"بی ٹی آئی ٹرانس فورمیشن انڈیکس" نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ بد عنوانی، نا اہلی اور تاخیر کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ اسی طرح امریکا کے محکمہ خارجہ نے انسانی حقوق پر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مقدمات کے فیصل ہونے میں تاخیر کا سبب از کار رفتہ قوانین، نا اہل عدالتیں اور جج، مقدمات کا ناقص انتظام اور پرانا نظامِ قانون ہے۔ مزید برآں ماتحت عدالتیں ہمیشہ سیاست، طاقتور لوگوں اور کچھ اداروں کے زیرِ اثر کام کرتی ہیں۔ چناں چہ "ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رپورٹ" کے مطابق ہمارا عدالتی نظام کارکردگی کے اعتبار سے دنیا بھر کے ملکوں میں نچلے ترین درجے میں آتا ہے۔ ججوں کی نا اہلی، از کار رفتہ قانونی ڈھانچے اور ججوں کے احتساب کا ناقص نظام، انصاف کی عدم فراہمی کے بڑے اسباب ہیں۔ ہمارے لیے یہ وقت موزوں ترین ہے کہ ہم اپنے عدالتی نظام میں اصلاحات کا ایجنڈا متعارف کرائیں۔
ہمیں اپنے قانون نافذ کرنے والے محکموں کی استعدادِ کار اور آگاہی بڑھانے، مقدمات چلائے جانے اور ان کا فیصلہ کیے جانے کا عمل مؤثر اور تیز رفتار بنانے اور اپنی جیلوں، پیرول اور پروبیشن کے نظام کو بہترین بین الاقوامی طریقہ کار سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ اسی طرح اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو مالی جرائم کی حکمتِ عملیاں سمجھنے کی تربیت دی جانا چاہیے تاکہ وہ وائٹ کالر جرائم سے متعلق مقدمات کے فیصلے کرتے وقت عقل و شعور اور معروضیت سے کام لے سکیں۔ عدلیہ کی عملی استعداد کا از سرِ نو جائزہ لیا جانا چاہیے اور اگر ضروری ہو تو اسے بڑھایا جانا چاہیے۔ اعلیٰ عدالتوں کی نگرانی کا نظام لازماً قائم کیا جانا چاہیے جب کہ پارلیمان ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے۔
انصاف کی فراہمی میں بار اور بینچ کا کردار بھی اہم ہے۔ یہ تعلق دو طرفہ احترام کا مقتضی ہے کیوں کہ بار ججوں کی پرورش گاہیں ہیں۔ ججوں اور وکلا کا باہمی انحصار ان کا تعلق مضبوط بناتا ہے۔ بہر کیف یہ تعلق پچھلے چند برسوں سے مشکلات سے دوچار ہے۔ ججوں کے تقرر کا فیصلہ اکثر اوقات قانونی برادری میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ ماضیِ قریب میں اس وقت الجھن پیدا ہو گئی تھی جب جسٹس آصف کھوسہ کے دور میں ملک میں عدالتی اصلاح کے نام پر اقدامات کیے گئے تھے۔ تناؤ اس وقت بڑھ گیا جب قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی (این جے پی ایم سی) نے سٹیشن ہاوس آفیسر (ایس ایچ او) کی جانب سے رد کردہ ایف آئی آر کے ضمن میں سی آر پی سی کی شق 22 اے اور 22 بی میں تبدیلیوں کی تجویز دی جب کہ غیر مطمئن فریق اسی مقصد سے زیریں عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ جب جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف عدالتی ریفرینس دائر کیا گیا تو یہ تناؤ جاری رہا۔ اس کے ردِ عمل میں بار نے احتجاج شروع کر دیا اور بار اور بینچ کے مابین تعلقات مزید بگڑ گئے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں جونیئر ججوں کے تقرر سے مزید الجھنیں پیدا ہوئیں۔
ملک بھر کے وکلا نے ان تقرریوں کے خلاف احتجاج کیا اور تقرر میں چیف جسٹس کے کردار اور بعض خاص مقدمات کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں بینچ کی تشکیل اور من مانے فیصلوں پر تنقید کی۔ ہمارے عدالتی نظام کا مخمصہ یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرر میں اکثر اوقات اقربا پروری کی جاتی ہے اور بیش تر صورتوں میں سیاسی تعلق کی بنیاد پر تقرریاں کی جاتی ہیں۔ ایک ہائی کورٹ میں ایسے جج کا تقرر کیا گیا جو حکم راں جماعت کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کا امیدوار تھا۔ اعلیٰ عدالتوں میں ایسی سیاسی تقرریاں صحت مندانہ نظیر قائم نہیں کرتیں اور ان کے من مانے فیصلے انتشار پیدا کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے عدالتی معیارات اونچے کرنے کا موزوں وقت ہے۔ ہمارا عدالتی نظام آج بھی انسانی حقوق کا احترام کرنے اور زنا بالجبر کے بارے میں عوامی شعور بلند کرنے میں ناکام ہے، سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنانے میں معاونت کرتا ہے اور اختلافی آوازیں دبائے جانے کو نظر انداز کرتا ہے اور پھر حکومت اور احتساب کی عدالتوں کی جانب سے شفاف مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو حوالہ زنداں کرنے کو نظر انداز کرتا ہے، جو آرٹیکل 10 اے کے تحت مہیا کردہ شفاف مقدمے کے ان کے بنیادی حق کی صریح پامالی ہے، جو بد قسمتی سے معاشرے کا نیا معمول بن چکی ہے۔
یہ ناانصافیاں نہ صرف ملک کے اندر بدعملی کا باعث ہیں بلکہ دنیا میں پاکستان کی ساکھ اور مقام پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمارے ججوں کو زمبابوے سے بھی نچلا درجہ پانے والے بری کارکردگی کے حامل کلب کا حصہ بننے کی بجائے ڈبلیو پی جے میں ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ کی اعلیٰ درجے کی حامل نہایت محترم عدلیہ جیسا مقام دلانے کے لیے اپنی کارکردگی، طرزِ عمل اور ہمیں فراہم کیے جانے والے انصاف کے معیار پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ پاکستان کا نظامِ قانون معاشرے کی خدمت بجا لانے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ تاریخ میں کوئی ملک ایسا نہیں جو ایک فعال اور مؤثر و مستعد نظامِ قانون کے بغیر اپنے پیروں پر کھڑا ہوا ہو۔ ہم انصاف کا احترام تبھی کر سکتے ہیں جب انصاف موقع اور نتیجے کی مساوات کی ضمانت دے۔ اگر قانون کا رویہ تعمیری اور مستقبل بِیں ہو تو وہ استحکام کا ضامن ہو گا لیکن اگر قانون کو کم زور پر جبر کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہے گا تو پھر وہ ہمیں ازمنہ وسطیٰ کی از کار رفتہ صورتِ حال میں لے جائے گا جو صرف مضبوط اور طاقت ور طبقے کو زندہ رہنے اور پنپنے کی ضمانت دیتی ہے۔
(حسن اسلم شاد مشرقِ وسطیٰ میں مقیم بین الاقوامی قانون دان ہیں۔ مضمون کی تیاری میں ماہر قانون ڈاکٹر اکرام الحق کی معاونت شامل ہے)(ختم شد)