جب جوڈیشل ایکٹوازم سیاسی یا شخصی ترجیحات کی بنا پر عدالتوں کے اپنے متعین کردہ کرداروں سے انحراف کا سبب بنتا ہے تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے زیریں عدالتوں کے لیے نظیر بن جاتے ہیں۔ ہم قانونی مواد وغیرہ سے عاری ناقص اور من مانے فیصلوں کی تاریخ کے حامل ہیں۔ مولوی تمیز الدین کیس، دوسو کیس، ذوالفقار علی بھٹو کیس اور حالیہ پاناما کیسزاس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ مزید برآں ان من مانے فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی اٹھانا اور بھاری مالی نقصانات بھگتنا پڑے ہیں۔ پاکستان کو ریکوڈک کیس میں چھ ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا جب کہ کارادینیز الیکٹرک یوریٹم اے ایس کیس میں آئی سی ایس آئی ڈی ٹربیونل نے سپریم کورٹ کی فائنڈنگز سے اختلاف کیا اور فیصلہ دیا کہ کوئی بد عنوانی نہیں ہوئی۔
"گلوبل کَمپِیٹِیٹِو رپورٹ" میں بتایا گیا ہے پاکستان کی عدالتیں رشوت اور بے قاعدہ رقوم وصول کرتی اور رشوت دینے والوں کے حق میں فیصلے دیتی ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے جوڈیشل ایکٹوازم کے پاکستان کے لیے الم انگیز نتائج نکلے۔ اس رپورٹ میں ہمارے نظامِ قانون کو پست کارکردگی کے سبب 128 ملکوں میں ایک سو بیسویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
مسائل کہیں اور بھی ہیں۔ آئیے قانون کی تعلیم سے آغاز کرتے ہیں۔ وکلا کو، جن میں سے بعض جج بھی بنتے ہیں، ہمارے نظامِ قانون کے نگہبان ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود پاکستان میں قانون کی تعلیم کا معیار محض خراب نہیں بلکہ اس کی حالت بے حد خراب ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ وکیل بننے والوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی دوسرے پیشے کے لیے نا موزوں قرار پاتے ہیں یا اس سے بھی بد تر یہ کہ وہ کم وقت میں ڈھیر سارا پیسہ کمانے کی غرض سے وکیل بنتے ہیں۔ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں میں قانون کے طلبا کے چناؤ کے لیے ابتدائی چھان بین کا کوئی طریقہ یا پرکھ پڑتال کا عمل رائج نہیں۔ مثبت تبدیلی کا باعث بننے والوں کی حیثیت سے وکلا کو تاریخ میں مرکزی مقام حاصل ہے۔
بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک اعلیٰ ترین وکیل کی سب سے روشن مثال ہیں۔ قانون کی تعلیم دینے والے اداروں میں رٹّے پر زور دیے جانے کے سبب ایسے وکلا سامنے آ رہے ہیں جن پر وکیل کا ٹھپا تو لگا ہے لیکن وہ قانون کی بنیادی مہارت تک سے محروم ہیں اور ذرا بھی نہیں جانتے کہ قانون کو مثبت تبدیلی کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ درخت اتنا ہی اچھا ہو سکتا ہے جتنا کہ بیج اچھا ہو۔ چناں چہ ریاست کو چاہیے کہ پاکستان کا قانون کی تعلیم کا پورا ڈھانچا مسمار کر کے اس کی جگہ ایسا نظام قائم کرے جو امیدواروں کا انتخاب ان کے سابقہ تعلیمی ریکارڈ، مہارتوں کے جائزے، شعوری اہلیت اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں اپنے کردار کے حوالے سے ان کے تصور کو جانچ کر کیا جائے۔
قانون کے طلبا کے لیے لازم ہو کہ وہ کم سے کم تین سال لازمی بھرپور تربیت حاصل کریں گے اور قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھیں بار کا ایک سخت امتحان دینا چاہیے جو کم از کم معیار پر پورا نہ اترنے والوں کو نا اہل قرار دے دے۔ جب تک ہم اپنے قانون کی تعلیم کے نظام کی بھرپور اصلاح نہیں کریں گے تب تک ہم 2019ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے حملے جیسی تخریبی کارروائیاں مزید دیکھتے رہیں گے، جس میں مریضوں کے منہ سے آکسیجن ماسک کھینچ لیے گئے تھے۔۔ چند مستثنیات کے سوا، ہمارے جج عموماً ذہین نہیں ہیں جب کہ بعض اپنی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے معروف رہے (ایک جج کے لیے معیوب امر)۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ بعض جج بد عنوانی میں ملوث ہونے کے حوالے سے بدنام رہے۔ نتیجتاً ہماری عدالتیں سیاست زدہ ہو چکی ہیں جب کہ عوام انصاف کی فراہمی کے معاملے میں نا امیدی کے شکار ہو چکے ہیں۔ بڑا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب تفتیش کا آغاز ایف آئی آر درج کروائے جانے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگرچہ سی آر پی سی اور پولیس رْولز میں تفتیش کے عمل واضح کر دیے گئے ہیں لیکن پولیس کبھی بر وقت تفتیش مکمل نہیں کرتی اور نہ عدالتیں ایسے ناقص مقدمات کا نشانہ بننے والوں کی فکر کرتی ہیں، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق نظر انداز کیے گئے ہوتے ہیں۔
تفتیش مکمل ہونے میں مہینے اور سال لگ جاتے ہیں جب کہ بعض معاملات میں بے قصور لوگ تفتیش کے سست رفتار اور وقت ضائع کرنے والے عمل اور عدالتوں کی جانب سے نا موزوں تاخیر کے سبب اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں۔ مزید برآں عدلیہ کے احتساب کے ناقص نظام کے باعث جب بھی بد عنوانی کی بات آئے تو پاکستان کی عدلیہ ہمیشہ پہلے دوسرے نمبر پر ہوتی ہے۔ گلوبل کرپشن بیرومیٹر رپورٹ" کے مطابق پاکستان کی عدلیہ میں رشوت اور بد عنوانی کے ذریعے فیصلے پیسا دینے والوں کے حق میں کیے جاتے ہیں اور پاکستانیوں کی اکثریت کا ایقان ہے کہ عدالتوں میں جانا پڑا تو انھیں رشوت لازمی دینا پڑے گی۔
"بی ٹی آئی ٹرانس فورمیشن انڈیکس" نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ بد عنوانی، نا اہلی اور تاخیر کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ اسی طرح امریکا کے محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق پر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقدمات کے فیصل ہونے میں تاخیر کا سبب از کار رفتہ قوانین، نا اہل عدالتیں اور جج، مقدمات کا ناقص انتظام اور پرانا نظامِ قانون ہے۔ مزید برآں ماتحت عدالتیں ہمیشہ سیاست، طاقتور لوگوں اور کچھ اداروں کے زیرِ اثر کام کرتی ہیں۔
چناں چہ "ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رپورٹ" کے مطابق ہمارا عدالتی نظام کارکردگی کے اعتبار سے دنیا بھر کے ملکوں میں نچلے ترین درجے میں آتا ہے۔ ججوں کی نا اہلی، از کار رفتہ قانونی ڈھانچے اور ججوں کے احتساب کا ناقص نظام، انصاف کی عدم فراہمی کے بڑے اسباب ہیں۔ ہمارے لیے یہ وقت موزوں ترین ہے کہ ہم اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات کا ایجنڈا متعارف کرائیں۔ (جاری ہے)