امریکا میں بائیڈن کی حکومت نے آتے ہی ایسے اشارے دینا شروع کردیے، جس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والے امن معاہدے میں کوئی فوری بڑی پیش رفت نہیں ہوگی۔ واقفان حال کو اس معاہدے کے بعد دو دہائیوں سے افغانستان میں جاری جنگ کے فوری خاتمے کی توقع نہیں تھی۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی سنگینی اختیار کرتا گیا کہ آیا اس معاہدے سے اس جنگ کا خاتمہ ممکن بھی ہوگا۔ اس معاہدے کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں جنگ کے صرف دو فریق امریکا اور طالبان شامل ہیں۔
یہ دونوں مدمقابل جنگ کے لیے اپنے مقاصد رکھتے ہیں۔ مکمل طور پر امریکی عسکری قوت پر انحصار کرنے والی افغان حکومت کی رائے کو معاہدے کی شرائط میں تو ملحوظ نہیں رکھا گیا البتہ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سمیت کئی ایسے نکات پر اتفاق کیا گیا جن پر عمل درآمد افغان حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے عام کیے گئے مسودے میں کہیں طالبان کو لڑائی روکنے، جنگ بندی یا پُرتشدد کارروائیوں میں کمی کا پابند نہیں کیا گیا۔
البتہ معاہدے پر دستخط سے قبل ایک خاص مدت کے لیے "تشدد میں کمی" پر اتفاق رائے گیا تھا جس پر عمل درآمد بھی ہو اور امریکا نے اعتراف کیا کہ افغانستان میں اس کی اور دیگر ممالک کی فوج پر طالبان کے حملوں رکے اور بڑے شہروں میں ہونے والی کارروائیوں کا زور بھی تھم گیا۔ لیکن افغان فوج پر طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے شہریوں کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ امریکا نے اگرچہ افغانستان میں فوج کی تعداد کم کرنا شروع کی، تاہم طالبان قیادت پر عائد پابندیاں ختم کرنے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو قائل کرنے سے متعلق اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔
ٹرمپ حکومت افغانستان سے انخلا کے معاملے میں زیادہ تیزی اور سنجیدگی کے ساتھ کام کررہی تھی۔ اس کے علاوہ معاہدہ کرتے ہوئے امریکا نے اس پہلو کو بھی اہمیت نہیں دی کہ اس کی فوجیں نکلتے ہی افغان حکومت طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوگی۔
امن معاہدے کے تحت طالبان اور صدر اشرف غنی کے مابین بات چیت کا آغاز ہونا تھا لیکن یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا یا امریکا کی حدتک اسے اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے شروع ہونے والے مذاکرات رواں سال جنوری میں شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی ختم ہوگئے اور فریقین مطالبات پیش کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یقینی طور پر طالبان نے بھی اس لیے سست روی اختیار کرلی کہ انھیں مئی تک امریکی فوج کے مکمل انخلا کی شرط پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ان حالات میں افغانستان کے اندرونی فریقین کے مابین دوحہ میں ہونے والی گفت و شنید اپنی افادیت کھو چکی ہے اور اس کا ازسرنو آغاز ضروری ہوگیا ہے۔
ٹرمپ حکومت کی جانب سے فوج کے انخلا کے وعدے کا مطلب بھی ہرگز یہ نہیں تھا کہ امریکا افغانستان میں اپنے تمام مفادات سے دست بردار ہو کر لوٹ جائے گا۔ شروع ہی سے یہ بات واضح تھی کہ فوج کے مکمل انخلا کو معاہدے سے زیادہ خطے کی صورت حال سے مشروط رکھا گیا تھا۔ دیے گئے وقت پر فوج کا انخلا نہ ہونے کے باعث فروری 2020 میں ہونے والا معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ طالبان کے لیے اس معاہدے کا مرکزی نقطہ ہی یہ تھا کہ افغانستان سے تمام غیر ملکیوں کو نکال باہر کیا جائے۔
افغانستان میں امن لانے کے لیے کیا گیا معاہدہ تقریباً دَم توڑ چکا ہے اور ایک نئی جنگ کا آغاز قریب ہے۔ حال ہی میں افغانستان کے لیے روس کے نمایندہ خصوصی نے اس معاہدے کی مکمل تنسیخ کے امکان کا اشارہ دیا ہے۔
