Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. FATF Ki Lawfair, Pakistan Se Ye Sabaq Seekhe Ja Sakte Hain (1)

FATF Ki Lawfair, Pakistan Se Ye Sabaq Seekhe Ja Sakte Hain (1)

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے 22 اکتوبر کو فیصلہ کیا کہ ترکی کو "گرے لسٹ" میں شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ ترکی کے بہت سے لوگوں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث بنا لیکن جیوپولیٹیکل پیش رفتوں پر نظر رکھنے والے افراد جانتے تھے کہ ترکی کا ایف اے ٹی ایف میں شامل کیا جانا ایک عیاں اور ناگزیر امر ہے۔ اب جب کہ یہ ناگزیر امر وقوع پذیر ہو چکا ہے تو ترکی کو چاہیے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کے نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔

ترکی کے پالیسی سازوں کو بھی چاہیے کہ ایف اے ٹی ایف کے ارتقا اور ان عوامل کو سمجھیں جنھوں نے اسے دخل اندازی کے اختیارات کا حامل بہت با اختیار و طاقت ور بین الاقوامی ادارہ بنا دیا ہے۔ بظاہر ایک بے ضرر بین الاقوامی ادارہ ایف اے ٹی ایف ایک مؤثر بین الاقوامی ہتھیار بن چکا ہے جسے "نا فرمان" ریاستوں کو مطیع و فرماں بردار بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کو معتبر ظاہر کرنے کے لیے سب کچھ "قانون" کے عنوان کے تحت اور بین الاقوامی برادری کی منظوری کے پردے میں کیا جاتا ہے لیکن اصل ایف اے ٹی ایف قانون کے نمائشی پردے کے پیچھے نہاں ہے، ایک ایسا ادارہ جو قانون اور سیاست کے سنگم پر جگہ بنا چکا ہے اور جس کے اساسی قانونی سانچے کو جیوپولیٹکس رفتہ رفتہ کھا چکی ہے۔

ایف اے ٹی ایف 1989ء میں امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ جی سیون نے کالا دھن سفید کیے جانے کو روکنے کے لیے تشکیل دی تھی۔ اِس وقت ایف اے ٹی ایف کے ارکان کی تعداد انتالیس ہے (سینتیس ملک اور دو علاقائی تنظیمیں)۔ گزرے برسوں میں ایف اے اٹی ایف کا دائرہ کار اور اختیارات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں 1267 (1999ئ) اور 1373 (2001ئ) کے ذریعے بڑھائے گئے۔ ان قراردادوں، خاص طور سے نائن الیون کے حملوں کے بعد منظور کی جانے والی یو این ایس سی قرارداد نمبر 1373 (2001ئ) نے ایف اے ٹی ایف کے اختیارات میں بہت اضافہ کر دیا۔

یو این ایس ای کی ان دو قراردادوں کا مشترک مقصد دہشت گردی اور دہشت گردوں کو رقوم مہیا کرنے کا عمل ایف اے ٹی ایف کے دائرہ کار میں لانا تھا۔ بدقسمتی سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو رقوم مہیا کیے جانے کے عمل سے نمٹنے کا بین الاقوامی برادری کا شریفانہ مقصد اب چند منتخب ملکوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور سے جہاں ایف اے ٹی ایف کو ایران، پاکستان اور اب ترکی جیسے ملکوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے وہاں ایف اے ٹی ایف نے بی وی آئی اور کیمین آئی لینڈز جیسے کالا دھن سفید کرنے کے محفوظ مراکز اور ان معروف عالمی مالیاتی مراکز کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ بدعنوان لوگوں نے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر وہاں جمع کرا رکھے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پاکستان کا تجربہ اس کی توثیق کرتا ہے۔ گزرے برسوں میں ایف اے ٹی ایف اور اے پی جی (ایف اے ٹی ایف کا ایک ایسوسی ایٹ رکن) نے امریکا اور بھارت کی پشت پناہی سے پاکستان کو بے شمار تقاضے پورے کرنے پر مجبور کیے رکھا، جس کا مجموعی مقصد یہ تھا کہ پاکستان تن تنہا اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرے۔

مثال کے طور سے پاکستان سے نہ صرف یہ تقاضا کیا گیا کہ وہ دہشت گردی کے لیے رقوم مہیا کیے جانے کے عمل کے خلاف تفتیش کرنے اور مقدمات چلائے جانے کے لیے قانون سازی کرے اور مقدمات چلانے والوں کو تربیت بھی دے، بلکہ اس سے یہ بھی تقاضا کیا گیا کہ وہ اپنی حدود کے باہر بھی پابندیوں کا اثر بڑھانے کے لیے اپنے سرگرم ہونے کے ثبوت فراہم کرے (جو ایف اے ٹی ایف کے لیے اطمینان بخش ہوں)۔ چوں کہ ایف اے ٹی ایف جج، جیوری اور جلاد کے کردار خود ہی ادا کرتی ہے، اس لیے پاکستان اپنے آپ کو ختم نہ ہونے والے تقاضوں کے شیطانی جال میں پھنسا پا رہا ہے۔

پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کے جال میں پھنسے رہنے کو اسلام آباد کی خارجہ پالیسی سے الگ کر کے کیوں نہیں دیکھا جا سکتا؟ حالیہ مہینوں میں وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکا کو ہمسایہ ملک افغانستان پر فوجی حملے کرنے کے لیے پاکستان میں ایئربیس قائم کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔

افغانستان میں امریکا کی پشت پناہی سے قائم حکومت ختم ہونے کا الزام نامنصفانہ طور سے پاکستان پر لگایا گیا جب کہ امریکا اور بھارت پاکستان کے سب سے اہم اتحادی چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ کھیل ہاتھ کی صفائی سے کھیلا جا رہا ہے، جب بھی پاکستان کی پیش رفت ایف اے ٹی ایف میں جائزے کے لیے پیش کی جاتی ہے پاکستان کے وفد کو مطالبات کی نئی فہرست تھما دی جاتی ہے۔

مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے سامنے ہر مرتبہ ایک حرکت کرتا ہدف رکھا جائے اور اس عمل کے دوران اسے بھول بھلیاں میں پھنسا کر اسے اس کی تزویری سمت سے ہٹا دیا جائے۔ یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی پاکستان کے ساتھ لافیئر سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی معیشت کو پہنچا ہے۔ (جاری ہے)