رونلڈ ڈَوورکِن نے کہا تھا کہ"قانون کی سلطنت کا تعین رویّے سے ہوتا ہے، علاقے یا قوت یا عمل سے نہیں۔" بنیادی سطح پر قانون کا کام جوہری طور پر کم زور افراد کو بالا دست اور طاقت ور افراد کے ہاتھوں نا انصافی اور جبر سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ "کم سے کم مشترک وصف" دنیا کے ہر قانونی نظام میں موجود ہے خواہ ان میں کتنے ہی سیاسی، سماجی اور ثقافتی فرق ہوں۔ بہر کیف ترقی پذیر ملکوں میں اس وصف کو اکثر اوقات غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں قانون کے اس امتیازی اطلاق کا سبب اور نظامِ قانون کا اصل نقص یہ ہے کہ عوام جبر کرنے والوں کی جانب سے، جو اکثر اوقات ریاستی ادارے اور ان کے نمائندے ہوتے ہیں، اپنے بنیادی حقوق پامال کیے جانے پر خاموش رہتے ہیں۔ عوام اپنے بنیادی حقوق کی پامالی پر اس باعث خاموش رہتے ہیں کہ انھیں اس قانون کا پتا ہی نہیں ہوتا جو اْن کی زندگی، آزادی، امن، بنیادی حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور سماجی انصاف کے فروغ اور حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ بہر کیف ہمارے معاشرے جیسے اور معاشرے بھی ہیں، جہاں قوانین فقط کاغذ پر اچھے ہیں جب کہ ان کا اطلاق بہت کم یا بالکل نہیں کیا جاتا۔
قانون بطور جبر: لیکن اگر قانون کم زور کا تحفظ کرنے کی بجائے جبر و استبداد کا آلہ کاربن جائے تو کیا کِیا جائے؟ بعض ممالک میں کم زور پر جبر کرنے کے لیے نظامِ قانون کو منظم طریقے سے ہتھیار بنایا جا چکا ہے۔ جس طرح حملہ آور کووِڈ نائنٹِین وائرس سے انسانی جسم کی لڑائی جسم کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے اسی طرح پاکستان کا نظامِ قانون معاشرے کی خدمت کرنے کی بجائے اس کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی بے شمار نا انصافیوں سے خوب آگاہ ہیں۔ اس کے لیے خاص مثالیں پیش کرنا ضروری نہیں۔ ضرر پہنچانے کے قانون کی استعداد ہمارے معاشرے میں جس قدر آج ہے اتنی کبھی نہیں رہی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ معاشرہ امید سے محروم ہو چکا ہے جو ہمارے نزدیک بے حد خطر ناک امر ہے۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ اس مضمون کے لکھے جانے کا محرک کیا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ اسفنج جیسا نہیں جو نا انصافیاں جذب کرنے کی لا محدود استعداد کا حامل ہے؟
تبدیلی کی وکالت کرنے والے ایک اور مضمون کی کیا ضرورت ہے؟ گزرے برسوں میں لا تعداد اقدامات کیے گئے جو مثبت تبدیلی نہیں لا سکے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں تبدیلی کا ہر مطالبہ عوام اور اداروں کی کم زور یادداشت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جب کہ اشرافیہ اسے رد کر دیتی ہے (اس موضوع پر آگے چل کر مزید لکھا جائے گا)۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری تحریر بھی کارِ زیاں ثابت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہماری آواز نہیں ہے۔ پھر بھی ہمیں لازماً بولنا چاہیے۔ اپنے سامنے موجود رکاوٹوں اور تبدیلی کو مسترد کرنے والے متحجر نظام کے باوجود ہمارا ضمیر ہمیں تحریک دے رہا ہے۔ نور مقدم اور دیگر عورتوں اور کم زوروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی ان گنت نا انصافیاں ضرب المثل کے مطابق اونٹ کی کمر توڑنے والا آخری تنکا تھیں۔ اس سے ہمارے نظامِ قانون کی مسلسل وسیع ہوتی دراڑیں عیاں ہو گئی ہیں جو بہت سے افراد کو امید سے محروم کر چکی ہیں۔ ہم "قانونی اصلاح" کی بات نہیں کریں گے۔ یہ اصطلاح ان گنت مرتبہ استعمال کیے جانے کے نتیجے میں اپنے حقیقی معانی کھو چکی ہے۔ اس کی بجائے ہم اپنے نظامِ قانون کی بعض گہری دراڑوں پر طائرانہ نگاہ ڈالیں گے اور چند تبدیلیاں تجویز کریں گے جنھیں عمل میں لایا گیا تو امید ہے کہ پٹڑی سے اتری یہ ٹرین دوبارہ پٹڑی پر آ جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ فقط پاکستان کے نظامِ قانون کا جائزہ لینے کی بجائے کْلّی جائزہ لیا جائے اور معاشرے کے ساتھ اس کے تعلق کو بھی جانچا جائے۔ قانون معاشرے میں پنپتا ہے اور معاشرے کے اندر کئی قوتیں مستقبل میں اس کی سمت کا تعین کرتی ہیں۔ قانون اور معاشرہ ایک سکے کے دو رخ ہیں جو کئی جہات میں ایک دوسرے سے گھلے ملے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قانون کی کائنات بہت ساری کہکشاؤں کے درمیان موجود ہے جن میں سے ہر ایک کی اپنی کائنات ہے۔ ان کہکشاؤں کے مابین کشش اور کھچاؤ کی متضاد کیفیات بیک وقت موجود ہیں۔ قانون کی کائنات نہ صرف اپنے آپ درخشاں ہوتی ہے بلکہ اس کا ہالہ ان کہکشاؤں کے ذریعے بھی چمکتا ہے جن کے اندر وہ موجود ہوتی ہے۔ جب تک ہم دْور بِیں نگاہ سے ساری کہکشاؤں کو نہیں دیکھیں گے تب تک ہم قانون کی کائنات اور وسیع تر کہکشانی چَوکَھٹے میں اس کا مقام سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ اگر ہم اس مضمون کے ذریعے اپنی قانون کی کائنات کے ان بلیک ہولوں کا تعین کر سکیں، جو برابری اور انصاف کی امیدوں کو ہڑپ کر چکے ہیں، تو ہماری ذمہ داری کسی حد تک ادا ہو جائے گی۔
اس مباحثے کے آغاز میں قانون اور نظامِ قانون کو ایک کائنات کے طور سے دیکھا جائے گا جو قوانین اور ضوابط، نظامِ قانون کے اندر مختلف عاملین (جج، انتظامیہ اور وکلا) اور ان کے باہمی تعلق پر مشتمل ہے۔ کامن لا والی جڑوں کے باعث پاکستان شان دار قوانین کا حامل ہے جو کم از کم نظری حد تک معاشرتی تعلقات کے سارے نہیں تو بیش تر پہلووں کا احاطہ کرتے ہیں۔ فوجداری نظامِ انصاف کا قانونی ڈھانچہ مجموعہ ضابطہ فوجداری بابت 1898ء (سی آر پی سی) اور مجموعہ تعزیراتِ پاکستان بابت 1860ء (پی پی سی) کی اساس پر استوار ہے۔ یہ دونوں قوانین پولیس میں ایف آئی آر درج کرانے، کارروائیوں اور نظام کے سارے اجزا کے کاموں، عدالت میں مقدمے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دینے سے مقدمے کی سپریم کورٹ میں آخری شنوائی تک، بشمول جیلوں میں اصلاح کے، پورے فوجداری نظام کے لیے طریقہ ہائے کار پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے ان قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں، تاہم فوجداری نظام کو چلانے والا ڈھانچہ اب بھی پرانا ہی ہے۔ مزید برآں شہریوں کے بنیادی حقوق یقینی بنانے کے لیے پولیس اپنا کردار ادا نہیں کر رہی۔ بیش تر اوقات شہریوں کو ایف آئی آر درج کرانے میں سخت مشکلات پیش آتی ہیں۔
اسی طرح ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رپورٹ 2020ء کے مطابق پاکستان کا سِوِل جسٹس سسٹم رسائی اور مالی اعتبار سے قابلِ حصول ہونے، عدم امتیاز، عدم بد عنوانی، حکومت کے اثر انداز نہ ہونے، غیر معقول تاخیر نہ ہونے، غیر جانب داری اور مؤثر اے ڈی آرز پر رکھا گیا۔ بہر کیف ان میں سے کوئی بھی ممکن حد تک اونچے نمبر حاصل نہیں کر سکا۔ ان سارے عوامل کو 0.29 سے 0.39 تک نمبر ملے سوائے غیر جانب داری اور اے ڈی آرز کے جنھوں نے 0.46 نمبر حاصل کیے۔ مزید برآں پاکستان میں عدالتوں پر (بجا طور سے) ہمیشہ جوڈیشل ایکٹوازم کا الزام لگایا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں قانون کے تحت متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس سے ایک قوم کی حیثیت سے عالمی برادری میں ہماری ساکھ خراب ہوئی ہے اور ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مقام و مرتبے پر اثر پڑا ہے۔ (جاری ہے)