اگرلڑائی رک بھی گئی تو زراعت اور صنعت سے خالی ہاتھ افغانستان کی معاشی بقا کیسے ممکن ہوگی؟ ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کے "افغانستان ری کونیکٹڈ پروگرام " کی نگرانی کرتے ہوئے مجھے پانچ برس ہوچکے ہیں اوراس دوران مجھے برسلز، برلن، واشنگٹن، ابو ظہبی سمیت دنیا کے کئی دارالحکومتوں میں اس حوالے سے منعقدہ درجنوں سیمینارز اور مذاکروں میں شریک ہونے کا موقعہ ملا ہے اس لیے افغانستان کی معاشی بقا کیسے ممکن ہوگی اس سوال کا جواب میرے لیے بالکل واضح ہے۔
افغانستان کی معیشت مکمل طور پر امریکا کے مرہون منت رہے گی، خاص طور پر مالیاتی اعتبار سے نہ صرف بجٹ بلکہ کاروباری لین دین کے لیے بھی افغانستان کو امریکا اور افیون کی تجارت پر انحصار کرنا پڑے گا۔ جنگ میں سرمایہ جھونکنے کے بجائے خصوصی معاشی زونز بنانے کی ضرورت ہے۔ مجوزہ ری کنسٹرکشن اپرچیونٹی زونز (آر او زیز)موثر ثابت نہیں ہوئے۔
اس کے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے تھے لیکن خانہ جنگی کے دوران ان کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ فاٹا اور سوات کے لیے بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے، سوات میں تو کسی حد تک مقامی سیاحت کا شعبہ بحال بھی ہورہا ہے۔ موٹر وے پر طعام و قیام سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ تاہم پاک افغان سرحد پر بارڈر ٹریڈ زونز (بی ٹی زی) قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے، ان سے نہ صرف روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے بلکہ معاشی امکانات رکھنے والی نئی آبادیاں بھی قائم ہوں گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دیر پا امن کے لیے دیرپا معاشی اقدامات ناگزیر ہیں۔
افغان امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے دو بڑی کوششیں جاری ہیں۔ حال ہی میں روس نے ماسکو میں طالبان، افغان حکومت اور امریکا، چین اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے نمایندوں کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس حوالے سے دوسرے اجلاس کا منصوبہ امریکا بنا رہا ہے۔ آیندہ ماہ یہ اجلاس ترکی میں ہونا متوقع ہے اور اس میں بھارت بھی شریک ہوگا۔
افغانستان میں امن کے لیے جاری کسی کوشش میں بھارت کو شامل کرنا کسی مذاق سے کم نہیں کیوں کہ جنگ جاری رہنے سے اس کا مفاد وابستہ ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے آئی ایس آئی کی کاوشوں کا اعتراف ہونا چاہیے جس نے را کے ہاتھوں میں کھیلنے والے افغان خفیہ اداروں کی شرانگیزی کے باوجود اپنے تجربات اور معلومات کی مدد سے امن عمل کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات بھارت کی غیر موجودگی ہی کی وجہ سے ممکن ہوئے۔
اگر افغانستان میں امن کے لیے کی گئی سب کاوشوں کو رائیگاں کرنا ہے تو بھارت کو اس میں شامل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ افغانستان کے اندر عبوری حکومت اور مستقبل کے سیاسی نظام پر تنازعات پیدا ہوچکے ہیں۔ طالبان عبوری حکومت اور اسلامی سیاسی نظام کا مطالبہ کررہے ہیں جب کہ اشرف غنی اس مطالبے کو مسترد کرچکے ہیں۔
افغانستان میں امریکا، روس اور چین کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اس میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ 2001کی بون کانفرنس کی طرح ان پر کوئی حل تھوپنے کی کوئی بے سود کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ اب تک کے حالات سے یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ افغانستان سے فوج کے انخلا میں تاخیر سے پورا منظر نامہ ایک بار پھر بدل جائے گا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)