایک خود مختار ریاست ہیں جو دوسروں کی بہت بڑی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ یہ بِل پاکستان کی خود مختاری اور کسی دوسرے کی جنگ میں ہزاروں جانیں قربان کر دینے والے عوام کی ہتک ہے۔ ہم جو بات سمجھنے میں بار بار ناکام ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ کامیابی و کام رانی کے حصول کے لیے ہر پیش قدمی کا "کامیاب" ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ موزوں وقت پر عملی اقدام کی محض دھمکی ہی سٹیٹَس کو میں ہل چل پیدا کر سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے جانے سے دنیا پر ظاہر ہو گا کہ اب ہم آسان شکار نہیں رہے۔ امریکا کی جانب سے عملی اقدام کے خطرے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے غلط فیصلوں اور کم زور جوابوں کے باعث برے بنے ہیں۔ امریکا کی غلامانہ حمایت ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ ہمیں "برے لوگ" قرار دیا جا چکا ہے حالانکہ ہم نے امریکا کا پھیلایا کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ جب تک مندرجہ بالا خطوط پر ہماری جوابی لافیئر شروع نہیں ہو گی تب تک امریکا اور بھارت جیسے ہمارے دشمن ہمیں آسانی سے نشانہ بناتے رہیں گے۔ ہمیں آئیں بائیں شائیں کرنے یا نرم رویہ اپنائے رکھنے کی بجائے لازماً اس لافیئر کو دوسرے انداز سے شروع کرنا ہو گا اور دنیا کو دکھانا ہو گا کہ ہم بھرپور لڑائی کیے بغیر زیر نہیں ہوں گے۔ (ختم شد)